اگر آپ وزیراعظم نواز شریف کے
موجودہ دورئےامریکہ کا تجزیہ کریں تو آپ کو آخر میں جو نتیجہ ملے گا وہ صرف
یہ ہوگا کہ ہمارئے وزیراعظم پندرہ سال بعد امریکہ دیکھ آئے، اس دورئے سے نہ
آپکو کوئی معاشی فاہدہ نظرآیگا اور نہ ہی سیاسی، اسکے علاوہ نہ ہی خارجہ
پالیسی میں کوئی بہتری نظر آیگی اور نہ ہی داخلی انتشار میں کوئی کمی۔ بڑی
ہی مشکل سے بھارتی وزیراعظم من موھن سنگھ سے اُن کی ملاقات طے ہوئی ہے جو
ایک فوٹو سیشن سے زیادہ کچھ نہیں ہوگی، جبکہ امریکی صدر سے ملاقات کےلیے
شاید وہ پندرہ دن بعد دوبارہ امریکہ جاینگے۔ اپنی روانگی سے پہلے نوازشریف
نے ایک بیان دیا تھا کہ "پاکستان ایک پرامن ملک ہے" مگر شاید ابھی انہوں نے
ایک ہزار کلو میٹر کا بھی سفر نہ کیا ہوگا کہ دہشت گردوں نے پشاور میں چرچ
پر دو خودکش حملے کرکے اُن کے بیان کا جنازہ نکال دیا۔ پاکستانی میڈیا نے
نواز شریف کے حوالے سے ایک بیان نشر کیاجس میں نوازشریف نے وفاقی وزیرداخلہ
کو فورا پشاور پہنچنے کو کہا۔ اسکا مطلب یہ ہوا کہ اُن کو اپنے جہاز میں ہی
اس حادثہ کی اطلاع مل گی تھی کہ اُن کے ملک میں تراسی شہریوں کا قتل عام
ہوا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ وہ اپنا جہاز واپس پاکستان کی طرف موڑتے
اور پشاور پہنچتے اور اپنے شہریوں کے غم میں شریک ہوتے، خواہ ایک دن بعد وہ
واپس نیویارک جاکراقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں لکھی ہوئی تقریر پڑھ دیتے،
ویسے بھی اس لکھی ہوئی تقریرکو کوئی وزیر یا سفیر بھی پڑھ سکتا تھا۔
وزیراعظم کے اس عمل سے مرنے والے تو واپس نہیں آتے لیکن عوام کو ضرور حوصلہ
ملتا اورعالمی برادری میں اُن کوخاصا احترام بھی ملتا۔
مہذب اور انسانیت سے بھرپورکسی بھی معاشرئے میں آپکو شاید ایسا دیکھنے کو
نہ ملے، ایسا تو نہیں کہا جاسکتا کہ ہمارئے ملک میں انسانیت دم توڑ چکی ہے
وہ عام لوگوں تک ابھی باقی ہے اور رہے گی، لیکن اگرہم اپنےحکمرانوں اور
سیاست دانوں کی طرف دیکھیں تو ایسا لگتا ہے کہ اب ہم کسی مہذب اور انسانیت
سے بھرپور معاشرئے میں نہیں رہ رہے ہیں۔ جب ہمارئے ہاں سیلاب سے لوگ مررہے
ہوتے ہیں تو ہمارئے سابق صدر آصف زرداری یورپ کی سیر کررہے ہوتے ہیں اورجب
پشاور میں قتل عام ہوتا ہے تو ہمارئے وزیراعظم اپنے امریکہ کےسفر کو جاری
رکھتے ہیں، ہاں ایک احسان انہوں نے لندن پہنچ کراور نیویارک روانگی سے قبل
ضرور کیا اور ایک بیان میڈیا پردیاجس میں پشاور کے چرچ میں ناحق بہائے جانے
والے خون اور مرنے والے مظلوم عیسائیوں سے ہمدردی کا اظہار کیا، مگر افسوس
وہ اُس وقت بھی دہشت گردوں سے مذکرات کے بارئے میں فکرمند تھے، انکا طالبان
سے ہمدردانہ لہجہ اور باڈی لینگوئیج اس بات کی غمازی کررہی تھی کہ انہیں
دہشت گردوں کے ساتھ ہونے والے مذاکرات خطرہ میں اورناکام ہوتے نظر آرہے تھے۔
وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے پشاورمیں چرچ پرحملے کو غیر
انسانی فعل قرار دیتے ہوئے 23 ستبر کو قومی اسمبلی میں ایک پالیسی بیان
دیتے ہوئے کہا کہ "ایک گروپ نے ذمہ داری قبول کی ہے لیکن اس حوالے سے ہمیں
شک ہے کیونکہ اس گروپ کا وہاں کوئی وجود نہیں، اے پی سی کی قرار داد کو گڈ
مڈ نہ کریں ایوان سے یکجہتی کاپیغام جانا چاہئے"۔ اس بیان کا مطلب بھی
سیدھا سیدھا یہ ہی ہے دہشتگرد جو چاہیں کریں مگر ہم مذکرات ضرورکرینگے۔
نواز شریف ایک معاملےبڑئے خوش قسمت ہیں کہ اُن کے سامنے اپوزیشن نام کی
کوئی چیز نہیں ہے، طالبان دہشتگردوں کے دو بڑئے حامی یعنی دونوں جمیت
علمائے پاکستان مولانا فضل الرحمان اور مولانا سمیع الحق انکے ساتھ ہیں،
جبکہ طالبان کے دوسرئے بڑئے ہمدرد پی ٹی آئی اور جماعت اسلامی صوبہ کےپی کے
حکمراں ہیں۔ عمران خان اور سید منور حسن تو پہلے سے ہی طالبان کے ہمدرد ہیں
اور اب جب وہ ملے ہیں تو صوبہ کے پی کے میں موت کی سونامی آئے دن آتی رہتی
ہے۔ باقی رہ گیں تین بڑی سیاسی پارٹیاں یعنی پیپلزپارٹی، اے این پی اور ایم
کیو ایم جو طالبانی دہشتگردوں کے کھلے مخالف تھے مگر گذشتہ پانچ سال میں ان
جماعتوں کی کارکردگی اسقدر بری تھی کہ نو ستمبرکی اے پی سی میں ان کے پاس
اتنی سیاسی قوت نہیں تھی کہ مذکرات کےخلاف کچھ کہتے یہ مذکرات کی حمایت میں
ہاتھ اٹھاکر چلے آئے۔
مذکرات ہونے چاہیے یا نہیں یہ ایک علیدہ بحث ہے مگر جو کچھ پشاور میں ہوا
وہ ایک دل ہلادینے والا واقعہ ہے۔ ہمارئے حکمرانوں اور سیاست دانوں کا کیا
رویہ رہا یہ بھی سب کے سامنے ہے مگر بغیر کسی مذہبی تفریق کے عوام کا کیا
رویہ تھا وہ دہشت گردوں کےلیے ایک کھلا پیغام تھا کہ "پشاورکے چرچ دھماکے
میں تراسی پاکستانی عیسائی ہلاک ہوگئے، مسلمانوں اور دوسرئے مذاھب کے عام
لوگوں نے اُن کے غم کو اپنا سمجھا اور آگے بڑھکر اُن کا ساتھ دیا، مساجد
میں اعلانات ہو رہے تھے کہ کالو محلے میں مدد کرنے پہنچو اور جو جوان ہیں
وہ قبرستان پہنچیں تاکہ قبریں کھودی جا سکیں۔ یہ سارے مقامی لوگ اور جوان
دھماکہ ہونے سے لیکر رات گئے تدفین تک لواحقین کے ہمراہ موجود رہے اور
میتیں دفنا کر ہی اپنے گھروں کو لوٹے۔ مسلمانوں نے قبرستان پہنچ کر قبریں
تیار کیں، مذھب اپنا اپنا مگر انسانیت زندہ ہے۔ اس سارئے عمل نے پاکستان کو
اقلیت کی بنیاد پر تقسیم کرنے والوں کو منہ توڑ جواب دئےدیا ہے۔ اُو وحشی
درندوں تم مسلمانوں کو مارو یا عیسائیوں کومگر یقین کرو دہشتگردوں تم
انسانیت کو نہیں مار سکتے"۔ اور یہ پیغام ہی پاکستان کی سالمیت ہے۔ |