کرچی کرچی کراچی کی ایک مہکتی شام

کراچی کے ایک مقامی ریسٹورینٹ میں فلم کالم نگارطاہر نواب کے اعزاز میں ایک تقریب پذیرائی ہوئی ۔واجدعلی اظہارجو مختلف شہروں میں ارباز خان کی پرستار تنظیموں کے علاوہ سپریم اسٹاردل دل ارباز خان فرینڈزسوسائٹی کراچی کے بانی ہیں، کیجانب سے ایک سادہ و پروقار تقریب میں ایوارڈز تقسیم کئے گئے۔تقریب کے منتظم بہادر خان ، علی خان تھے جبکہ لائف ٹائم کمبائنڈ فیڈریشن سے سیلم ٹونہ بندھانی،رنگ وروپ کے ایڈیٹر ایس ایم شاکر ،ڈپٹی ایڈیٹر سرفراز فرید ، فلمی پرچہ کراچی پشتو ڈائری کے انچارج امان اﷲ سواتی،انور بیگ ، ہفت روزہ نگار سے علی احمد بلوچ ،ہر دل عزیزشیخ لیاقت حسین،پاکستانی فلموں کے دیگرتجزیہ نگاروں میں گٹو،اکبر باریو،کھتری ، زر خیل پشاورے، راجہ جاوید اقبال ،پرنس نور محمد خان،پشتو ڈراموں کے معروف اداکار ناصر خان بونیری ، اظہار باچا ، گلزار ،میٹرولائف میگزین کے ایڈیٹر و سندھ فلم سنسر بورڈ کے رکن عمر خطاب سمیت کثیر تعداد میں مختلف فلم پرستار تنظیموں کے عہدے داروں نے شرکت وخطاب بھی کیا۔میرے لئے کسی فلمی پرستار تنظیم کے حوالے سے منعقد کی جانے والی تقریب میں شرکت کا پہلا موقع اور ایک انوکھا و دلچسپ تجربہ بھی تھا کیونکہ اس سے قبل ہزاروں اور لاکھوں کے مجمع اور عوام کے سمندر جیسے سیاسی و سماجی جلسوں پریس کانفرنسوں میں شرکت کرتا رہا ہوں جہاں بین الاقوامی شہرت کے حامل سیاست داں، وزرا ء ، مشیر جیسی ہستیاں لاکھوں عوام کے مجمع سے خطاب کرتے ہوئے مختلف نعروں سے ہجوم غفیر میں جذبات کے سمندر پیدا کردیتے ہیں ۔میں اپنی خاموش تنہائی پسندطبعیت و متلون مزاجی کے سبب اور موجودہ فلمی ماحول میں بننے والی فلموں کی وجہ سے ہمیشہ ایسی کسی تقریب سے کتراتارہا ہوں گو کہ کراچی پریس کلب میں کراچی سے وابستہ پختون صحافیوں کا پروگرام پختون کارنر اور پی ای ایس ایچ میں "اوشو"مکتبہ فکر کی فکری ادبی نشست میں شرکت کرنا تھی ۔لیکن پرنس نور محمد خان اور زر خیل پشاورے نے اتنے خلوص سے دعوت دی کہ مجھ سے انکار نہ ہوسکا اور میں کراچی کے پُر خوف ، گھٹے آپریشن زدہ ماحول میں اس نیت کے ساتھ روانہ ہوگیا کہ" چلو یہ بھی کرکے دیکھتے ہیں"۔پہلے اپنے ہم رفیق پرنس نورمحمد خان کیساتھ کراچی کے سب سے با رونق علاقے ایم اے جناح روڈ نمائش سے ہوتے ہوئے پٹیل پاڑہ پہنچے ، جہاں ارباز خان گروپ کے چیئرمین جمال، سر پرست اعلی حمید خان نے ہمارا پُر تپاک استقبال کیا پٹیل پاڑہ علاقے کی اندرونی گلیوں میں داخل ہوتے ہی پختونوں کے کراچی کی روایتی طرز زندگی کا منظر سامنے تھا ، تنگ و چھوٹی گلیوں میں بسے لاکھوں پختون، کچے پکے بے ربط مکانات ، جہاں مختلف سیاسی جماعتوں کے جھنڈوں اورُپُرانے بینرز نے اس بات کا اظہار کیا کہ اس علاقے میں فی الوقت سیاسی نقل و حرکت کی آزادی ہے۔میزبان کے ہمراہ جب ان کے فین کلب کے دفتر پہنچے تو ارباز خان کے قد آدم پوسٹر اور مختلف تصاویر نے خیر مقدم کیا ، ہمارا میزبان جمال خود نوخیز اور نوجوان تھا ، میں نے ارزاہ مذاق پوچھا کہ کیا فین کلب اسلئے بنایا ہے کہ فلم میں چانس ملے تو ،وہ ہنس پڑا کہ قادر بھائی نہیں ، ایسی بات نہیں ، بس ارباز خان سے محبت سے اظہار کیلئے اس کلب کو چلا رہا ہوں ، پھر اُس نے مختلف اخبارات میں ارباز خان کیساتھ فلمی اداکار سعود کیلئے مبارکباد کے اشتہارات بھی دکھائے ، جس کے اخراجات یہ خود برداشت کرتے ہیں۔میرے لئے حیرانی کی بات تھی کہ ارباز خان پشتو فلموں کے حوالے سے تو کسی کیلئے موجب تعریف ہوسکتا ہے لیکن سعود کا کسی پشتو فین کلب کیساتھ کیا واسطہ ہوسکتا ہے ۔ بہرحال میزبانوں کیساتھ مقامی ریسٹورینٹ کے ہال کی تقریب میں جا پہنچے ، جہاں رفتہ رفتہ مہمانوں کی آمد شروع ہوچکی تھی ۔ میرے لئے یہ بات دیدنی تھی کہ میں تقریب میں صرف پشتو بولنے والوں کی آمد کی توقعات رکھ رہا تھا ، لیکن تقریب میں جیسے جیسے مہمان آتے چلے گئے تو ان میں تمام قومیتوں سے تعلق رکھنے والے چیدہ چیدہ افراد تھے ، چونکہ طوالت کے پیش نظرمیں ان سب کا تذکرہ اور نام نہیں لکھ سکتا ، لیکن پشتو فلموں کے پرستار تنظیموں کے نمایاں عہدے داران کے ساتھ انھیں بھی اس پروگرام میں ہمراہ دیکھ کر خوشگوار حیرت ہوئی اور جب پروگرام کا باقاعدہ آغاز پرنس نور محمد خان نے اردو میں شروع کردیا تو میں سمجھ چکا تھا کہ تمام حاضرین سے یکساں رابطے کیلئے قومی زبان کا انتخاب کیا گیا ہے جو قابل ستائش عمل تھا۔ تقریب میں شرکت کیلئے آنے والے راستے میں افشاں سینما میں پشتو فلم کا ایک بڑا پوسٹر دیکھا تھا، پوسٹر میں ارباز خان تھے ، لیکن ساتھ میں نیم برہنہ رقاصہ سدرہ نور کی تصویر دیکھ کر میرا تمام موڈ آف اور طبعیت مکدر ہوچکی تھی ، اگر آداب مہمانی حائل نہیں ہوتے تو میں یقینی طور پر اس تقریب میں شرکت نہ کرتا ، لیکن تقریب میں مختلف قومیتیوں کے مہکتے پھولوں کے گلدستوں اور ان کے درمیان محبت دیکھ کر طبعیت ہشاش بشاش ہوچکی تھی۔ حالاں کہ میں نے مصم ارادہ کرلیا تھا کہ میں تقریر نہیں کرونگا لیکن اختتامی تقریر کیلئے مجھ عزت افزائی بخشی گئی ۔ میں نے تقریب سے قبل طاہر نواب سے دریافت کیا تھاکہ آپ کے اعزاز میں جو یہ تقریب منعقد ہو رہی ہے اور مختلف ایوارڈ بھی رکھے گئے ہیں ، اس کا کیا فائدہ ہے تو انھوں نے صاف گوئی سے کام لیتے ہوئے ، ایسے ملنے جلنے اور باہمی تعلقات کے فروغ کا اک بہانہ قرار دیا۔میں نے اس بات کو رسماً گردانا لیکن جب مختلف فلمی اخبارات سے تعلق رکھنے والے ایڈیٹرز کیساتھ اردو بولنے والے ٹی وی ڈرامہ رائٹرز کو بھی دیکھا اور ان کے خیالات سنے تو بے اختیار صدائے آفرین نکلی کہ کراچی ، جہاں لسانی اور فرقہ وارانہ سازشوں نے عوام کو تقسیم کردیا ہے وہاں واجد علی اظہار کی تنظیم کی جانب سے چھوٹی سی جگہ پر بڑے دلوں والوں کی بھاری بھرکھم تقریب کو خارج تحسین دینا حق بنتا ہے۔خاص طور پر حیدر آباد کے رہائشی پشتو ڈراموں کے معروف فنکار ناصر خان بونیری نے جذباتی سما ں باندھ دیا کہ ثقافت کسی لسانی تعصب کی محتاج نہیں بلکہ ان سب سوچوں سے بلند تر دل جوڑنے کا ذریعہ ہے ، انھوں نے ہلکا سے گلہ بھی کیا کہ پشتو بولنے فنکاروں کو پرائیوٹ پروڈکشنز میں بھی موقع فراہم کرنا چاہیے تاکہ اخوتیں اورپیار بڑھے، اس پر معروف ڈرامہ نویس سہیل عالم نے وعدہ کیا وہ اپنی اگلی سریل میں ناصر خان بونیری کو موقع دیں گے ۔تقریب مختلف زبان بولنے والوں کا ایک خوب صورت گلدستہ تھی ، جس کے مختلف رنگ وبو کے پھولوں نے ایک قومیت کی خوشبو مہکا دی تھی ۔اس موقع پر میں نے تمام حاضرین مجلس و مختلف فلمی تنظیموں سے یہی اپیل کی ان کی تقریب اور جدو جہد ایک مثالی ہے اور اسے کراچی کے حالات کو پیش نظر رکھتے ہوئے جاری وساری رکھنی چاہیے۔ اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے میں نے اُن سے یہ بھی درخواست کی وہ پشتو فلموں میں فحاشی و ثقافت کیخلاف عکاسی پر اپنا مثبت کردار ادا کریں کیونکہ ان کے تعاون کے بغیر موجودہ فلمی رجحان تبدیل نہیں ہوسکتا۔پنجابی فلموں کے گنڈاسہ کلچر نے ایسا گنڈاسہ چلایا کہ پنجابی فلم انڈسٹری دوبارہ اٹھ نہ سکی اب فلموں کی زبوں حالی اور اخلاق باختہ منظر کشیوں نے پختون قومیت کے حوالے سے بے ہودہ تاثر کو جنم دیا ہے جیسے پرستار تنظیمیں ہی ختم کرسکتی ہیں۔میں نے تلخ اور ترش باتوں سے اجتناب برتا کیونکہ لسایت کے بجائے یکجہتی کی جو فضا وہاں قائم تھی میں اس احسا س کو قائم رکھنا چاہتا تھا اور خوشگوار یادیں لے کر واپس جانا چاہتا تھا ۔کم ازکم کراچی کی سادہ تقریب نے مختلف زبانیں بولنے والے ثقافت و روایات کے نام پر ایک جگہ بیٹھے اور مختلف الخیال تنظیموں سے وابستہ افراد نے مل بیٹھنے کیلئے قومی یکجہتی کا پیغام کرچی کرچی کراچی سے دیا گیا۔جو قابل آفرین و قابل تقلید ہے۔ لیکن پشاور میں مسیحی برادری کے گرجا گھر میں دہماکے کے بعد سوچتا رہ گیا کہ ایسے کیا نام دیا جائے۔ اسلام تو غیر مسلموں کی عبادت گاہوں کی حفاظت کا نام ہے ، ایسا گھناؤنا عمل کم از کم مسلمان کہلانے والا تو نہیں کرسکتا ، اگر امریکہ ڈرون حملے کرکے یہ سوچے کہ ایسا ردعمل میں ہوا ہے تو میں ایسے نہیں مانتا۔کیونکہ جہاں امریکہ کی سوچ ختم ہوتی ہے وہاں سے اسلام کی سوچ بلند ہوتی ہے۔

Qadir Khan
About the Author: Qadir Khan Read More Articles by Qadir Khan: 937 Articles with 659041 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.