بلدیاتی انتخابات سیاسی جماعتوں کی دُکھتی رگ ہے جس پر
پاکستان کی سپریم کورٹ نے پیر رکھ کر انہیں مجبور کر دیا ہے کہ فوراً
بلدیاتی انتخابات کرائے جائیں سب سے پہلے خیبر پختونخواہ کی صوبائی حکومت
نے صحیح طریقہ اختیار کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے احکامات مانے اور صوبے میں
بلدیاتی انتخابات کرانے کا اعلان کیا تھا بقول صوبائی حکومت جلد ہی صوبے
میں بلدیاتی انتخابات ہو جائیں گے۔ پنجاب حکومت نے پس و پیش کا راستہ
اختیار کیا اور سپریم کورٹ گئی اور کہا کہ عدالت کی دی ہوئی تاریخ پر
بلدیاتی انتخابات کرانا حکومت پنجاب کے لیے ممکن نہیں ہمیں ابھی حد بندیاں
کرانی ہیں وغیرہ وغیرہ سپریم کورٹ کی طرف سے دی گئی تاریخ کو آگے بڑھایا
جائے پنجاب حکومت نے جان بوجھ کر غیر جماعتی انتخابات کا بل پاس کیا جس سے
اختلاف پیدا ہوئے دوسری جماعتوں نے اس بل کوعدالت میں چلینج کر دیا اس طرح
لاہور ہائی کورٹ نے پنجاب حکومت سے کہا کہ ٹال مٹول نہ کریں اور ۲۵ ستمبر
تک کورٹ کوبلدیاتی انتخابات کی تاریخ سے آگاہ کریں۔ اسی طرح کارویہ سندھ
حکومت نے بھی اختیار کیا اور پس و پیش سے کا م لیا حکومت اور اپوزیشن میں
آنکھ مچولی ہوتی رہی اور آخر کار ایک متنازعہ بلدیاتی بل پاس کر دیا جس میں
اپوزیشن کی رائے کو شامل نہیں کیا گیا۔ سندھ حکومت نے ایک متنازعہ بلدیاتی
بل پاس کیا ۔ جس میں1979ء اور2001ء کے بلدیاتی نظام کو ملا کر ایک نظام وضع
کیا گیااس میں یونین کمیٹی شہری حصے میں ،یونین کونسل دیہی حصے میں،ڈسٹرکٹ
میونسپل کارپوریشن شہری حصے میں اورڈسٹرکٹ کونسل دیہی حصے میں کا انتظام ہو
گا جس پر اپوزیشن کی رائے شامل نہیں کی گئی جس پر احتجاج ہوا سندھ کی قوم
پرست جماعتوں نے بھی دُہرا نظام لانے کا الزام بھی عائد کیا انہوں نے کہا
جو دُہرا نظام لا سکتے ہیں وہ سندھ کی تقسیم بھی کر سکتے ہیں۔ بلوچستان میں
یہاں ابھی تک کابینہ تشکیل نہیں ہو سکی وہاں بلدیاتی انتخابات کب ہوتے ہیں
عوام اس کے انتظار میں ہیں جہاں تک کنٹونمنٹ بورڈز میں انتخابات کا تعلق ہے
تو فوجی حضرات بھی یہ کام ایک مدت سے نہیں کر رہے تھے حا لانکہ ڈکٹیٹر مشرف
کے دور میں دو دفعہ ملکی انتخابات ہوئے تھے بحرحال خوش آیند بات ہے کہ
پاکستان میں کنٹونمنٹ بورڈز کے انتخابات کے لیے عدلیہ کے احکامات کی روشنی
میں الیکشن کمیشن نے ۱۵ ستمبر کی عدالتی ڈیڈ لائن سے قبل بلدیاتی انتخابات
نہ کرنے کی ذمہ د اری وزارت دفاع پرڈالتے ہوئے اب سیکرٹری الیکشن کمیشن
اشتیاق احمد خان نے اعلان کیا ہے کہ کنٹونمنٹ بورڈز میں ۳ نومبر کو بلدیاتی
انتخابات کرانے پر الیکشن کمیشن اور وزارت دفاع کے درمیان اتفاق ہو گیا ہے۔
صاحبو! اس سے قبل ہم نے اپنے کئی کالمز میں یہ بات واضع کر چکے ہیں کہ اب
حکومتوں کے کام عدلیہ کیا کرے گی۔ آپ نوٹ کر رہے ہونگے کہ کتنے کاموں میں
حکومتیں پس وپیش کرتی رہی ہیں اور عدلیہ حکومتوں کو عوام کے فائدے کے کاموں
میں مجبور کرتی رہی ہے تب جا کر حکومتیں اس پر عمل کرتی رہی ہیں کرپٹ کلچر
میں سیاست دان خاص کر جب اقتدار میں ہوتے ہیں تو بلدیاتی انتخابات نہیں
کرواتے کیونکہ اس طرح اقتدار تقسیم ہو جاتا ہے اور اس تقسیم کی وجہ سے
کرپشن بھی تقسیم ہو جاتی جو اقتدار میں رہنے والے پوری کی پوری کرپشن اپنی
جھولی میں ڈالنے کی وجہ سے اقتدار کو تقسیم ہونے نہیں دیتے اس میں پیپلز
پارٹی سر فہرست ہے اس نے اپنے اقتدار میں بلدیاتی الیکشن نہیں کروائے ۔ اس
سے نقصان عوام کو ہوتا ہے پانی ، سیوریج، روڈ اور دوسرے بدلیاتی انتظامات
صحیح طور پر حل نہیں ہوتے جس سے عوام مشکلات میں مبتلاہوتے ہیں اقتدار میں
شریک سیاسی پارٹیاں بلدیاتی اداروں میں اپنے پٹھو ایڈمنسٹر یٹر لگاتے ہیں
جو اقتدار میں رہنے والوں کے اشارے پر کام کرتے ہیں کرپشن میں ملوث ہوتے
ہیں اور مل بانٹ کر عوام کا رس چوستے ہیں یہاں عدلیہ نے ملک کے بڑے بڑے
اداروں میں لوٹی ہوئی کرپشن کے پیسے واپس وصول کر کے حکومت کے خزانے میں
جمع کروائے وہاں عوام کے فائدے میں بلدیاتی اداروں میں موجودہ حکومت کو
احکامات جاری کر کے مقررہ وقت پر بلد یاتی انتخابات کروانے کا پابند کیا ہے۔
قارئین! قومی اسمبلی کے ارکان کا کام قانون سازی ہوتی ہے وہ خارجہ پالیسی
ترتیب دیتے ہیں نہ کہ مقامی آبادی میں ندی نالوں ،سیوریج،پانی وغیرہ کا
انتظام کرنا ان کا کام ہے یہ مقامی کام ہیں جو مقامی حکومتیں ہی کرتیں ہیں
سیاسی جماعتوں نے اپنے طور پر تو عوام کے مسائل موقعے پر حل کرنے کے
بلدیاتی نظام سے ہمیشہ پہلو تہی کی مگر جس طرح عدلیہ دوسرے معاملات میں
حکومت وقت کو مجبور کرتی رہی ہے کہ صحیح سمت اختیار کرے اسی طرح بلدیاتی
نظام کو بھی فعال کرنے میں عوام کی ایک دیرینہ خواہش کا احترام کرتے ہوئے
عوام کے حق میں فیصلے دے کر امید کی کرن پیدا کر دی ہے اب یہ عوام کا کام
ہے کہ وہ اپنے میں سے کرپشن سے پاک لوگوں کا انتخاب کریں تاکہ ان کے مسائل
احسن طریقے سے حل ہوں اور دشواریاں کم ہوں۔ |