جب سے اخبارات اور جرائد سے تعلق قائم ہوا ہے تب سے یہی
دیکھ رہے ہیں کہ بڑے اور نامور صحافی دنیا کی مشہور و معروف شخصیات کا
انٹرویو کرکے اہم مسائل پر روشنی ڈالتے ہیں۔ ہم نے سوچا کہ شعبہ صحافت سے
ہٹ کر اگر لوگ اس وادی میں قدم رکھنا چاہیں تو وہ کیا کریں؟ ہمارے ایک بزرگ
نے رہنمائی فرمائی کہ برخوردار سیاسی و مذہبی شخصیات کے بجائے تم مختلف
ممالک کے انٹرویو کرنا شروع کردو! ہم نے یہ بات آویزہ گوش بنالی اورامریکہ
سے ملاقات کے لیے پہنچے تو دیکھا کہ موصوف سر نیہوڑائے پریشان بیٹھے ہیں؟
ہمیں اپنے ارمانوں پر اوس پڑتی ہوئی محسوس ہوئی کہ پریشان امریکہ کیا خاک
انٹرویو دے گا؟ لیکن ہمت اکٹھی کرکے اپنا مدعا عرض کیا تو صاحب بہادر کہنے
لگے کہ میاں یہ باتیں چھوڑو اور پہلے پاکستان کے ایٹمی اثاثے تباہ کرنے کا
کوئی طریقہ بتاوَ؟ ہمارے تن بدن میں آگ لگ گئی لیکن خاموشی ہی میں عافیت
جانی اور یہیں سے انٹرویو شروع کرنے کا فیصلہ کیا اور کہا کہ جناب آپ تو
بابائے ایٹم ہیں اور اگر آج ہم نے آپ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ایٹمی طاقت
حاصل کرلی ہے تو آپ کیوں انہیں تباہ کرنا چاہتے ہیں؟ کہنے لگے کہ اس کی وجہ
سے ہمارا منا (اسرائیل) خوفزدہ رہتا ہے اور گھر سے باہر کھل کھیلنے میں
خطرہ محسوس ہوتا ہے۔اپنے غصے پر بمشکل قابو پاتے ہوئے ہم نے عرض کیا کہ
اعلی حضرت اس سلسلہ میں آپ نے اب تک کچھ کیا بھی ہے یا نہیں ؟ کہنے لگے کر
تو بہت کچھ رہے ہیں لیکن کامیابی نہیں مل رہی کیونکہ نہ تو ہم پاکستان پر
یہ الزام لگا سکتے ہیں کہ اس کے ایٹمی ہتھیار علاقے کے لیے خطرہ ہیں اور نہ
ہی کسی دوسرے ملک کے ذریعہ فی الحال دباؤ ڈال سکتے ہیں۔
پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کے خلاف اب تو جو اقدامات کیے ہیں ان میں سے کچھ
ہمیں بھی بتائیں گے؟ ہم نے پوچھا۔ امریکہ صاحب نے جواب دیا کہ ہاں ہم نے
ایک سناریو تیار کیا جس کے ذریعہ ہم نے وزیر خارجہ کونڈولیزا رائس اور دیگر
سینیٹروں کے ذریعہ یہ بیان دلوائے کہ پاکستان کے ایٹمی اثاثے غیرمحفوظ ہیں۔
اس طرح ہم نے عالمی رائے عامہ کافی ہموار کرلی۔ دوسرے مرحلے میں ہم نے ایک
طرف پاکستان میں ایسے دہشت گردوں کو پروان چڑھایا جنہوں نے پاکستانی حکومت
کی رٹ کو چیلنج کرنا شروع کردیا اور صرف مخصوص علاقوں میں نہیں بلکہ ملک
بھر میں پاکستانی فوج کو نشانہ بنانا شروع کردیا یہ سارا کام اس لیے کیا
تاکہ پاکستانی عوام اور عالمی برادری سمیت سبھی کو یقین ہوجائے کہ پاکستانی
فوج جو اپنی حفاظت نہیں کرسکتی وہ ملک اور ملکی اثاثوں کی کیا حفاظت کرے
گی۔دوسری طرف ہم نے پاکستان کے اندر سی آئی اے کا ایک ایسا نیٹ ورک بچھانا
شروع کیا جو آئی ایس آئی کا متوازی تھا لیکن اسی دوران پاکستانیوں کے ہمارے
ارادوں کی بھنک پڑ گئی اور دوسری طرف نسوار کے دلدادہ ریمنڈ ڈیوس سے ایک
غلطی ہوگئی جس کی وجہ سے فی الحال کام روک دیا ہے۔ (آپس کی بات ہے روکانہیں
ہے بلکہ دوسرے طریقے سے جاری رکھا ہوا ہے، سرگوشی کے انداز میں بتایا)۔ خیر
ہم نے اپنے ۔۔۔ ممالک کی مدد سے خالص اسلامی اصولوں کے تحت ریمنڈ کو رہا
کروالیا کیونکہ ہمیں دھڑکا تھا کہ کہیں اسے نسوار سے دور کرکے اس سے سب کچھ
اگلوا نہ لیا جائے۔
روایتی تجسس کے ہاتھوں مجبور ہوکر ہم نے انکی بات بیچ میں کاٹ کر پوچھا کہ
پاکستان کے ایٹمی اثاثے ختم کرنے کے لیے تیسرا مرحلہ کیا تھا؟ آہ ہ ہ! ایک
ٹھنڈی آہ بھر کر بولے کہ میاں کیا بتائیں ! ہم نے تو سوچا تھا کہ دہشت
گردوں کی وہ فورس جو ہم نے طالبان اور دیگر ناموں سے تیار کی ہے وہ بہت جلد
پشاور اور صوبہ خیبر پختونخواہ کے علاقوں پر قبضہ کرکے اسلام آباد کی طرف
پیش قدمی شروع کردے گی اور ہم اپنے قائم کردہ آئی ایس آئی نیٹ ورک کے ذریعہ
ایسی کاروائیاں کریں گے جس سے عالمی برادری چیخ اٹھے گی کہ جلد از جلد
پاکستان کے ایٹمی اثاثے محفوظ ہاتھوں میں پہنچائے جائیں اور پھر جس طرح ہم
نے شام کے کیمائی ہتھیار کنٹرول کیے اسی طرح پاکستان کے ایٹمی اثاثوں پر
بھی قبضہ جمالیتے لیکن ستیا ناس ہو پاکستان کے اداروں میں گھسی ہوئی ان
کالی بھیڑوں کا جنہوں نے اپنے پچاس ہزار افراد مروالیے لیکن ہماری طالبانی
فورسز کو پشاور تو بہت دور وزیرستان پر بھی قبضہ نہیں کرنے دیا۔میں ابھی
اگلے سوال کے لیے پرتول ہی رہا تھا کہ صاحب بہادر نے ہاتھ کے اشارے سے منع
کرتے ہوئے کہا کہ میاں بس بہت باتیں ہوگئیں اگلا انٹرویو جنرل اسمبلی کے
اجلاس کے بعد ہوگا کیونکہ مجھے ابھی ایران کو لائن پر لانے کے لیے بھی
پلاننگ کرنا ہے!!! |