صحافیوں کی ایک ٹیم جیل کا دورہ
کر رہی تھی۔ایک کوٹھری میں ایک ایسے صاحب بھی بند تھے ۔جو شکل سے خاصے شریف
اور مسکین دکھائی دے رہے تھے۔ایک صحافی نے جیلر سے پوچھا ۔اس شخص نے کیا
جرم کیا ہے ؟۔اس نے کوئی جرم نہیں کیا،جیلر نے جواب دیا۔دراصل اس نے ایک
دہشت گرد کو فائرنگ کر کے متعدد افراد کو قتل کرتے دیکھا تھا۔یہ اس واقعہ
کا اکلوتا چشم دید گواہ ہے،اسے جان کا خطرہ ہے۔اس لئے اسے حفاظت کے پیش نظر
یہاں جیل میں ر کھا گیا ہے ۔اور وہ دہشت گرد کہا ں ہے ؟،دوسرے صحافی نے
سوال کیا۔وہ ضمانت پر رہا ہو چکا ہے،جیلر نے اطمینان سے جواب دیا ۔پولیس کی
ایسی ہی ساکھ کی وجہ سے زیادتی کا شکار بننے والی مغلپورہ کی بچی کی تین سی
سی ٹی وی فوٹیج جاری کرنے کے باوجود بھی ملزم کی شناخت نہیں ہو سکی ہے۔آپ
مانیں یا نہ مانیں مگرہماری پولیس کے لئے زیادتی کا شکار بننے والی بچی کی
سی سی ٹی وی فوٹیج درد سر بن گئی ہے ۔اسی فوٹیج کی وجہ سے ہی ہماری پولیس
کی’’ فرضی‘‘ کارکردگی متاثر ہوئی ہے اور پویس تاحال ملزمان کا سراغ لگانے
میں ناکام بلکہ بے بس نظر آرہی ہے۔ورنہ اب تک تو پولیس نے کسی بھی ایرے
غیرے کو سر پر نقاب چڑ ھا کر بطور ملزم میڈیا کے سامنے پیش یا پھر پولیس
مقابلے میں پار کر کے سرخرو ہو چکے ہونا تھا۔ مگر فوٹیج میں بچی کو ہسپتال
لانے والے شخص کی نشاندہی ہی پولیس کی ’’کارکردگی‘‘میں رکاوٹ ہے ۔اب ہم
پولیس کی اصل کارکردگی کی جانب آتے ہیں ۔صورتحال یہ ہے کہ پولیس حکام نے
بچی کے ساتھ درندگی کے اتنے سنگین واقعہ کا سراغ لگانے کے لئے کوئی اعلی
سطحی یا پھر جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم سرے سے ہی تشکیل نہیں دی ہے ۔چیف جسٹس
آف پاکستان کے بچی سے زیادتی کے واقعہ پر نوٹس پرآئی جی پنجاب راتوں رات
اسلام آباد پہنچے اورصبح انہیں سیلوٹ مار کر واپس لاہور آگئے۔ مگراتنے دن
گزرنے کے باوجود تاحال پیش رفت صفرہے ۔اس سانحہ پر پوری قوم سکتے کی کیفیت
سے دوچار ہے ۔اس واقعہ کو سوچتے ہی آنکھوں سے آنسو چھلک آتے ہیں مگرمیڈیا
کے سامنے ملزمان کے قریب پہنچنے اور انہیں جلد قانون کی گرفت میں لانے کے
دعوے دار ڈی آئی جی آپریشنز لاہور دو ہفتے کے لئے ناروے چلے گئے ہیں۔
ملزمان کا سراغ لگانے کے لئے سی آئی اے پولیس اور انوسٹی گیشن پولیس سول
لائن ڈویژن آپس میں کوآرڈنیشن کی بجائے اپنے اپنے طورٹامک ٹوئیاں مار رہی
ہے ۔مگر بے سود ۔قانون کے رکھوالوں کے بلندو بانگ دعوؤں کے بر عکس ملزمان
تاحال ان کی گرفت سے آزاد ہیں ۔پولیس سے پوچھنے والا کوئی نہیں کہ جس دن
بچی اغواء ہوئی تھی ۔اس روز ورثاء نے مقامی تھانے میں اطلاع کی تھی تو پھر
پولیس حرکت میں کیوں نہ آئی؟۔اگر پولیس اسی وقت ایکشن لے لیتی تو شائد یہ
سانحہ رونما ہی نہ ہوتا۔ مگر شائد ہم سانحات کے عادی ہو چکے ہیں۔ابھی قوم
شاہ زیب قتل کیس میں ملزم شاہ رخ جتوئی کی ’’وکٹری‘‘پر کرب سے دوچار تھی کہ
بچی سے زیادتی کی خبر بجلی بن کر گری۔ پولیس حکام نے تو سانحہ جوزف کالونی
میں مسیحی برادری کے گھر نذر آتش ہونے پر چیف جسٹس آف پاکستان کے نوٹس
پرہٹائے جانے والے افسران کو دوبارہ لاہور میں پرکشش عہدوں پر تعینات کرنا
شروع کر دیا ہے۔ہم پانی سر سے گزر جانے کے باوجود بھی ہوش میں نہیں آتے۔بچی
کے ساتھ زیادتی کے واقعہ کے بعد بیرونی امداد پر پلنے والی نام نہاد این جی
اوزکا شرمناک کردار بھی سامنے آیا ہے ۔این جی اوز بچی کے ساتھ انصاف کا
مطالبہ اور احتجاج تو کر رہی ہیں مگر جب ان سے پوچھا جائے کہ ایسے سفاک
درندے کوموت کی سزادی جائے تواین جی اوز مافیا کی رگوں میں دوڑتا خون
فوراسفید ہو جاتا ہے اور وہ اپنے بیرونی آقاؤں کی زبان بولنے لگتی ہیں کہ
بچی کو انصاف ملے مگر وہ موت کی سزا کے خلاف ہیں ۔یہ تو ایسے ہی ہے کہ ایک
شخص ڈاکٹر کے پاس گیا اور کہا کہ مجھے خطرناک مرض لاحق ہے۔میں نہاتا ہو تو
گیلا ہو جاتا ہوں۔سوتا ہو ں تو مجھے کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ڈاکٹر بھی زمانہ
شناس تھا ۔اس نے مریض سے کہا کہ تم بغیر پانی کے نہایا اور آنکھیں کھول کر
سویا کرو۔تم کویقینا افاقہ ہو گا۔اسی طرح ہماری این جی او مافیا کو بھی
افاقے کے لئے علاج کی ضرورت ہے ۔انہیں اپنی آنکھوں پر بندھی لالچ کی پٹی
اتار کر حب الوطنی کی عینک سے وطن عزیز کو دیکھنا ہو گا ۔ بصورت دیگرمکھی
ساراخوبصورت جسم چھوڑ کرہمیشہ زخم پر ہی بیٹھتی ہے۔ |