پگواش ،الشفاء ،جنرل جہانداد(مرحوم) ،جنرل حامد جاوید اور حاجی صابر مغل

 حضرت مولانا محمد یوسف کاندھلوی ؒ اپنی تصنیف حیات الصحابہ ؓ میں تحریر کرتے ہیں کہ حضرت ابو موسیٰ ؓ فرماتے ہیں حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا اﷲ تعالیٰ نے مجھے جو ہدایت اور علم دے کر بھیجا ہے اس کی مثال اس بارش جیسی ہے جو بہت زیادہ ہوئی ہو او رایک زمین پر برسی ہو جس کا ایک ٹکڑا بہت عمدہ اور زرخیر تھا اس ٹکڑے نے بارش کے پانی کو اپنے اندر جذب کرلیا جس سے گھاس اور چارا خوب اُگا اس زمین میں ایک بنجر اور سخت ٹکڑا تھا جس نے اس پانی کو روک لیا (نہ اپنے اندر جذب کیا اور ڈھلوان نہ ہونے کی وجہ سے نہ اسے جانے دیا ) تو اﷲ تعالیٰ نے اس پانی سے لوگوں کو نفع پہنچایا چنانچہ انہوں نے اسے پیا اور اپنے جانوروں کو پلایا اور اس سے کاشت کی اور اس زمین کا تیسرا ٹکڑا چٹیل میدان تھا جس میں پانی بھی (ڈھلوان کی وجہ سے ) نہ رکا اور گھاس وغیرہ بھی نہ اُگا یہ مثال اس شخص کی ہے جس نے اﷲ کے دین میں سمجھ حاصل کی اور اﷲ تعالیٰ جو مجھے دے کر بھیجا ہے اس سے اُس کو نفع ہوا اس نے خود سیکھا او ردوسروں کو سکھایا اور اس آدمی کی مثال ہے جس نے تکبر کی وجہ سے اس علم وہدایت کی طرف بالکل توجہ نہ دی اور اﷲ کی طرف سے جو ہدایت دے کر مجھے بھیجا گیا ہے اسے بالکل قبول نہ کیا -

حضرت ابن مسعود ؓ فرماتے ہیں کہ حضور ﷺ نے فرمایا مجھ سے پہلے اﷲ نے جس نبی کو اس کی اُمت میں بھیجا تو اس امت میں اس کے حواری اور خاص صحابی ضرور ہوتے جو اس کی ہر سنت کومضبوطی سے پکڑتے اور ٹھیک ٹھیک اس کی پیروی کرتے اور اس کے دین کو بعینہ محفوظ رکھتے لیکن بعد میں ایسے نالائق لوگ پیدا ہوجاتے جو ان کاموں کا دعوی کرتے جو انہوں نے کیے نہیں ہوتے تھے اور جن کاموں کا حکم نہیں دیاگیا تھا ان کاموں کو کرتے تھے (میری امت میں بھی ایسے لوگ آئندہ ہوں گے ) جو ان لوگوں کے خلاف اپنے ہاتھ سے جہاد کرے وہ بھی مومن ہے اور جو اپنی زبان سے جہاد کرے وہ بھی مومن ہے اور جو اپنے دل سے جہاد کرے وہ بھی مومن ہے اس کے بعد رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان نہیں ہے ۔

قارئین آج کاکالم آپ کے سامنے پیش کرتے ہوئے خیالات کاایک ہجوم زہن کے اندر گشت کررہاہے عنوان دیکھ کر آپ بھی سوچ رہے ہوں گے کہ پور ے کالم کے برابر حجم رکھنے والایہ عنوان کیا قیامت ڈھائے گا تو جناب بنیادی طور پر دو معاملات آپ کے سامنے رکھنا ہیں اور دونوں معاملات مختلف نوعیت کے ہیں آئیے چلتے ہیں کالم کے پہلے حصے کی جانب ۔۔۔پگواش کانفرنس کے نام سے چند سالوں سے مسئلہ کشمیر کے ’’ایک اور دانشورانہ حل ‘‘کے سلسلہ کو شروع کیاگیا یہ ڈول جب سے ڈالا گیا ہے تب سے لیکر اب تک پگواش کانفرنس کو کشمیر سے دلچسپی رکھنے والے مختلف طبقات کی جانب سے تنقید وتحسین سمیت مختلف نوعیت کے الزامات القابات اور احسانات سے نوازا جارہاہے چیئرمین ہیومن رائٹس کمیشن اور ہمارے جذباتی اور عزیز دوست ہمایوں زمان مرزا یہ رائے رکھتے ہیں کہ پگواش کانفرنس کے نام پر آزادکشمیر ،مقبوضہ کشمیر اور پوری دنیا میں آباد مختلف کشمیری راہنماؤں کو نوازنے کا ایک سلسلہ شروع کیاگیا ہے ہمایوں زمان مرزا کی یہ بھی رائے ہے کہ کھٹمنڈو سے شروع ہونے والی اس کانفرنس کا ڈول امریکن اوریورپین تھنک ٹینک کی زیر زمین کاروائیوں کی بالائے زمین کارستانیوں کو ایک منطقی انجام تک پہنچانے کیلئے ڈالاگیا ہے ان کی رائے ہے کہ لسانی ،گروہی اور نسلی بنیادوں پر کشمیر کو تقسیم کرنے کیلئے حاضر سروس اور ریٹائرڈ سیاست دانوں ،بیوروکریٹس اور صحافیوں سمیت اپنا اپنا اثر ونفوز رکھنے والے کشمیریوں کو ’’وظیفہ خوری ‘‘ کی لت لگاکر آواز حق کو دبانے کی کوشش کی جارہی ہے اور تحریک آزادی کشمیر جیسے مقدس مشن کو چھوڑ کر اب ’’مسئلہ کشمیر کو پرامن انداز میں حل ‘‘ کا چکر چلا کر پگواش کے نام سے ایک انتہائی زہریلا سلسلہ شروع کیاگیا ہے ۔

قارئین کشمیر کی آزادی نہ تو دوممالک ہندوستان اور پاکستان کا سرحدی تنازعہ ہے ،نہ ہی یہ گلیشیئر ز پہاڑوں قدرتی وسائل کی جنگ ہے او رنہ ہی یہ آبی زخائر کا ایشو ہے بانی نظریہ خود مختار کشمیر اور درویش صفت کشمیری راہنما عبدالخالق انصاری ایڈووکیٹ مرحوم جو محاذ رائے شماری کے بانی صدر بھی تھے وہ اکثر یہ بات دہرایا کرتے تھے کہ جو قوم اپنی آزادی کیلئے قبرستان آباد کردیتی ہے اسے دنیا کی کوئی بھی طاقت غلام نہیں رکھ سکتی استاد محترم راجہ حبیب اﷲ خان کے ہمراہ راقم نے ان کی زندگی کے آخری ایام میں چند تاریخی انٹرویوز ٹیلی ویژن ،ریڈیو اور اخبارات کیلئے ریکارڈ کیے تھے عبدالخالق انصاری ایڈووکیٹ مرحوم 87سال کی عمر میں جب کشمیر کا زکر کرتے تو ان کی نحیف آواز کے اندر بجلی کی کڑک اور طاقت نمودار ہوجاتی وہ سراپا احتجاج بن جاتے ان کا کہناتھا کہ مسئلہ کشمیر کو پاکستان کی وزارت خارجہ نے مختلف ادوار میں مختلف انداز میں پیش کیا کشمیر کامسئلہ ایک قوم کی آزادی کا مسئلہ ہے رائٹ آف سیلف ڈیٹرمینشن کا آسان سا مطلب یہ ہے کہ یہ قوم یہ حق رکھتی ہے کہ یہ اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کرے کہ یہ آزادملک قائم کرنا چاہتی ہے یا اپنے ہمسایہ ممالک میں سے کسی کے ساتھ الحاق واشتراک کرنا چاہتی ہے دنیا جہاں کی مہذب اقوام کسی بھی قوم کی آزادی کے مسئلہ کو انتہائی اہمیت دیتی ہیں جب کہ بارڈر ایشوز کے متعلق اقوام متحدہ ،امریکہ سمیت تمام تہذیب وترقی یافتہ اقوام یہ موقف رکھتی ہیں کہ سرحدی تنازعات کو دونوں یا تینوں ممالک آپس میں مل بیٹھ کر مذاکرات کے ذریعے حل کریں بین الاقوامی برادری بارڈر ایشوز پر کبھی بھی کسی انٹرنیشنل فورم پر نہ تو سنجیدہ گفتگو کرنا مناسب سمجھتی ہے اورنہ ہی کوئی بھی ملک بارڈر ایشوز پر کوئی واضح موقف دے کر کسی بھی ملک سے اپنے تعلقات خراب کرنے کا سوچ سکتاہے عبدالخالق انصاری ایڈووکیٹ مرحوم کہتے تھے کہ پاکستان پیپلزپارٹی کے بانی قائد ذوالفقار علی بھٹو سے ہونے والی متعدد ملاقاتوں میں بھٹو نے اس بات کا اعتراف کیاتھا کہ مسئلہ کشمیر کا واحدحل یہی ہے کہ سب سے پہلے کشمیری قوم کو ’’خود مختاری ‘‘ کا اختیاردیاجائے لیکن بقول عبدالخالق انصاری مرحوم پنجاب اور سندھ کے جاگیردار وڈیروں اور نوکرشاہی کے علاوہ کچھ ’’فرشتوں ‘‘ کے ڈر سے ذوالفقار علی بھٹو کہتے تھے کہ وہ خو دمختاری کے حوالے سے کشمیریوں کی حمایت نہیں کرسکتے عبدالخالق انصاری مرحوم یہ بھی کہتے تھے کہ پنجاب اور سندھ کے جاگیردار کشمیر کے مسئلہ کو اپنی زمینوں کو سیراب کرنے کیلئے ملنے والے پانی کاایک مسئلہ قرار دیتے تھے ان کی نزدیک لاکھوں کشمیری شہداء کے خون کی کوئی وقعت نہیں تھی درویش راہنما عبدالخالق انصاری کہتے تھے کہ پاکستانی عوام نے کشمیر کی آزادی او رکشمیریوں کی امداد کیلئے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیے لیکن پاکستان پر قابض قائد اعظم محمد جناح ؒکے ’’نافرمان کھوٹے سکوں ‘‘ نے کشمیریوں کی منزل کھوٹی کردی عبدالخالق انصاری مرحوم نے راقم اور استاد محترم راجہ حبیب اﷲ خان کو دیئے گئے اپنی زندگی کے آخری انٹرویو میں یہ بھی کہا کہ ہمارے اس دنیا سے جانے کے بعد کشمیر انشاء اﷲ ضرور آزاد ہوگا اور پاکستان کی سیاسی قیادت کو یہ بات سمجھنا ہوگی کہ خودمختار کشمیر پاکستان کے مفاد میں ہے لامحالہ کل جب بھارت چین ،امریکہ اور دیگر بین الاقوامی پلیئرز اپنے اپنے مفادات کے سلسلہ میں کشمیر کی جانب بڑھیں گے تو یقینا پاکستان ہی کشمیریوں کی منطقی منزل ہوگی اس کے لیے پاکستانی سیاسی وعسکری قیادت کشمیریوں کی خودمختاری کے موقف کی حمایت کریں تاکہ بھارت کے پاس پہلو تہی کا کوئی بھی راستہ باقی نہ رہے عبدالخالق انصاری ایڈووکیٹ مرحوم کی طرح جموں کشمیر لبریشن لیگ کے سربراہ اور کشمیر کی آزادی کے حوالے سے واضح اور دوٹوک موقف رکھنے والے راہنما سابق چیف جسٹس ہائی کورٹ جسٹس عبدالمجیدملک بھی اس سے ملتے جلتے موقف کا اکثر اوقات اعادہ کرتے رہتے ہیں ’’پگواش کانفرنس ‘‘کسی پڈنگ کا نام ہے یا واقعتاکشمیر کو آزادکروانے کیلئے امریکہ سمیت دنیا کے مختلف صحت افزاء مقامات کے علاوہ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے دوفائیو سٹار ہوٹلوں کے ’’پہاڑوں کی چٹانوں ‘‘پر اقبال ؒ کے شاہینوں کے بسیرے کانام ہے اس کا فیصلہ بہت جلد یا بہت بدیر ہمارے جیسے کسی قلمکار یا مورخ نے ضرور بالضرور کردینا ہے جو لو گ واقعی لاکھوں کشمیریوں کے شہداء کے ساتھ وفادار ثابت ہوں گے وہ قیامت کے دن بھی سرخرو ہوں گے اور اﷲ تعالیٰ اس دنیا میں بھی ان کا نام سربلند کرے گا اور خلق خدا میں وہ عزت کے ساتھ پکارے جائیں گے اور جو لوگ خدانخواستہ ’’پگواش نامی کھیر ‘‘ غیر ملکی آقاؤں کے حکم پر پکاتے ہوئے اپنی بیگمات اور بچوں بچیوں سمیت نوش فرما رہے ہیں وہ قیامت کے دن بھی رب حقیقی کے سامنے شرمسار ہوں گے اورلاکھوں شہداء کے خون کی تجارت میں ملوث ہونے کا جرم انہیں اس دنیا میں بھی زلیل ورسوا کرے گا اور وہ ضرور بے نقاب ہوکر رہیں گے ۔

قارئیں آئیں اب چلتے ہیں کالم کے دوسرے حصے کی جانب ۔راقم کا الشفاء آئی ٹرسٹ ہسپتال سے تعارف ڈاکٹر حاجی محمد صابر مغل ممبر برٹش ایمپائر چیئرمین آگرہ گروپ برطانیہ کی وساطت سے ہوا آج سے کئی سال قبل حاجی محمد صابر مغل نے ہمیں الشفاء آئی ٹرسٹ ہسپتال کے کارناموں اور اس کی خدمات کے حوالے سے نجی ملاقاتوں کے دوران آگاہ کیا اور بعدازاں تحقیق کے نتیجے میں ہمیں پتہ چلا کہ جنرل جہانداد خان (ر) مرحوم سابق گورنر سندھ نے گزشتہ 20سال سے زائد عرصے کے دوران یہ خاموش تحریک شروع کی جس کا بنیادی مقصد بینائی سے محروم طبقے کو دوبارہ بینا بناناتھا یہ تحریک شروع کرنے سے قبل جنرل جہانداد مرحوم نے برطانیہ میں حاجی محمد صابر مغل سے ہونیو الی ملاقاتوں میں انہیں اس بات کی جانب مائل کیا کہ وہ وطن عزیز میں جلد ہی شروع کیے جانے والے اس عظیم کام کی مالی سرپرستی کی ذمہ داری قبول کریں حاجی محمد صابر مغل اپنے مرحوم بیٹے ساجد کی یاد میں ملکہ برطانیہ ، پرنس چارلس کی مختلف چیریٹیز اور دیگر برطانوی فلاحی تنظیموں ،ہسپتالوں اور ریسرچ انسٹییوٹس کی مالی امداد دل کھول کر کیا کرتے تھے حاجی محمد صابر مغل نے جب جنرل جہانداد مرحوم جیسی بے باک ،صاف گو اور دیانت دار شخصیت کو قریب سے دیکھا تو وہ ان کے گرویدہ ہوگئے برطانیہ میں حاجی محمد صابر مغل کے ادارے آگرہ گروپ نے چیریٹی ڈنرز کا آغاز کیا اور اس وقت سے لیکر اب تک کروڑوں روپے آگرہ گروپ الشفاء ٹرسٹ آئی ہاسپٹل کی خدمت میں پیش کر چکا ہے آج سے تین سال قبل حاجی محمد صابر مغل راقم کو اپنے ہمراہ لے کر جنرل جہانداد خان سے ملاقات کے لیے الشفاء ہاسپٹل راولپنڈی پہنچے جنرل جہانداد مرحوم نے اس طویل نشست میں چمکتی آنکھوں اورکھلتی مسکراہٹ کے ساتھ راقم کو بھی ’’الشفاء فیملی ‘‘ کاحصہ قراردیتے ہوئے ایک بہت بڑے اعزاز سے نوازدیا جنرل جہانداد مرحوم فروری 2011ء میں خالق حقیقی سے جاملے گزشتہ روز حاجی محمد صابر مغل کے ہمراہ راقم الشفاء ٹرسٹ آئی ہاسپٹل کے نئے سربراہ لیفٹینٹ جنرل حامد جاوید سے خصوصی ملاقات کیلئے گیا اس ملاقات میں جنرل حامد جاوید نے بتایا کہ فوج سے ریٹائرمنٹ کے ایک شام جنرل جہانداد مرحوم نے انہیں گھرآکر ملاقات کرنے کے دوران اس جانب مائل کیا کہ وہ رفائے عامہ کے اس عظیم منصوبے میں اپنا حصہ ڈالیں جنرل حامد نے آمادگی ظاہر کی تو جنرل جہانداد نے انہیں بورڈ کی میٹنگ میں شرکت کی تاکید کی بورڈ کی میٹنگ میں شرکت کیلئے جب جنرل حامد الشفاء ٹرسٹ آئی ہاسپٹل پہنچے تو انہیں ہسپتال کے عملے نے چیئرمین کے دفتر میں انتظار کے لیے بٹھا دیا تھوڑی دیر بعد جنرل حامد کو بورڈ آف ٹرسٹیز اور ڈائریکٹرز کی میٹنگ میں جب طلب کیا گیا تو بقول جنرل حامد تمام لوگوں نے انہیں مبارکباد دی جس سے انہوں نے یہ سمجھا کہ انہیں بھی ایک ٹرسٹی کی حیثیت سے الشفاء فیملی کاحصہ بنادیاگیا ہے میٹنگ برخواست کرنے کے بعد جنرل جہانداد مرحوم نے علیحدگی میں جنرل حامد جاوید کو کہا کہ کل آپ نے میرے دفتر آکر میری سیٹ پر بیٹھنا ہے میں بھی ہسپتال میں موجود ہوں گا لیکن میری سیٹ اب آپ کے حوالے ہے جنرل حامد جاوید کہتے ہیں کہ اس واقعہ کے ٹھیک ایک ہفتے بعد جنرل جہانداد خالق حقیقی سے جاملے آج وہ ان کے دفتر کے پہلو میں خا ک نشین ہیں ڈاکٹر حاجی محمدصابر مغل نے جنرل حامد جاوید کو آگرہ گروپ کی جانب سے خطیر رقم کا ایک اور چیک پیش کیا اور اس وعدے کو دہرایا کہ ان کا گروپ برطانیہ سے انشاء اﷲ تعالیٰ ہمیشہ الشفاء کے ساتھ چلتارہے گا الشفاء ٹرسٹ آئی ہاسپٹل کے راولپنڈی سمیت پاکستان کے مختلف علاقوں میں چلنے والے پانچ بڑے ہسپتال ایک زندہ وجاوید کارنامہ ہیں مظفرآباد میں امبور کے مقام پر پچاس کروڑ روپے کی لاگت سے جنرل جہانداد خان مرحوم نے حاجی محمد صابر مغل کی خدمات کے اعتراف میں کشمیری قوم کو الشفاء ٹرسٹ آئی ہاسپٹل کا تحفہ دیا جو راقم حاجی محمد صابر مغل کے ہمراہ خود یکھ کر آیا ہے ۔

قارئین یقینا زندہ قومیں وہی ہوتی ہیں کہ جو جنرل جہانداد مرحوم کی طرح قوم کی خدمت کیلئے عملی کارنامے سرانجام دیتی ہیں اور مخلص افراد کی ایک ایسی ٹیم تشکیل دیتی ہیں کہ جس میں ایک طرف تو جنرل حامد جاوید جیسے پروفیشنلز موجود ہوتے ہیں اور دوسری جانب پوری دنیا میں آبادی مخیر اور صاحب دل لوگ حاجی محمد صابر مغل کی طرح دامے درمے سخنے قدمے ہر طرح کی خدمات کیلئے موجود ہوتے ہیں اﷲ تعالیٰ سے دعا ہے کہ یہ ادارہ دن دگنی رات چوگنی ترقی کرے الشفاء ہرسال لاکھوں افرادکو بینائی کے حوالے سے خدمات فراہم کرتاہے اﷲ تعالیٰ اس فیض کو مزیدعام کرے اور جنرل جہانداد مرحوم کو کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے ۔آمین

آخر میں حسب روایت ادبی لطیفہ پیش خدمت ہے
مجروح سلطان پوری نے ساحر لدھیانوی کی کسی بات پر برہم ہوکر کہا
’’یاد رکھو ساحر جب تم مر جاؤ گے تو اُردو کا کوئی بھی ترقی پسند ادیب تمہارے جنازے کے ساتھ نہیں جائے گا ‘‘
ساحر نے فوراً جوا بدیا
’’ مجھے اس کا کوئی غم نہیں لیکن میں یقین دلاتاہوں کہ میں ہر ترقی پسند ادیب کے جنازے میں ضرور شریک ہوں گا ‘‘

قارئین ہماری یہ حسرت اور خواہش ہے کہ کشمیریوں کی آزادی کے تمام دشمن دنیا کے اس تختے سے جلد از جلد روانہ ہوجائیں اور اس کیلئے ہم یقین دلاتے ہیں کہ ہم ان کے جنازوں میں شرکت کرنے کیلئے بھی تیار ہیں ۔نیک لوگ مر کر بھی خلق خدا کے دلوں اور دعاؤں میں زندہ رہتے ہیں جنرل جہانداد مرحوم بھی انہی لوگوں میں سے ہیں -

Junaid Ansari
About the Author: Junaid Ansari Read More Articles by Junaid Ansari: 425 Articles with 336986 views Belong to Mirpur AJ&K
Anchor @ JK News TV & FM 93 Radio AJ&K
.. View More