حکومت، طالبان مذاکرات۔اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا ؟

جب سے اسلام آبادمیں ہو نے والی آل پارٹی کانفرنس میں سیاسی اور عسکری قیادت نے اس امر پر اتفاق کیا ہے کہ ملک میں امن قائم کرنے کے لئے طالبان سے مذاکرات کئے جا ئینگے ،تب سے یہ موضوع الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کا محورِ سخن بنا ہوا ہے ، پاکستان کا ہر فرد بھی اس کشمکش میں مبتلا ہو گیا ہے کہ حکومت اور طالبا ن کے درمیان ان مذاکرات کا کیابنے گا؟ کیا یہ مذاکرات کامیاب ہو نگے اور وطنِ عزیز میں امن کا خواب شر مندہء تعبیر ہو گا یا نہیں ؟ آئیے! آج اس بات کا مختصر سا جا ئزہ لیتے ہیں۔

اے پی سی میں شامل تمام سیاسی او ر دینی جما عتو ں کا اس بات پر اتفاقِ رائے کا پیدا ہونا کہ طالبان سے مذاکرات کا راستہ اختیار کرکے امن کو قائم کرنے کا مو قعہ دیجائے، اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ وطنِ عزیز میں امن قائم کرنے کے لئے طالبان سے مذاکرات نا گزیر ہیں اور یہ کہ جنگ کسی بھی مسئلے کا مستقل حل نہیں ہو تا۔شاید اسی وجہ سے وزیرِ داخلہ چو ہدری نثار نے اے پی سی میں شامل شرکاء کو یقین دلایا کہ ہم نے طالبان سے رابطے قائم کر لئے ہیں اور اس کے لئے باقاعدہ ایک میکا نزم بھی تیار کر لیا گیا ہے۔پاکستانی افواج کے سپہ سالار جنرل کیانی نے بھی سیاسی قیادت سے پو ری طرح متفق نظر آئے۔ ڈی جی آئی ایس آئی نے بھی اپنے چالیس منٹ کی تقریر میں پوری صورتِ حال انتہائی مو ثر انداز میں سیاسی قیادت کے سامنے رکھ دی تاکہ درست فیصلہ تک پہنچنے میں آ سانی ہو،گویا اب اس میں کو ئی شک نہیں کہ حکومت مذاکرات کے لئے سنجیدہ ہے اور وہ مذاکراتی عمل کے ذریعے امن قائم کرنے کی خواہاں ہے۔لیکن  اے پی سی کے اعلان کے بعد چند عوامل ایسے نظر آ نے لگے ہیں جس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ کچھ داخلی اور خارجی عنا صر ایسے ضرور ہیں جو حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکراتی عمل کو سبو تاژ کر نے کے درپے ہیں۔مثلا ۱۵ ستمبر کواپر دیر میں پاک فوج کے سینئر جر نیل میجر جنرل ثنا اﷲ اور انکے ساتھیوں کو شہید کر دیا گیا اور طالبان کی طرف سے اس واقعہ کی ذمہ داری قبول کرنے کا بیان سامنے آ گیا مگر کو ہاٹ سے نون لیگ کے راہنما جاوید ابراہیم پراچہ کا بیان ایک نجی ٹی وی چینل کے ذریعے سامنے آیا کہ یہ جھوٹ ہے اور میجر جنرل ثنا اﷲ کی شہادت کا طا لبان سے کو ئی تعلق نہیں،انہوں نے کہا کہ اس قسم کی من گھڑت بیانات مذاکراتی عمل کو سبو تاژ کرنے کی سازش ہے، پاکستانی طالبان پاکستان کے وفادار ہیں۔ طالبان پر انسانی دشمنی کا الزام لگانے والے وہ فسادی عنا صر ہیں جو نا معلوم مقام سے اس قسم کی ذمہ داری قبول کرنے کا اعلان کرکے پاک فوج اور طالبان کے درمیان غلط فہمی پیدا کرنا چاہتے ہیں۔‘‘آج جاوید ابراہیم پراچہ کا یہ بیان بھی سامنے آ یا ہے کہ طالبان کے مختلف دھڑوں کے درمیان مذاکرات پر ابھی تک اتفاق نہیں ہو سکا ہے،انہیں ابھی مزید وقت درکا رہے۔

اگر ہم اب تک ہو نے والے مذاکراتی عمل کے پیش رفت کو مدِ نظر رکھیں تو جو حقائق ہمارے سامنے آ تے ہیں ۔وہ یہ ہیں کہ حکومت طالبان کے ساتھ مذاکرات کرنے میں سنجیدہ ہے ،مگر حکومت کے پیچھے کچھ عنا صر ایسے بھی ہیں جو مذاکراتی عمل کو فلاپ کرنا چا ہتے ہیں۔طالبان کو بھی مذاکرات سے انکا ر نہیں مگر طالبان چونکہ مختلف دھڑوں میں منقسم ہیں ، اس لئے ان کو ایک پلیٹ فارم پر ہو نے میں مشکلا ت پیش آ رہی ہیں۔بحر حال یہ امید کی جا سکتی ہے کہ حکومت اور طالبان کو درپیش مشکلات کے باوجود انشاﷲ مذاکرات ضرور ہو نگے، وقتی طور پر پیش رفت نہ ہونے کا مطلب ہر گز یہ نہیں کہ سار ا عمل سبو تاژ ہو گیا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ ہما ری سیاسی اور عسکری قیادت اس متوقع صورتِ حال سے ہر گز بے خبر نہیں ہو ں گے جو نیٹو فو رسز کے افغا نستان سے روانگی کے بعد رونما ہو گی۔اس لئے وہ مذاکراتی عمل کو کامیاب کرنے کی ہر ممکن کو شش کریں گے۔اس دوران کئی اونچ نیچ یقینا سامنے آ ئینگے مگر امید ہے کہ آ خر یہ مذاکراتی عمل کامیاب ہو جا ئیگا اور پاکستان میں ایک بار پھر امن و امان کی فضاء بحال ہو جائیگی۔بشر ط ِ یہ کہ پاکستانی حکومت اور پاکستانی طالبان کو اس بات کا شدت سے احساس ہو کہ مسلمانوں کو مسلمانوں سے لڑانے کے لئے ایک بین الاقوامی کھیل کھیلا جا ر ہاہے، اور ا غیار کی سازشوں نے آ ج ہمیں اس افسوسناک صورتِ حال تک پہنچا دیا ہے کہ ہم ایک دوسرے کے گریبان پکڑے ایک دوسرے کے خلاف بر سر ِ پیکا ر ہیں ، پوری پاکستانی قوم کی یہ تمنا ہے ،یہ آ رزو ہے، یہ دعا ہے کہ اﷲ تعالیٰ ان تمام لوگوں کو راہِ راست پر چلنے کی تو فیق عطا فرمائے جو کسی وجہ سے گمراہ ہو چکے ہیں اور وطنِ عزیز ایک با ر پھر تمام مسلمانون کے لئے امن و امان کا گہوارہ بن جائے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

roshan khattak
About the Author: roshan khattak Read More Articles by roshan khattak: 300 Articles with 315616 views I was born in distt Karak KPk village Deli Mela on 05 Apr 1949.Passed Matric from GHS Sabirabad Karak.then passed M A (Urdu) and B.Ed from University.. View More