بالخصوص گزشتہ کئی سالوں اوربالعموم پچھلے
کئی دنوں، ہفتوں اورمہینوںسے ہمارے حکمرانوں ، سیاستدانوں ، اپوزیشن
رہنماؤں، الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کی مُلکی اور عالمی حالاتِ حاضرہ کے
تناظر میں خواہ مخواہ کی مصلحت پسندی کی وجہ بہت سے دیرپااور پائیدارفیصلے
نہ ہونے کے باعث مُلک اور قوم کو جہاں ناقابلِ تلافی نقصانات کا
سامناکرناپڑرہاہے تو وہیں اِن سب کی اِس خواہ مخواہ کی مصلحت پسندی اور
عجلت پسندی کی وجہ سے میری طبیعت میں بھی بیزاری سی کیفیت پیداہوگئی ہے ،
وجہ صاف ظاہر ہے، کہ میری اِس بیزاری کے پسِ پردہ متذکرہ عوامل سمیت اور
کئی تفکرات کارفرماہیں،جن کا میں اگلی سطورمیں تذکرہ کروں گا، اَب ایسے میں
میری اور آپ کی طرح کون ایسامحب وطن پاکستانی ہوگا...؟جو اپنی سرزمینِ
پاکستان میں ہونے والے قتال پر غمزدہ نہ ہو، اوردرندوں کے ہاتھوں اپنی قوم
کی معصوم اور پھول جیسی بیٹیوں کی عصمت دری پرکون ایسالِکھاپڑھااور میری
طرح لکھے نہ پڑھے نام محمدفاضل بھی خون کے آنسو پی کر نہ رہ گیاہو، اَب اِن
دونوں صورتِ حال میں بیزاری کی کیفیات سے دوچار ہونا ہرذی شعور کا لازمی جز
ہے۔
اور اِس صورتِ حال میں تو اپنے آپ پر قابو پانا اور مشکل کام ہوجاتاہے، کہ
جب میری اور آپ کی طرح کوئی ذی شعور شخص شعور رکھنے کے باوجود بھی اپنے
مُلک اور معاشرے سے بُرائی کے خاتمے کے لئے ایک بے جان ساہوکررہ جائے، اور
ایسے میں اِسے اِس بات کا احساس اندر ہی اندر زہریلے نیزے مارے جائے
اورکلیجے کو چھلنی کرتارہے، کے اے شعورکی کڑہائی کے شِیرہ میں غوطہ زن
اِنسان تیراوجود تیرے معاشرے اور مُلک میں تو بس خواہ مخواہ کی حیثیت کا
حامل ہے، تُو، توخواہ مخواہ بس اپنے اِس ہی غرور میں غرق ہے کہ
توبڑاشعوررکھتاہے ،مگرشاید تویہ بھول جاتاہے کہ تو اور تیرے جیسے اور بہت
سے ذی شعور اور صاحبانِ اختیاراور اقتدارسب ہی طرح طرح کی مصلحتوں
اورعجلتوں کے شکار ہیں، جو اپنے لئے تو بہت کچھ کرنے کی ہمت رکھتے ہیں مگر
دوسروں کے لئے اِن کے ہاتھ بندھ جاتے ہیں، اِن کی زبانیں بن ہوجاتی ہیں،
آنکھوںکی روشنی محدودہوجاتی ہے، کان کم سُنتے ہیں ،قدم رک جاتے ہیں اورحلق
خشک ہوجاتے ہیں، اِن کا یہی دوغلاپن ہی تو ہے جس کی وجہ سے میرے مُلک میں
قاتل ، دہشت گرد، بھتہ خور، اور مُلک دُشمن عناصر آزاد فضامیں گھوم رہے ہیں
اور میرے معاشرے میں قوم کی معصوم بیٹیوں کی عصمت کا جنازہ نکالنے والے
درندہ صفت اِنسان نماکُتے سرزمینِ خداپراپنی درندگی پھیلاتے دندناتے پھر
رہے ہیں، اورمصلحتوں کی زنجیروں میں جکڑے ہمارے کرتادھرتااِن کا قلع قمع
کرنے کے بجائے، بس خواہ مخواہ خاموش ہیں۔
جبکہ آج اِس میں کوئی شک نہیں ہے کہ میرے مُلک اور معاشرے کا ہر ذشعور
اِنسان اپنی ذاتی اور فروعی لحاظ سے بے شمار مصلحتوں کا شکارہے، جو طاقت
اور ہمت رکھنے کے باوجود بھی اپنے اندراتنی بھی ہمت اور طاقت اور منہ میں
زبان اور حلق میں آواز بھی نہیں رکھتاہے کہ وہ کسی بُرائی کو بُراکہہ سکے،
اور اِس کے آگے بندھ ہی باندھ سکے، تو کیاایسے میں ہماری ہمت وطاقت اور
ہمارے شعور کی حیثیت ہمارے مُلک اور معاشرے کے لئے خواہ مخواہ نہیں لگتی
ہے....؟
اَب کوئی میری اِس بات سے متفق ہویانہ ہومگرآج یہ حقیقت بھی ساری پاکستانی
قوم پر پوری طرح سے عیاں ہوچکی ہے کہ ہماری مُلکی سیاست میں خواہ مخواہ کی
مصلحت پسندی کا عنصر کچھ ایساغالب آچکاہے کہ اِس کا جادو ہر سطح پرچل
رہاہے، جس کو دیکھو وہ پل میں کچھ تو پلک چھپکتے ہی کچھ ہوتاہے، کہیں گرم
تو کہیں ایساٹھنڈاکہ لگتاہی نہیں ہے کہ ابھی جو برف سے بھی زیادہ ٹھنڈاہے
وہ کبھی ایک ہزار فارن ہائٹ سے بھی زیادہ گرم تھااِس وقت مجھے شہیدبے
نظیربھٹو کا یہ قول یاد آگیاہے کہ” سیاست کی بڑی سنجیدہ اور دُوررَس ذمہ
داریاں ہوتی ہیں، سیاست قوم کے وجود میں اِس کے احیا کی بنیادہوتی ہے“ یہاں
میراخیال یہ ہے کہ آج ضرورت اِس امر کی ہے کہ ہمارے سیاستدانوں کو شہیدبے
نظیربھٹو کے اِس قول کو سمجھتے ہوئے، اپنے اندر اُس احساس کوبیدارکرناچاہئے
جس کی جانب اُنہوں نے اشارہ کیاہے اور سیاست اُس انداز سے کرنی چاہئے کہ
قوم کے وجود کی احیا باقی رہے۔
اگرچہ اِس سے بھی انکارنہیں ہے کہ میرے مُلک اور معاشرے میں ایسے لوگوں کی
کوئی کمی نہیں ہے، اورجوہرسطح اور ہر ادارے میں بھی موجود ہیں،جن کاکام صرف
اتناہے کہ یہ اپنی ناک سے آگے دیکھناپسند ہی نہیں کرتے ہیں، اور اِن کا یہی
وہ عمل ہے، جس کی وجہ سے میرے مُلک اور معاشرے میںبھونچال پیداہوتاہے،یعنی
یہ لوگ ہیں جو صاحبانِ اقتدار بھی ہیں تو صاحبانِ اختیار بھی ہیں، اوریہی
وہ لوگ ہیں جو سیاست میں بھی ہیں تو اپوزیشن میں بھی ہیں ، یہ الیکٹرانک
اور پرنٹ میڈیامیں بھی پائے جاتے ہیں، اور یہی میرے مُلک اور معاشرے میں
پایا جانے والاایسے اشخاص کا وہ ٹولہ ہے، جو مصلحت پسندی کا شکار ہے، جو جس
طرح اور جب چاہتاہے، قوم کا کان پکڑکرموڑدیتاہے اور اِسے اپنی مرضی کے
فیصلوں کی روشنی میں چلنے پر مجبورکردیتاہے،آج اِن لوگوں کی عجلت پسندی و
مصلحت پسندی اور ناعاقبت اندیشی کا ہی نتیجہ ہے کہ قوم بدنصیبی کا منہ دیکھ
رہی ہے اورآج بیشک مصلحت پسندی کی زنجیروں میں جکڑے ہمارے حکمران کیسے بھی
فیصلے کرلیں مگرپھر بھی یہ اپنے خواہ مخواہ کے فیصلوں اور اقدامات سے قوم
کو ہرگزبے وقوف نہیں بناسکتے ہیںکیوں کہ آج قوم اِس انگریزی کہاوت سے خوب
واقف ہے کہ خواہ مخواہ ” کئی بے وقوف ایک عقل مند(قوم )کوبے وقوف بننے پر
مجبورنہیں کرسکتے ہیں“ تو پھراَب ہمارے حکمرانوں اور سیاستدانوں کو چاہئے
کہ وہ قوم کو خواہ مخواہ بے وقوف بنانے کا سلسلہ بندکردیں، اور خواہ مخواہ
کے فیصلوں اور اقدامات سے خواہ مخواہ قوم کا وقت ضائع مت کریںاور وہ کچھ
کریں جو حقیقت پسندی اور عملیت پسندی پر منحصرہو۔(ختم شُد) |