سابقہ دور حکومت میں پی آئی اے کی نجکاری کی بازگشت سنائی
دی تو بہت سے لوگوں نے اس پر شور مچایا اور بعض نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ
سابق صدر زرداری کی بہن صاحبہ نے ایک نئی ائیر لائن رجسٹرڈکروائی ہے اور اس
کو کامیاب کرنے کے لئے شائد پی آئی اے کو ناکام کیا جا رہا ہے اور یہ بھی
سننے میں آیا تھاکہ پی آئی اے کو ان کی نجی ائیر لائن میں ضم کر دیا جائے
گا دوسرے لفظوں میں وہ اس کو خرید لیں گی مگر ایسا نہیں ہوازرداری صاحب بھی
گئے اور ان کی حکومت بھی لیکن پی آئی اے نہیں بکی اب جبکہ نئی حکومت آچکی
ہے اور اس نئی حکومت نے اپنے سو دن پورے کر لئے ہیں اب ایک بار پھر پی آئی
اے کے بکنے کی باتیں سنائی دی مگر پہلے کی طرح صرف باتیں نہیں تھیں بلکہ پی
آئی اے کے چھبیس فیصد بکنے کی منظوری دی جا چکی ہے پی آئی اے کی نجکاری کی
دو کوششیں پہلے بھی ہو چکی ہیں جن میں1990,اور1997,اور اب 2013اور اس سے
بھی حیرت انگیز بات یہ ہے کہ یہ تینوں ادوار میں مسلم لیگ ن ہی حکمران
جماعت تھی۔ پی آئی اے کھبی باکما ل لوگ لاجواب سروس کے نام سے جانی جاتی
تھی مگر آج اس کی حالت سب کے سامنے ہے ایسا کسی بھی ملک میں نہیں ہوتا کہ
سال میں سب سے زیادہ رسکی پروازیں چلائی جائیں جس میں بہت سی حادثات کا
شکارہونے سے مشکل سے بچتی ہیں ان تمام برائیوں کی بڑی وجہ مناسب فلائیٹ
چیکنگ کانہ ہونا،وقت کی پابندی کا فقدان، ناقص سہولیات،عملے کا مسافروں سے
ناروا سلوک اور دیگر کئی انتظامی شکایات بھی ہیں جس کی وجہ سے پاکستان کی
ائیر لائن یورپ میں مسلسل دباؤ کا شکار ہے اس میں تقریبا انیس ہزار ملازمین
ہیں اور یہ مجموعی طور پر بتیس جہازوں کے ساتھ آپریشن کرتی ہے ان میں سے
ٹوٹل سترہ جہاز آپریشنل ہیں اور باقی مختلف بیماریوں کا شکار ہو کر مختلف
جگہوں پر ٹھیک ہونے کے لئے کھڑے ہیں اگر ان کو ٹھیک کر لیا جائے تو بہتری
کی طرف جایا جا سکتا ہے مگر ؟؟شاید کوئی اس طرف جانا نہیں چاہتا دوسری طرف
اہم سوال یہ ہے کہ اتنے کم جہازوں کے ساتھ اتنے زیادہ ملازمین کا بوجھ اٹھا
کر پی آئی اے حکومت کو کس طرح منافع دے سکتی ہے یہ وہ سوالات ہیں جن کے
جواب بہت مشکل ہیں۔آج بھی اسکی بری حالت کے باوجود اس پر مسافروں کا لوڈ 72
فیصد سے اوپر ہے ائیر لائن انڈسٹری کا فارمولا ہے کہ اگر کوئی بھی ائیر
لائن 50فیصد کے لوڈ پرچلائی جائے تو نفع نقصان برابر ہو جاتا ہے مگر یہاں
72 فیصد سے اوپر ہونے کے باوجود نقصان ؟اس کے بکنے کے بعد اس میں ملازمین
کی چھانٹی بھی یقینی بات ہے کیونکہ جہاز کم اور عملہ زیادہ ہے جس میں سے
زیادہ تر کے بارے میں خیال کیا جا تا ہے کہ سیاسی بھرتیوں کے ذریعے پی آئی
اے کے سر پر تھونپا گیا عملہ ہے جن کو گولڈن ہینڈ شیک کے ذریعے ڈاون سائز
کیا جائے گا جیسا کہ اس سے پہلے پی ٹی سی ایل کو بیچتے وقت کیا گیا تھاقومی
اداروں میں پی آئی اے ایک ایسا ادارہ تھا کہ جس نے متحدہ عرب امارات اور
کئی دوسرے ممالک کی ائیرلائینوں کو قائم کرنے میں اور ان کو اپنے پیروں پر
کھڑا کرنے میں معاونت کی اور ان کو کامیاب کرنے میں انتہائی اہم کردار ادا
کیا جس کی وجہ سے ان ممالک کی ائیر لائینوں کاشماردنیا کی بہترین اور صف
اول کی ائیر لائینوں میں ہوتا ہے یہ سب اسی پی آئی اے کی وجہ سے ہے جو آج
خود ایک بے بسی کی تصویر نظر آرہا ہے اخبارات میں جس کی کارکردگی پاکستان
کے حکمرانوں کا منہ چڑھا رہی ہوتی ہے یورپ اور امریکہ میں جس کی غیر معیاری
سروس کی وجہ سے پابندی عائد کی جانے کی کئی وارننگز دی جا چکی ہیں اور بعض
یورپی ممالک میں اس کی پروازوں پر پابندی بھی عائد ہے اگر سنگا پور ،انڈیا،سری
لنکا اور دیگر کئی ممالک کی سرکاری ائیر لائینیں منافع دے سکتی ہیں تو پی
آئی اے کیوں نہیں دے سکتی ؟ یہاں ایک بات اہم ہے کہ اگرصرف حج پروازوں کو
اگر صیحح طریقے سے کنٹرول کیا جائے تو پی آئی اے کو منافع بخش بنایا جا
سکتا ہے پی آئی اے کی کانامی کی بنیادی وجہ کیا ہے؟ اسکی بنیادی وجہ یہ ہے
کہ ہم ان لوگوں کو اداروں کی بھاگ دوڑدے دیتے ہیں کہ جو ان کی الف ب بھی
نہیں جانتے سیاسی وفاداروں کو ان اہم اداروں کی بھاگ دوڑ ان کی قابلیت کو
نہیں بلکہ انکی وفاداری کو دیکھ کر دے دی جاتی ہے جو ان اداروں سے جو چاہیے
سلوک کریں کوئی پوچھنے والا نہیں کوئی پوچھ بھی کیسے سکتا ہے کیونکہ ایسے
لوگوں کی اوپر تک پہنچ ہوتی ہے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ان سے کن نتائیج
کی توقع کی جا سکتی ہے بات کرنیکا مقصد یہ ہے کہ ہم نے ایسے ایسے لوگوں کو
پی آئی اے جیسے اہم اداروں میں لگایا ہوا ہے جس کی وجہ سے ان اہم اداروں کی
کارکردگی بہتر ہونے کی بجائے دن بدن خراب سے خراب تر ہوتی جا رہی ہے اور جس
کا خسارہ ہے کہ بڑھتے بڑھتے کہاں سے کہاں پہنچ چکا ہے ہر ماہ تقریبا تین
ارب روپے کا خسارہ ہو رہا ہے دوسرے لفظوں میں حکومت کچھ کمانے کے بجائے اس
کو ہر ماہ تین ارب روپے اپنے پاس سے دیتی ہے مگر دوسری طرف جن لوگوں کو بھی
اس کا سربراہ لگایا جاتا ہے ان میں سے اکثر پروفیشنل نہیں ہوتے اور پی ائی
اے کے متعلق کچھ نہیں جانتے اس لیے ایسے لوگوں سے خیر کی توقع مشکل ہے اور
سارے پاکستان کی عوام جانتے ہیں کہ یہ وہ واحد ادارہ ہے جہاں اب کرپشن اپنی
آخری حدوں کو چھو رہی ہے ایک انجن کئی بار مرمت ہو رہا ہے مگر صرف فائلوں
کی حد تک اور رقم کہاں جا رہی ہے کسی کوئی نہیں پتا جس ادارے کی ایسی حالت
ہو گی اس کا انجام ایسا ہی ہو گاسب سے پہلے اس ادارے میں آپریشن کلین سویپ
کرنیکی ضرورت تھی ناکہ اس کو بیچنے کی۔اگر ادارے کے حالت کومنافع بخش بنانا
ہے تو وفاقی یا صوبائی منسٹرز اوردوسرے سرکاری کارکنوں،میڈیا ،سماجی
کارکنوں کوجو مفت یا ہاف ٹکٹ دے جاتے ہیں ان پر پابندی ہونی چاہیے تب تک جب
تک کہ ادارہ منافع بخش نہیں ہو جاتاجس طرح سابق وزیر اعظم شوکت عزیز صاحب
کے دور میں نیشنل ہائی وے (این ایچ اے) کو مالی مشکلات سے نکالنے کے لیے
سرکاری گاڑیوں کو بھی ٹول ٹیکس دینے کا پابند کیا گیا تھا اس کے بعد حکومتی
ایوانوں میں بیٹھے ہوئے لوگ بھی ادارے کی حالت زار کو دیکھتے ہوئے رعائیتی
یا مفت ٹکٹوں کو لینے سے انکار کر دیں تاکہ ادارے کو منافع بخش بنایا جاسکے
اس کی سروسز کو بہتر اور معیار عالمی روایات کے مطابق کیا جائے ایماندار
اورقابل لوگوں کو اس ادارے میں لگایا جائے تاکہ کارکردگی کوبہتر کیا جائے
کرپشن کوختم کرنے کے ٹاسک فورس قائم کی جائے اورتمام ملازمین کے اثاثوں پر
نظر رکھی جائے اور کرپشن فری ائیر لائن کے قیام کی کوشش کی جائے جس کے لیے
سخت اقدامات کرنے کی ضرورت ہے اور جو بھی عناصر کرپشن میں ملوث ہوں ان کو
سخت سے سخت سزا دی جائے تب جا کہ پی آئی اے کوکرپشن سے پاک ،منافع بخش
ادارہ بنایا جاسکتا ہے ورنہ دوسری صورت میں ہم ایک اور اہم ادارہ کھو دیں
گے۔ |