پچھلے دنوں ویب سائٹس پر یونہی خوبصورت مسجدوں کو دیکھنے
اور سمجھنے کی کوشش و جستجو کر رہا تھا تو اچانک مسجد حسن ثانی مراکش کی
حسین مسجد کی سحر میں کھو سا گیا۔اگرچہ یہ موضوع اچھوتا ہے مگر روزانہ کے
سیاسی ماحول اور سیاسیات سے ہٹ کر ہے اس لئے پتہ نہیں قارئین حضرات کو پسند
آئے نہ آئے مگر میں نے یہ تہیہ کر لیا ہے کہ اس کی گو نہ گوں خوبصورتی اور
بہترین فن نگاری کو اُجاگر کروں گا۔ اس لئے نظر قارئین ہے۔
|
|
اﷲ رب العزت کسی کسی کو ہی یہ کمال دیتا ہے جو آئینے کو بھی حیرت میں ڈال
دیتا ہے ایسا ہی کمال اﷲ تبارک و تعالیٰ نے مراکش کے بادشاہ حسن دوم کو بھی
عطا کیا اور اس نے مراکش کے شہر کاسابلانکا میں حسن ثانی مسجد تعمیر کر کے
انسان کو حیرت میں ڈال دیا۔ منفرد طرزِ تعمیر کی حامل یہ مسجد جو خوبصورت
اور باعثِ کشش بھی ہے اس کی ایک انفرادیت تو یہ بھی ہے کہ اس کی تعمیر اس
طرح کی گئی ہے کہ اس مسجد کا نصف حصہ بحراوقیانوس پر ہے۔ غور و فکر کرنے
والوں کو اس میں نشانیاں ملیں گی۔قرآنِ مجید فرقانِ حمید میں ارشاد ہے: ’’
عقل والوں کے لئے نشانیاں ہیں۔‘‘ اقتدارِ اعلیٰ کا مالک صرف خدائے بزرگ و
برتر ہیں اور اس میں کوئی شک نہیں کہ کائنات کی ہر چیز اسی کے حکم کے تابع
ہے۔ اور وہ سب پر حکومت کرتا ہے۔ ہر ایک چیز اس کے دائرہ اختیار میں
ہے۔ارشادِ ربّانی ہے: ’’ اور وہی اﷲ ہے جس نے آسمانوں اور زمین کی بالائی
زیریں کائناتوں کو چھ روز (یعنی تخلیق و ارتقاء کے چھ ادوار مراحل) میں
پیدا فرمایا اور (تخلیق ارضی سے قبال) اس کا تخت اقتدار پانی پر تھا(اور اس
نے اس سے زندگی کے تمام آچار کو اور تمہیں پیدا کیا) تاکہ وہ تمہیں آزمائے
کہ تم میں سے کون عمل کے اعتبار سے بہتر ہے؟ اور اگر آپ یہ فرمائیں کہ تم
لوگ مرنے کے بعد زندہ کر کے اٹھائے جاؤ گے تو کافر یقیناً کہیں گے کہ یہ تو
صریح جادو کے سوا کچھ اور نہیں ہے۔‘‘
قرآنِ پاک کی اس آیت سے بادشاہ حسن دوم اتنا متاثر ہوا کہ اس نے پانی پر
مسجد تعمیر کرنے کا فیصلہ کیا کہ اﷲ تعالیٰ کا اقتدار تخت پانی پر تھا۔ اور
مسجد اﷲ کا گھر۔ اپنی 60 ویں سالگرہ پر وہ اپنی عوام کو ایک تحفہ دینا
چاہتا تھا۔ اور وہ یادگار آج مسجد حسن ثانی کی شکل میں ہم سب کے سامنے
ہے۔بے شک وہ خالق ہے بحر و بر کا٬ آسماں کا زمیں۔
|
|
یہی وہ غور و فکر ہے جب آپ حسن ثانی مسجد میں داخل ہوتے ہیں کہ وہ واقعی
خالق و مالک ہے۔ مسجد کے تعمیرات کا آغاز 12جولائی 1986ء کو کیا گیا اور اس
کا افتتاح سابق شاہِ مراکش حسن ثانی کی ساٹھویں سالگرہ کے موقع پر 1989ء
میں کیا جانا تھا لیکن مسجد کے تعمیراتی کام میں گونا گوں تاخیر کی وجہ سے
اس کا افتتاح 30 اگست 1993 کو کیا گیا۔اور شاہ حسن ثانی کے نام سے اس مسجد
کو منسوب کر کے حسن ثانی مسجد کا نام دے دیا گیا۔ اس مسجد کا ڈیزائن
فرانسیسی ماہرِ تعمیرات مائیکل پینسو نے تیار کیا اور اس مسجد کی ڈیزائننگ
میں اسلامی فنِ تعمیر سے بھی مدد لی گئی- اس کی تعمیر میں مراکش کے تقریباً
چھ ہزار ماہرین اور مزدوروں نے دن رات کام کیا اور اس مسجد کو پایہ تکمیل
تک پہنچایا۔ ایک اندازے کے مطابق 80 کروڑ ڈالر کی لاگت سے تیار ہونے والی
اس مسجد کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس کثیر لاگت میں عوام نے بھی حصہ لیا
اور مزدوروں نے بلا معاوضہ کام سر انجام دیا۔ وسیع و عریض رقبے پر پھیلی
ہوئی یہ مسجد جس میں ایک لاکھ سے زائد نمازیوں کی گنجائش موجود ہے۔ اس مسجد
نے دنیا کی پانچویں بڑی مسجد میں اپنا نام درج کروایا ہے۔
اس مسجد کی طرزِ تعمیر اسپین میں قائم الحمرا اور مسجد قرطبہ سے ملتی جلتی
ہے۔ اسلامی فنِ تعمیر کے ساتھ ساتھ یہ مسجد جدید سہولیات سے مزین ہے۔ جن
میں زلزلے سے محفوظ کرنے والے اسٹرکچر، سردیوں میں فرش کا گرم ہونا، برقی
دروازے اور سلائیڈنگ چھت جنہیں ضرورت کے مطابق کھولا اور بند کیا جا سکتا
ہے۔ اس مسجد کی ایک اور خصوصی بات جو اسے دوسروں سے بے حد ممتاز کرتی ہے وہ
اس مسجد کا مینار ہے جو کہ دنیا کے بلند ترین میناروں میں سے ایک تصور کیا
جاتا ہے۔ اس مینار کی بلندی 210 میٹر یعنی 689 فٹ ہے اور اس مسجد کی ایک
اور دلفریب خوبی یہ ہے کہ اس کے فرش کا ایک حصہ شیشے کا بنا ہوا ہے۔ جہاں
سے سمندر کا پانی بآسانی دیکھا جا سکتا ہے۔ لیکن یہ شیشے کا فرش والا حصہ
اب صرف شاہی لوگوں کے لئے مخصوص کر دیا گیا ہے۔رات کے وقت بھی مسجد کا
دلفریب نظارہ قابل دید ہوتا ہے۔ مسجد کے مینار سے سبز رنگ کی روشنی کا
اخراج ہوتا ہے۔ اور اس روشنی، اس شعاع کو تقریباً 30 کلو میٹر تک دیکھا جا
سکتا ہے۔اور اس شعاع کا رُخ مکہ مکرمہ کی جانب ہوتا ہے اور اس شہر کے رہنے
والے اپنے قبلے کی سمت کا تعین اس سے بخوبی کر لیتے ہیں۔
|
|
مسجد کے اندر 25 ہزار افراد کی نماز ادا کرنے کی گنجائش موجود ہے۔ خواتین
کی گیلری بھی ہے جہاں وہ نماز ادا کر سکتی ہیں۔ مسجد کے بیرونی صحن میں 80
ہزار نمازی ایک ہی وقت میں نماز ادا کر سکتے ہیں۔ اس طرح تقریباً ایک لاکھ
افراد مسجد میں بیک وقت نماز کی ادائیگی کر سکتے ہیں۔
شیشے کے بنے ہوئے فرش سے بآسانی سمندر میں دور تک گئی ہوئی اس چٹان کو
دیکھا جا سکتا ہے جس پر اس مسجد کا ڈھانچہ کھڑا ہے اور یہ خوبصورت منظر
سیاحوں کو ایک قابلِ دید نظارے کی دعوت دیتا ہے۔تقریباً 800 ملین کی کثیر
لاگت سے تیار ہونے والی مسجد یہ بھی ظاہر کرتی ہے کہ مراکش کے لوگ بہت سخی
ہیں۔ انہوں نے اس کے لئے بغیر معاوضے کے کام کیا اس بات سے قطع نظر کہ
مراکش ایک غریب ملک ہے۔ رضاکارانہ طور پر عوام نے اپنی خدمات پیش کیں،
عطیات دیئے اور لیئے گئے ۔ رعایا کے لئے اگر شاہ مراکش قابلِ فخر بادشاہ ہے
تو بادشاہ کے لئے بھی اس کی رعایا قابلِ فخر ہے۔ گرینائٹ پلاسٹر، سنگِ مرمر
اور اس کی تعمیر میں استعمال ہونے والی اشیاء مراکش سے ہی حاصل کی گئیں
سوائے سفید گرینائٹ ستون اور شیشے کے فانوس جو اٹلی سے منگوائے گئے ہیں اور
مراکش کے کاری گروں نے انتہائی خوبصورت پچ کاری کا کام کیا۔ سنگِ مر مر کا
فرش ستون اور لکڑی کا خوبصورت کام کیا گیا ہے۔
حسن ثانی مسجد دورِ حاضر کی جدید ترین سہولیات سے مزین مسجد ہے جہاں نمازی
بے خوف و خطر پنجگانہ نماز کی ادائیگی کر رہے ہیں۔ اور دنیا بھر کے سیاح
بھی اس کی کشش سے لطف اندوز ہونے وہاں کا رُخ کرتے ہیں۔ بلاشبہ یہ مسجد حسن
ثانی اﷲ تعالیٰ کی عظمت اور وحدانیت کی یاد دلاتی ہے۔
|
VIEW PICTURE
GALLERY
|
|