اے پی سی میں ہونے والے فیصلہ پر ، کہ طالبان سے مذاکرات
کئے جائیں گے،اس وقت قوم دو حصوں میں بٹی ہوئی نظر آتی ہے بعض لوگوں کا
خیال ہے کہ مذاکرات ہی دہشت گردی کی جنگ سے نکلنے کا واحد راستہ ہے ۔جنگ
کسی مسئلے کا حل نہیں ہوتا، ہر مسئلے کے حل کے لئے آ خر میز پر بیٹھ کر حل
نکالا جاتا ہے ۔ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر جنگ سے مسئلہ حل ہوتا تو پچھلے
دس سال سے ہم جنگ لڑ رہے ہیں ،مگر جنگ ختم ہونے کے بجائے، مرض بڑھتا گیا،
جوں جوں دوا کی ، جبکہ دوسرا نقطہ نظر رکھنے والے لوگوں کا خیال ہے کہ اپر
دیر میں میجر جنرل ثنا اﷲ اور ان کی سا تھیوں کی شہادت اور پشاور میں چرچ
میں بم دھماکے کے نتیجہ میں سو سے زیا دہ ہلاکتیں اس بات کا ثبوت ہیں کہ
دہشت گرد صرف بندوق کی زبان سمجھتے ہیں ،ان کے خلاف ایک بھر پور اپریشن ہو
نا چا ہئے۔۔آ ج وزیرِداخلہ چو ہدری نثار علی خان کا بیان بھی سامنے آ یا ہے
کہ وزیر اعظم کی واپسی پر طالبان سے مذاکرات کے فیصلے پر نظر ثانی کی جا
ئیگی،، اگر ہم غصے اور جذبات کو ایک طرف رکھ کر ٹھنڈے دل و دماغ سے
اس مسئلہ پر غور و فکر کریں تو چند ایک باتیں ایسی ہیں ، جو بالکل واضح ہیں
، ان میں کو ئی ابہام نہیں،جسے مدِ نظر رکھتے ہو ئے ہمیں یہ فیصلہ کرنے میں
آ سانی ہو گی کہ پاکستانی ریاست کو طالبان سے مذاکرات کا راستہ اپنانا چا
ہئے یا جنگ کرنی چا ہئے ؟پہلی بات تو یہ ہے کہ کو ئی بھی ذی شعور شخص جنگ
کو پسندیدہ عمل قرار نہیں دے سکتا اس لئے کہ جنگ میں انسانی جانوں کا ضیا ع
لازمی امر ہے ۔اگر ہم پچھلے دس سال پر نظر دوڑا ئیں تو پاکستان اور
افغانستان میں جتنا انسانی خون بہا یا گیا ہے ، اس کا کسی بھی فریق کو ذرہ
بھر بھی فا ئدہ نہیں ہوا،بلکہ شدید نقصان ہو ا ہے اور نہ صرف یہ کہ تاریخِ
عالم میں ایک سیاہ باب کا اضافہ کیا گیا ہے بلکہ اسلامی تاریخ پر بھی ایک
سیاہ دھبہ ہے کیو نکہ اس جنگ میں مرنے والوں کی اکثریت مسلما نو ں کی ہے
لہذا جنگ کو ترجیح دینا بعید از عقل بات ہوگی۔ بعض لوگ سوات اپریشن کا
حوالہ دے کر یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ وہاں فو جی اپریشن کے نتیجہ میں امن
قا ئم ہو ا ہے جبکہ حقیقتاّ ایسا نہیں ہے ۔چار سال گزرنے کے با وجود فوج
وہاں سے نہیں نکل سکی اور اپرشن کے نتیجہ میں وہاں سے بھاگنے والے (مولوی
فضل اﷲ اور ان کے ساتھی) افغانستان میں بیٹھ کر پاکستانی فوج کے خلاف
کاروائیاں کر رہے ہیں، ایک معتبر ذرائع کے مطابق حال ہی میں اپر دیر میں
پاک آرمی کے ایک جرنیل اور ان کے سا تھیوں کی شہادت انہی کے کا روائیوں کا
نتیجہ ہے۔ بنا بر ایں یہ کہنا کہ فو جی اپریشن ہی دہشت گردی ختم کرنے کا
نسخہء کیمیا ہے ، درست نہیں۔
جہاں تک مذاکرات کا تعلق ہے ، اس میں شک نہیں کہ طا لبان سے مذاکرات ایک
نہایت پیچیدہ معاملہ ضرور ہے کیونکہ طالبان کوئی ایسی تنظیم یا گروہ کا نام
نہیں جو کسی ایک کمان کے تحت سر گر مِ عمل ہو یا اس کا ایک وجود ہو،اس وقت
درجنوں گروپس سرگرم ہیں، ان کے مقاصد اور اہداف میں بھی فرق ضرور ہو گا۔ان
کے ماسٹر ما ئینڈ بھی یقینا الگ الگ ہو نگے۔بوجہ ازیں ان سے مذاکرات و معا
ملات کو ئی آ سان کام نہیں مگر ناممکن نہیں، کیونکہ تحریکِ طالبان کا بار
بار سانحہ پشاور سے انکار کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ وہ بھی مذاکراتی عمل
پر آمادہ ہیں بلکہ معتبر ذرائع کے مطابق طالبان کے تیس قابلِ ذ کر گروپس
ہیں۔ جس میں سے پچیس گروپ مذاکرات پر آمادہ ہیں جبکہ پانچ گروپ جنہیں بھارت،
اسرائیل اور امریکہ سے مدد مل رہی ہے، نہ صرف یہ کہ مذاکرات پر آ مادہ نہیں
،بلکہ وہ مذاکراتی عمل کو سبو تاژ کرنے کے درپے ہیں۔شنید ہے کہ تحریکِ
طالبان پاکستان نے حکو مت کے ساتھ مذاکراتی عمل کو آگے بڑھانے کے لئے دیگر
عسکریت پسند تنظیموں کے ساتھ مل کر ایک مذاکراتی کمیٹی بھی تشکیل دی
ہے۔اندریں حالات مذاکرات کی مخالفت کرنا اور جنگ کی بات کرنا گھاٹے کا سودا
ہو گا۔خدا نخواستہ اگر مذاکرات نا کام ہو تے ہیں ، تو جنگ کا آ پشن تو کہیں
نہیں جاتا مگر فی الحال حکومت کو وقت ضا ئع کئے بغیر مذاکراتی عمل کا آ غاز
کر کے گو مگو کی کیفیت ختم کر دینی چا ہئے تاکہ امن و امان کی بحالی شروع
ہو جائے اور قوم مو جودہ بے یقینی کی کیفیت نجات حاصل کرے۔۔۔۔۔ |