پاکستانی روپیہ

نواز شریف حکومت کے خاتمہ سے لیکر نواز شریف کے دوبارہ برسراقتدار آنے تک جہاں ایک طرف ڈالر کی قیمتیں بڑھنے سے ملک میں مہنگائی کا طوفان آیاہے اور ہر چیز کی قیمتیں اتنی زیادہ ہوگئی ہیں کہ ایک عام سفید پوش انسان کی پہنچ سے دور ہوچکی ہیں وہیں پر دوسری طرف پاکستان اس وقت قدرتی و انسانی سانحات کی شدید لپیٹ میں ہے ، حکومتی مشینری ان حالات میں اپنا کردارادا کرنے میں فیل ہوچکی ہے زلزلے سے سینکڑوں قیمتی انسانی جانوں کے ضیاع پرہر محب وطن پاکستانی کو نہایت افسوس ہے پچھلے دو دہایوں سے مسلسل قدرتی و انسانی سانحات کا شکار رہنے کے نتیجے میں عام آدمی کا معیار زندگی بری طرح متاثر ہوا ہے بالخصوص دیہی علاقوں میں رہنے والے غریب و پسماندہ عوام مشکلات کی دلدل میں دھنستے چلے جارہے ہیں دوسری جانب حکومتی کارکردگی صفر نہیں بلکہ منفی ہے جو خو د کسی سانحہ سے کم نہیں اور سرکاری ادارے ہیں جو مسلسل خسارے میں چل رہے ہیں اسکے ساتھ ساتھ حکمرانوں کی اپنے کاروبار دن دگنی رات چوگنی ترقی کر رہے ہیں جبکہ ملکی ادارے دیوالیہ ہو رہے ہیں ملک میں پانچ سال سے بلدیاتی انتخابات نہیں ہوئے جس سے عوامی مسائل خوفناک حد تک بڑھ چکے ہیں ۔ بلوچستان حکومت ابھی تک بغیر کابینہ کے چل رہی ہے۔مقامی حکومت اور کابینہ نہ ہونے کی وجہ سے زلزلہ سے متاثرہ علاقوں میں عوام کا کوئی پرسان حال نہیں جہاں نظر دوڑائیں مسائل ہی مسائل نظر آتے ہیں غریب عوام کے سکھ کے لیے کچھ نہیں ہورہا -

اپنے پڑھنے والوں کی یاداشت میں اضافہ کی خاطر اورامریکی ڈالر کے گزشتہ سالوں میں عروج و زوال کی کہانی کچھ اسطرح ہے کہ 12اکتوبر 1999کو جب جنرل پرویز مشرف نے نواز شریف کی جمہوری حکومت کا خاتمہ کیا تو امریکی ڈالر 51روپے کا تھا جبکہ 28مئی 1998 کو ایٹمی دھماکوں کے بعدلگنے والی پابندیوں اور حکومت کی طرف سے غیر ملکی کرنسی اکاؤنٹس پر پابندیاں لگانے کی وجہ سے ایک سال کے اندر ڈالر کی قیمت میں تقریبا10روپے کا اضافہ بھی ہو چکا تھا، مشرف کے 12 اکتوبر 1999 کو اقتدار سنبھالنے کے بعد18 اگست 2008کو پیپلزپارٹی کے اقتدار سنبھالنے کے بعد صدارت چھوڑنے کے وقت 9سال میں امریکی ڈالر 16روپے بڑھ کر 67 روپے کی سطح کو چھو چکا تھا جبکہ اس دوران 21 نومبر 2002 کو مسلم لیگ (ق) کی حکومت بننے اور میر ظفر اﷲ خان جمالی کے وزارت عظمیٰ سنبھالنے کے وقت تک ڈالر عالمی پابندیوں کی وجہ سے 51 سے بڑھ کر 60روپے کو چھو چکا تھا تاہم اس دوران 2003میں کم ہو کر 58اور 2004میں جب شوکت عزیز نے وزارت عظمی سنبھالی تو ڈالر کی قیمت 57روپے تھی جو 2005میں بڑھ کر 59روپے،2006میں 60روپے اور 2007میں بھی 60سے 61روپے تک رہی، مسلم لیگ (ق) کی حکومت کے 5 سالوں میں ڈالر 60روپے کی سطح تک ہی رہا اور جونہی ملک میں ’’آمریت‘‘ کے بعد’’جمہوریت بہترین انتقام ہے‘‘ کے نعرے لگنے لگے تو ڈالر کو بھی آزادی نصیب ہوئی اور اس نے ملکی فضاؤں میں اڑان بھرنا شروع کر دی،(ق) لیگ حکومت کے خاتمہ کے بعد محمد میاں سومرو کی نگران حکومت سے پیپلز پارٹی کی منتخب حکومت کو اقتدار کی منتقلی کے تقریباً چھ ماہ کے دوران ڈالر 61سے 67تک پہنچ گیا۔25 مارچ 2008 کو جب پیپلز پارٹی کے یوسف رضا گیلانی نے وزارت عظمت کا حلف اٹھایا تو ملک میں ڈالر کی قیمت 67روپے تھی اس کے بعد 2009میں 80روپے اور 2010-11میں بڑھ کر 85 سے 86روپے اور 2012می ڈالر نے پہلی مرتبہ 90روپے کی حد عبور کی2012 سے مارچ 2013 تک پی پی پی حکومت کی 5 سالہ آئینی مدت پوری ہو نے تک ڈالر 97 روپے تک پہنچ گیا تھا اسکے بعد جب مسلم لیگ (ن) کے صدر میاں نواز شریف نے 5جون 2013 کو جب تیسری بار وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھایا تو اس روز مارکیٹ میں ڈالر کی قیمت 97 روپے سے 98روپے تھی لیکن اس کے بعد تو جیسے ڈالر کی پرواز’’آخری گیئر‘‘ میں پہنچ گئی اور ڈالر دن دوگنی اور رات چوگنی ترقی کرتا ہوا صرف 110روز میں 12روپے اضافہ کے ساتھ 110روپے تک پہنچا دیا، مشرف کے 9 سالوں میں 31 روپے اور (ن) لیگ کے 110 دنوں میں 12روپے کا اضافہ ہو گیا یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں منگائی کا ایک طوفان آچکا ہے کیونکہ ہماری معیشت اب ڈالر کے گردگھوم رہی ہے اور عالمی منڈی میں خریدو فروخت کے لیے پاکستانی روپیہ تو محض ایک کاغذ کا ٹکڑا بنا ہوا ہے ۔
rohailakbar
About the Author: rohailakbar Read More Articles by rohailakbar: 830 Articles with 612123 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.