کوئٹہ سے سندھ کی طرف جاتے ہوئے پہلی سرنگ آنے کے فوری
بعد جو قصبہ آتا ہے وہ ہے کولپور
اسٹیشن پر روائتی اسٹیشنوں کا شور غل نہیں -اونچے پہاڑوں کے دامن میں بنا
یہ صاف ستھرا چھوٹا سا اسٹیشن --جی چاہتا ہے کہ کھڑے ہوکر چاروں طرف نظریں
ڈالتے رہیں اور دل میں ایک سکون ---- ایک اطمینان---- ایک راحت ---اتارتے
رہیں - اس کے اسٹیشن پر کھڑا ہوکر تو میں سرور آمیز سحر میں کھو جاتا ہوں
پلیٹ فارم پر کھڑے ہو کر نیچے نگاہ ڈالیں تو بل کھاتی کولتار کی سڑک پر ٹرک
ایک عجب سی موسیقی بکھیرتے ہوئے چلتے نظر آتے ہیں - ٹرک کے دور ہونے کے
ساتھ ساتھ آواز آہستہ آہستہ اوپر نیلی فضا اور پہاڑ کی چوٹیوں مین معدوم ہو
جاتی ہے -اسکے بعد دوسرا ٹرک کہیں سے آتا ہے اور ایسے ہی موسیقی پھیلاتا
ہوا سرنگ کے ساتھ سے نکل جاتا ہے -
سڑک کی دوسری جانب انگریزوں کے بنائے ہوئےٹین کے خوبصورت صاف مکانات الگ
سحر میں مبتلا کر دیتے ہیں -
جی چاہتا ہے کہ گاڑی اپنا قیام طویل کر لے لیکن گارڈ کی سیٹی پھر اس کا سبز
جھنڈی ہلانا اور سب سے آخر میں انجن کےلمبے ھارن کی اواز مجبور کرتی ہے کہ
ان سب نظاروں کو الوداع کہہ دوں- |