دہشت گردوں کی ڈکٹیشن اور جنرل کیانی کا سچ

وسیم شوکت

15ستمبر 2013ء کو اپر دیر میں بارودی سرنگ کے ذریعے پاکستانی فوجیوں کے خلاف سنگین کارروائی کی گئی جس کا نشانہ بننے والوں میں میجر جنرل اور لیفٹیننٹ کرنل سطح کے فوجی افسر بھی شامل تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ تحریک طالبان کا یہ موقف سامنے آیا کہ حکومت اس سے بات چیت میں سنجیدہ ہے تو پہلے اس کے قیدی رہا کئے جائیں اور فاٹا سے فوج واپس بلائی جائے۔ جبکہ تحریک طالبان کے ترجمان نے غیرملکی میڈیا سے بات کرتے ہوئے یہ موقف اختیار کیا کہ ابھی مذاکرات شروع نہیں ہوئے اس لئے فوج پر حملے جاری رکھے جائیں گے اور اس کا کوئی موقع ضائع نہیں ہونے دیا جائے گا۔تحریک طالبان کا یہ رویہ مذاکرات کیلئے ماحول کو سازگار بنانے میں ہرگز معاون نہیں ہوسکتا۔ بات چیت کا عمل شروع ہونے سے پہلے کسی بھی جانب سے سخت شرائط کا عائد کیا جانا مناسب نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مذاکرات سے پہلے طالبان سے ہتھیار ڈالنے کا جو مطالبہ عام طور پر کیا جاتا تھا، کل جماعتی کانفرنس میں کسی نے اس پر اصرار نہیں کیا۔ فوری طور پر فوج کی واپسی جیسے مطالبات کو تسلیم کرنے میں قانونی رکاوٹیں بھی حائل ہیں جس کا اظہار پشاور ہائی کورٹ نے واضح طور پر کیا ہے اورملاکنڈ سے فوج کا انخلا روکتے ہوئے خیبر پختونوا و وفاقی حکومتوں کو پہلے مناسب قانون سازی کرنے کی ہدایات جاری کی ہیں۔

چیف آف آرمی اسٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے واضح کیا ہے کہ عساکر پاکستان مذاکرات کے ذریعے قیام امن کے عمل کو آگے بڑھانے کے حامی ہیں مگر دہشت گردوں کو اس سے ناجائز فائدہ اٹھانے اور قوم پر اپنا ایجنڈا مسلط نہیں کرنے دیا جائے گا۔اپردیر میں 16ستمبر 2013ء کے واقعہ کے ایک روز بعد جاری کئے گئے بیان میں بری فوج کے سربراہ کا موقف تھا کہ امن کے عمل کو موقع ضرور ملنا چاہئے، فوج سیاسی عمل کی حمایت کرتی ہے لیکن کسی کو یہ گمان نہیں ہونا چاہئے کہ فوج دہشت گردوں کی شرائط مانے گی۔ واضح رہے کہ طالبان نے اپر دیر میں بارودی سرنگ کے دھماکے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے حکومت سے مذاکرات کیلئے جو شرائط پیش کی ہیں ان میں یہ مطالبہ بھی شامل ہے کہ فاٹا سے سکیورٹی فورسز واپس بلائی جائیں۔ طالبان قیدیوں کو رہا کیا جائے اورفوج سے لڑنے والوں کو عام معافی دی جائے۔ ان شرائط کا حوالہ دئیے بغیر چیف آف آرمی اسٹاف نے پیر کو جاری ہونے والے اپنے بیان میں کہا کہ پاک فوج عوام کی امنگوں کے مطابق ہرقیمت پر دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑنے کیلئے پرعزم ہے اوراس کے پاس لڑنے کی صلاحیت بھی ہے اور اہلیت بھی۔ دہشت گردی کے واقعات کے ذمہ داروں کو ہر قیمت پر انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔ بری فوج کے سربراہ نے دہشت گردوں کی ڈکٹیشن مسترد کر کے قوم کے حقیقی جذبات کی ترجمانی کی ہے۔ یہ بات بڑی عجیب ہے کہ جس وقت تمام معاملات ٹھیک ٹھاک چل رہے تھے، آل پارٹیز کانفرنس میں طالبان سے مذاکراتی عمل پر اتفاق رائے پایا گیا۔ عسکری قیادت نے واضح یقین دہانی کرائی کہ فوج وہی کرے گی جو سیاسی قیادت کہے گی، طالبان کی طرف سے ایسے اقدامات کئے گئے جن سے اس تاثر کا اظہار ہوتا ہے کہ وہ امن کی اس خواہش کو ریاست کی کمزوری پر محمول کر رہے ہیں۔ پہلے تو انہوں نے مذاکرات کی حمایت کا عندیہ دیا مگر پھر شرائط پیش کرنا شروع کر دیں اور ساتھ ہی اپنی طاقت کے مظاہرے کیلئے قبائلی علاقوں میں دہشت گردی کی کارروائیاں تیز کر دیں۔ ایک کارروائی میں ملک کا ایک مایہ ناز جرنیل ایک جری لیفٹیننٹ کرنل اور ایک لائس نائیک کے ہمراہ شہید ہو گیا۔قوم ان کی قربانی کو کبھی نہیں بھولے گی۔ کیا ایسی صورتحال میں مذاکرات کا انعقاد اور کامیابی ممکن ہے کہ ریاستی فوجوں پر حملے کئے جا رہے ہوں اور اسکے میجر جنرل کی سطح کے اور لیفٹیننٹ کرنل کی سطح کے افسروں کو نشانہ بنایا جا رہا ہو۔ پاکستانی قوم اپنی فوج کے ان افسروں اور جوانوں کو سلام کرتی ہے جنہوں نے وطن کی خاطر جام شہادت نوش کیا۔ جنرل کیانی نے درست طور پر اس بات کی نشاندہی کی ہے کہ پاک فوج کے پاس دہشت گردوں سے لڑنے کی قابلیت بھی ہے اور اہلیت بھی۔ کسی کو یہ گمان ہے کہ اس فوج سے اپنی شرائط منوائی جاسکتی ہیں اور اس کیلئے جنگ کا راستہ اختیار کیا گیا تو ممکن ہے فوج اور ملک کو نقصان پہنچانے کی حسرت رکھنے والوں کو بعض کامیابیاں مل جائیں مگر سب سے زیادہ نقصان طالبان کا اپنا ہوگا۔ طالبان کے لئے بہترین راستہ یہی ہے کہ وہ غیر مشروط طور پر مذاکرات کی میز پر آئیں۔ اپنا موقف پیش کریں اور حکومت پاکستان کا موقف سنیں۔ وزیراعظم نواز شریف پہلے بھی کہہ چکے ہیں اور ترکی کے دورے کے دوران انہوں نے پھرکہا ہے کہ طالبان کے خلاف طاقت کا استعمال آخری آپشن ہو گا امن اور ریاست کی رٹ قائم کرنے کیلئے یہ آپشن خارج از امکان نہیں۔ اگر جنگ ہوئی تو یہ ایک مکمل جنگ ہو گی اور سب سے زیادہ نقصان طالبان ہی کا ہو گا۔ اگر انہوں نے مصالحانہ رویہ اختیار کیا تو اس کا فائدہ بھی سب سے زیادہ انہیں پہنچے گا۔

Javed Ali Bhatti
About the Author: Javed Ali Bhatti Read More Articles by Javed Ali Bhatti: 141 Articles with 104968 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.