نیپال کا ایک سفر قسط نمبر ۱

نیپال جنوبی ایشیا ء کا ہمالیائی ملک قرار دیا جاتاہے اور یہ نام اسے ہمالیہ کے درمیان پہاڑوں کے سائے تلے قائم ہونے کی وجہ سے دیاگیا ہے ، تقریباً 147000سکوائر کلو میٹر رقبے پر محیط نیپال کی آبادی 30ملین کے قریب ہے تاہم عالمی بنک کا خیال ہے کہ آبادی 29ملین سے زائد نہیں ، نیپال کو 14زون میں تقسیم کیا گیا ہے ، اور اسکے 75اضلاع ہیں ، 2008سے قبل نیپال میں بادشاہت تھی ، 1990میں نیپال میں جمہوریت کی تحریک نے زور پکڑا اور بلا آخر 2008میں یہ تحریک منطقی انجام کو پہنچی اور کمیونٹ پارٹی ( موسٹ) اکثریتی جماعت کے طور پر انتخابات میں کامیاب ہوئی ، دوسرے نمبر پر نیپالی کانگریس تھی ، مجھے نیپال جانے کا اتفاق اپریل کے آخری ہفتے میں نصیب ہو ا ، اس وقت میں ایک نجی ریڈیو کے ساتھ وابستہ تھا ،پانوس ساؤتھ ایشا ء نامی تنظیم جو کہ دنیا پھر میں پیس اور میڈیا کی ترقی کیلئے کام کرتی ہے ، نے مجھے ایک ماہ کی انٹرن شپ پر نیپال بھیجا، پاکستان اور پاکستان کے زیر کنٹرول کشمیر سے میں واحد صحافی تھا جبکہ بھارت اور اس کے زیر کنٹرول کشمیر سے محکمہ تعلیم سے وابستہ ایک خاتون روحیلہ کو نامزد کیا گیا ، روحیلہ محکمہ تعلیم میں آنے سے قبل مختلف غیر سرکاری تنظیموں کے ساتھ مل کر کام کر چکی تھی اور میڈیا کی ترقی اورامن کیلئے شروع مختلف منصوبہ جات پرکام کرتی تھی ، پانوس نے کشمیر کے دونوں حصوں سے ہم دولوگوں کی نامزدگی کی ، جس کا مقصد نیپال میں کمونٹی ریڈیو کی ترقی اورمیڈیا کے ذریعے کمونٹی کو پہنچنے والے فوائد سے آگاہی دلانے کے ساتھ ساتھ کشمیر کے دونوں حصوں کے عوام کے درمیان روابط کے مواقع فراہم کرنا بھی تھا ۔

اپریل8 200کے دوسرے ہفتے میں ہمارا انتخاب ہو ا اور پھر 29اپریل کو اسلام آباد سے روانگی کی اطلاع ملی ، پانوس کی پاکستان میں کنٹری ڈائریکٹر محترمہ سحر علی تھیں جنہوں نے یہ سارا اہتمام کیا تھا ، نیپال کیلئے یہ میرا پہلا سفرتھا ، یوں تو نیپال کے نام گاہے گاہے ، پڑھتے اور سنتے رہتے تھے لیکن نیپال کے بارے میں عمومی معلومات تب زیادہ ہوئی جب کئی سال پہلے پی آئی اے کا ایک طیارہ کھٹمنڈو ایئر پورٹ پر حادثے کا شکار ہوا تھا ، نیپال کے بارے میں ایک جغرافیائی نقشہ زہین میں تھا لیکن روانگی سے قبل کچھ معلومات انٹر نیٹ کے ذریعے بھی حاصل کی تھیں ، ’’پانوس‘‘ جس نے یہ سارا اہتمام کیا تھا ابتدارء میں صرف اسلام آباد سے کراچی تک کا ٹکٹ ای میل کیا، البتہ اس سے پہلے مجھ سے پاسپورٹ کی فوٹو کاپی منگوا ئی گئی تھی ، حقیقت میں مجھے یہ علم نہ تھا کہ نیپال کیلئے ویزا پاکستان میں قائم نیپالی ایمبیسی سے حاصل کرنا پڑتا ہے یاپھر یہ نیپال پہنچنے کے بعد ملتا ہے لیکن میں نے مروت میں کسی سے پوچھا تک نہیں ، او رنہ کسی نے بتایا، میرا خیال تھا کہ اتنی بڑی آرگنائزیشن انتے لمبے عرصے کیلئے انٹرن شپ کیلئے بھیج رہی ہے آخر کار کوئی تو اہتمام کیا ہو گا ۔ میں راولاکوٹ سے اسی روز چلا جس روز شام کو اسلام آبادسے کراچی کی فلائیٹ تھی، یوں تومیں نیپال کیلئے رخت سفر تھا لیکن اس حوالے سے کوئی دستاویز میرے پاس نہ تھی ۔شام سات بجے کی فلائیٹ سے میں کراچی کیلئے روانہ ہوا، کراچی رن وے پر جونہی جہاز اترا میں نے موبائل فون آن کیا تو ایک صاحب نے فون کیا اور خو د کاپانوس کے شعبہ اکاؤنٹس سے تعلق ظاہر کیا، روایتی انداز میں انہوں نے خیریت دریافت کی ، سفر کے اچھے او ربرے ہونے کے متعلق بھی پوچھا اور کچھ ضروری ہدایات دیں ،ا نہوں نے بتایا کہ ’’آپ ریڈیو کیپ کے ذریعے ڈیفینس ہاؤسنگ اتھارٹی کلب پہنچ جائیں جہاں آپ نے رات قیام کرنا ہے، صبح سویرے آپ کی کھٹمنڈو کیلئے فلائیٹ ہے ،ضروری معلومات ( پرنٹ شدہ) اوررٹکٹ آپ کو کلب کے کاؤنٹر سے دستیاب ہو گااور ضرورت پڑنے پر مجھ سے رابطہ بھی کیا جا سکتا ہے‘‘ ، موصوف کی اس گفتگو سے کچھ تسلی ہوئی اور پھر ان ہی ہدایات کے مطابق میں چلتا گیا، ریڈیو کیپ(ٹیکسی) کے حصول کیلئے جب ان کے کاؤنٹر پر پہنچا تو اپنے ہی علاقے کے ایک نوجوان دانش سے ملاقات ہوئی جو مجھے پہچان چکے تھے لیکن میرے لیے وہ اجنبی تھے ، حال احوال پوچھا، ( دانش آجکل میڈیا سے وابستہ ہیں ) اور سیدھا ریڈیو کیپ پر ڈیفنس آفیسر کلب پہنچ گیا ، کاؤنٹر پر اپنا تعارف کروایا تو مجھے کمرے کی چابی کے ساتھ ساتھ ایک لفافہ بھی دیا گیا جس میں کراچی سے کھٹمنڈو تک کا ہوائی ٹکٹ اور ساتھ ایک پرنٹڈ کاغذ جس پر کچھ ضروری باتیں درج تھیں کہ نیپال ایئر پورٹ پہنچنے پر کیا کیا چیزیں ویزے کے حصول کیلئے ضروری ہیں۔ میں نے ریڈیو کیپ کے اس ڈرائیور کا موبائل نمبر احتیاطاً لے لیا تھا جو مجھے چھوڑنے کلب گیا تھا ، عموماً ڈرائیور پر اپنا موبائل نمبر دینے کی پابندی ہوتی ہے ، گاڑی کی ضرورت پڑنے پر آپ کو ریڈیو کیپ کے آفس فون کرنا پڑے گا ،لیکن اکثر ڈرائیور اپنا نمبر کسٹمر کو دے دیتے ہیں تاکہ اگر وہ شہر میں موجود ہوں تو وہ سواری اٹھا سکیں لیکن اس کا علم متعلقہ دفتر کو بھی نہیں ہو سکتا، میں نے ڈرائیور کر رات ہی فون کر کے بتایا کہ صبح 6بجے کے قریب میں نے واپس ایئر پورٹ پہنچنا ہے اس کیلئے مجھے کیا طریقہ کرنا پڑے گا ، ڈرائیور نے ذمہ داری قبول کی اور کہا کہ وہ وقت مقررہ پر کلب پہنچ جائے گا، 20منٹ کی تاخیر سے جب ہم کلب سے ایئر پورٹ کی طر ف چلے تو ڈرائیور نے ضرورت سے زیادہ سپیڈ کے ساتھ گاڑی چلائی جس کی وجہ شائد اسے خود وقت مقررہ پر ایئر پورٹ پہنچنا تھا ، ایئر پورٹ پر چیکنگ کا بڑا مؤثر نظام ہونے کے باوجود ہمیں کسی نے چیک نہیں کیا اور نہ ہی ایئرپورٹ داخل ہونے کی وجہ دریافت کی ، خود ڈرائیور بھی حیران تھا کہ آج پولیس نے خاصی نرمی برتی ہوئی ہے ورنہ تویہاں بہت دیر لگتی ہے، ایئر پورٹ داخل ہوتے وقت میرے پاس صرف ہوائی ٹکٹ اور پاسپورٹ تھا ، گوکہ یہ بات مجھے سمجھا دی گئی تھی کہ آپ کو ویزا کھٹمنڈو ایئر پورٹ پر ملے گا، لیکن پھر بھی یقین نہیں آ رہا تھا کہ واقعی میں بغیر ویزے کے سفر کر سکتا ہوں ۔

Abid Siddique
About the Author: Abid Siddique Read More Articles by Abid Siddique: 34 Articles with 42533 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.