پاکستان میں جہاں دیگر شعبے
ریلوے، واسا، پی آئی اے وغیرہ تنزلی کا شکار ہیں ویاں سیرو سیاحت کا شعبہ
دہشت گردی ، ٹارگٹ کلنگ، اغوا برائے تاوان اور لا قانونیت کے سبب دم توڑ
رہا ہے۔ ان تمام وجوہات می بنا پر ہم بحثیت پاکستانی اپنے ہی ملک میں ایک
جگہ سے دوسری جگہ جانے لے لئے کتنی بار سوچتے ہیں تو بیرون ملک سے آنے والے
سیاحوں کو تو ان حالات نے ہزار بار سوچنے پر مجبور کر دیا ہے۔ پاکستان میں
اگر دہشت کردی، ٹارگٹ کلنگ، اغوا برائے تاوان اور لاقانونیت جیسے واقعات نہ
ہوں تو پاکستان بہت ہی خوبصورت ملک ہے بلفظ دیگر پاکستان میں امن ہو تو
سیاح جوق در جوق ادھر کا رخ کریں اور پاکستان ایک خوشحال ملک بن کر ابھرے۔
سیاحت کا عالمی دن ہر سال ستائیس ستمبرکو منایا جاتاہے یہ دن منانے کی
ابتدا 1970 سے ہوئے۔ تا ہم اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے ورلڈ ٹورازم
آرگنائزیشن کی جنرل اسمبلی نے 1980 سے 27 ستمبر کو سیاحت کے عالمی دن کے
طور پر منتخب کیا۔ یوم سیاحت منانے کا مقصد عالمی برادری کو اس امر سے
روشناس کروانا ہے کہ سیاحت کس طرح سماجی، ثقافتی، سیاسی اور معاشی بور پر
افراد کو متاثر کرتی ہے۔ 1997 میں WTO کی جنرل اسمبلی کے اجلاس منعقدہ
استنبول میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ ہر سال ایک ملک کو میزبان ملک کی حثیت سے
نامزد کیا جائے گا۔ جنرل اسمبلی کے فیصلے کی رو سے 2006 پرتگال، 2007 سری
لنکا، 2008 پیرو، 2009 گھانا، 2010چین، 2011 مصر، 2012 اسپین اور 2013 میں
مالدیپ کو پارٹنر ملکوں کی حثیت حاصل ہے ۔ سیاحت اس وقت دنیا بھر میں تیزی
سے ترقی اور توسیع پذیر شعبہ تصور کیا جاتا ہے۔ اقوام متحدہ کے اعداد و
شمار کے مطابق 2012 میں ایک ارب سے زائد افراد نے سیاحت کی غرض سے دوسرے
ممالک کا سفر کیا۔ جب کہ اندرون ملک سیاحت کی غرض سے سفر کرنے والے افراد
کی تعداد چھ ارب رہی۔
اس سال یہ دن ــ’’سیاحت اور پانی ․․․․مشترکہ مستقبل کا تحفظ‘‘ کے عنوان سے
منایا جا رہا ہے یہ حقیقت ہے کہ سیاحت زیادہ تر پانی یا آبی ذخائر کے کنارے
کی جاتی ہے، سمندر، دریا، ندی، نالے، چشمے اور ان کے ارد گرد کے خوب صورت
نظارے سیاحوں کی توجہ کا مرکز ہوتے ہیں۔ سیاحت کے حوالے سے اگر جائزہ لیں
تو دنیا بھر میں توسیع پذیر سیاحت کا شعبہ پاکستان میں دم توڑ رہا ہے۔ دہشت
گردی، اغوا، ٹارگٹ کلنگ اور لا قانونیت نے ویسے ہی سیاحوں کو پاکستان آنے
سے پہلے سو بار سوچنے پر مجبور کر دیا ہے اور رہی سہی کسر نانگاپربت کے بیس
کیمپ پر حملے نے پوری کردی۔ اس واقعے میں گیارہ معصوم انسانی جانوں کا زیاں
ہوا جو انتہائی افسوسناک ہے اور اس کے ساتھ ہی پہاڑی علاقوں کے لاکھوں
افراد کا معاشی قتل بھی ہوا ۔ صرف گلگت بلتستان میں 25000 افراد سیاحت کے
شعبے سے وابسہ ہیں اور سیزن میں یہ روزانہ ہزار سے دو ہزار تک کما لیتے
ہیں۔
دریائے سوات اور اس کے ارد گرد کا علاقہ گیر ملکی سیاحوں کی جنت سمجھا جاتا
ہے دریائے سوات کی عالمی سطح پر تاریخی اور مذہبی حثیت مسلمہ ہے اگر صرف اس
کی حثیت اجاگر کر دی جائے تو یہاں سیاح خود ہی جوق در جوق کھنچے چلے آئیں
گے۔ دریائے سوات ہمیشہ سے اپنے صاف شفاف اور سفید پانیوں ک وجہ سے مشہور
رہا ہے۔ دریائے سوات کا ذکر اس کی مچھلیوں کے بغیر ادھورا ہے ان مچھلیوں
میں مہاشیر اور ٹراؤٹ قابلِ ذکر اقسام ہیں۔ ماہرین کے مطابق یہ مچھلی پانچ
سے پندرہ ڈگری سینٹی گریڈ درجہ حرارت تک کے پانی میں نشونما پاتی ہے۔ دہشت
گردہ اور سیلاب سے پہلے ٹراؤٹ مچھلہ کا کاروبار ایک پھلتی پھولتی صنعت کی
مانند سمجھا جاتا تھا اس ضمن میں ٹورازم فاؤنڈیشن کے صدر آفتاب الرحمان کا
کہنا ہے کہ ان کے ادارے کے سروے کا مطابق 1910 کی دہائی میں سوات میں ٹراؤٹ
مچھلہ کی سالانہ کھپت ساٹھ میٹرک ٹن تک پہنچ گئی تھی جس سے ہونے والی آمدنی
کا محتاط تخمینہ بیس ملین ڈالر سے زیادہ ہی لگایا جاتا ہے لیکن اب دریا کے
پانی کی آلودگی نے اسے بقاء کے خطرے سے دوچار کر دیا ہے۔
سوات میں گندھارا آرٹ، مہاتما گوتم بدھ کے مختلف مجسموں اور پتھروں کے تقوش
میں ڈھلتا نظر آتا ہے گندھارا کے آثار والے علاقے مثلأ سوات، پشاور، دیر
اور دیگر پہاڑی علاقے دنیا بھر میں دہشت گردہ کے حوالے سے خبروں کا موضوع
بنتے چلے آ رہے ہیں۔ لیکن تھوڑی سی کوشش اور محنت سے یہ علاقے گندھارا آرٹ
اور بدھ مت کے آثار کے حوالے سے عالمی سطح پر مشہور ہو سکتے ہیں اگر ان کی
صحیح طرح سے تشہر کی جائے تو دنیا بھر کے سیاح جوق در جوق آنے لگیں گے۔
جاپان اور چین میں بدھ میت کے ماننے والوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔
پاکستان کو چین کی سیاحت کے شعبہ سے استفادہ کرنا چاہیے جو بیرونی سفر پر
اخراجات کے حوالے سے دنیا میں دوسری بڑی صنعت ہے۔ ذرائع کے مطابق دو کڑوڑ
پانچ لاکھ چینی ہر سال بیرونِ ملک سفر کرتے ہیں ایک اندازے کے مطابق یہ
تعداد 2020َِـ تک دوگنی ہو جائے گی۔ جس سے ہر سال پانچ سو نوے بلین ڈالر کی
آمدنی ہوتی ہے۔ ہم اپنے گندھارا آرٹ والے علاقوں کی عالمی سطح پر تشہر کے
ذریعے ان سیاحوں کو یہاں آنے کے لئے مائل کرسکتے ہیں۔ کوریا کے ایک مذہبی
رہنما ، مونک جیون وون ڈیوک جو 2007 میں پاکستان آئے تھے ان کا کہنا تھا
’’اگر پاکستان صرف تخت بھائی کے کھنڈرات ہی کو بحال کر دے تو یہ ہمارے لئے
اتنے ہی مقدس ہیں جیسے کسی مسلمان کے لئے شہر مکہ‘‘ اس طرح چین، جاپان اور
کوریا کے ہزاروں بدھ ان علاقوں کا رخ کر سکتے ہیں، دنیا بھر کی طرح ہمیں
بھی سیاحت کو سماجی اور معاشی ترقی اور غربت میں کمی کے ذرائع کے طور پر
استعمال کرنا چاہئیے سیاحت کی سرگرمیوں کے فروغ کے لئے قدرتی مناظر کی
حفاظت، صفائی اور سیاحوں کے لئے بنیادی سہولتوں کی فراہمی کے ساتھ ساتھ
سیکیورٹی کے انتظامات کی بھی ضرورت ہے۔ یہ سب اس وقت ہی ممکن ہو سکتا ہے جب
حکومت سنجیدگی سے سیاحت کو فروغ کو اپنی ترجیحات میں شامل کرئے گی۔
اٹھارویں ترمیم کے بعد سیاحت اب صوبوں کا مسئلہ ہے اس حوالے سے خیبر پختون
خواہ کی صوبائی حکومت کی توجہ اور دلچسپی اولین شرط ہے کیونکہ یہ کم و بیش
سب علاقے اسی صوبے میں ہیں۔ سیاحت کے فروغ کے لئے کوشاں آفتاب الرحمان رانا
کا کہنا ہے کہ ’’ہم کوشش کر رہے ہیں کہ تمام اسٹیک ہولڈرز کو ملا کر ایک
نیشنل ٹورازم بورڈ تشکیل دیا جائے تاکہ صوبوں کے درمیان رابطے مضبوط ہوں۔
اٹھارویں ترمیم کے بعد چونکہ سیاحت کا شعبہ صوبوں کو منتقل ہو گیا ہے۔
لٰہذا پاکستان کی شناخت اس حوالے سے کمزور پڑتی جا رہی ہے۔ غیر ملکی سیاح
سندھ، پنجاب، بلوچستان، یا خیبرپختون خواہ کا سفر نہیں کر تے بلکہ وہ
پاکستان آتے ہیں۔ لہٰذا سیاحت کے شعبہ کے فروغ کے لیے سیاحتی سطح پر
پاکستان کی پہچان لو اجاگر کرنا بہت ضرورہ ہے۔ نیز خیبرپختون خواہ کہ
سیاحتی پالیسی بھی تیار کی جا رہی ہے جس کے لئے فنی معاونت امریکی امداد کا
ایک ذیلی ادارہ فراہم کر رہا ہے۔ یہ پاکستان کی پہلی صوبائی پالیسی ہو گی۔
ہماری کوشش ہے کہ یہ پالیسی پائیدار ترقی کے اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے
تشکیل دہ جائے تاکہ سیاحت اور ماحول کا تحفظ ساتھ ساتھ ہو کیونکہ ہمارے ہاں
ماحول دوست سیاحت کا کوئی تصور نہیں ہے ہم اپنے وسائل خود کہ برباد کر رہے
ہیں اس کا اندازہ جھیل سیف الملوک کی موجودہ ابتر صورت حال سے لگایا جا
سکتا ہے پہلے یہ دونوں مقامات اتنے صاف شفاف تھے کہ لوگ ان کی خوب صورتی کی
مثالیں دینے کے لئے پریوں کی تشبیہ پیش کرتے تھے۔ اس کے علاوہ نیشنل ٹورازم
بورڈ کا پروپوزل تیار کرکے خیبرپختون خواہ کہ متعلقہ وزارت کو بھیج دیا گیا
ہے‘‘
پاکستان کے شمالی علاقہ جات بے حد خوبصورت ہیں جو سیاحوں کے لئے بے حدپر
کشش ہیں صرف مسئلہ یہ ہے کہ حکومتی سطح پر سیاحتی اثاثوں کی تشہر کے لئے
عالمی سطح پر مناسب اقدامات ہی نہیں کیے جاتے اور نہ ہی پاکستان کے موجودہ
حالات میں سیاحت کا شعبہ پروان چڑھ سکتا ہے کیونکہ پاکستان میں خودکش
دھماکے اور دہشت گردی کے واقعات عام معمول بن گیا ہے جو بیرون ممالک کے
سیاحوں کو پاکستان آنے سے روک دیتے ہیں۔ اگر حکومت نے ان تمام مسائل کو حل
کرنے کے لئے مناسب اور بروقت حکمت عملی اختیار نہ کی تو پاکستان کہ سا لمیت
کو خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔ |