مسجد خورشید نیم شب

مساجد تو تعمیر ہوتی رہتی ھیں -

کبھی کسی مندر کو ڈھا کر مسجد تعمیر کردی اور مندر کے بت کو زمین پر بچھادیا کہ لوگ اس پر پیر رکھ کر سفر کریں -

کبھی اپنی ناجائز بلڈنگ کو بچانے کے لئے مسجد بنادی کہ اگر بلڈنگ ناجائز ہے تو مسجد بھی تو ناجائز ہے
لیکن کینڈا میں دائرہ قطب شمالی سے بھی دو سو کلو میٹر اندر مسجد بنانا جس میں اس قسم کا کوئی ایسا جذبہ کار فرما نہ ھو حیرت کی بات ھے

اس سے بھی زیادہ حیرت کی بات ہے کہ مسجد کو اپنے اصل مقام انووک سے چار ہزار کلو میٹر دور منی توبہ میں تعمیر کیا گیا اور اسے بعد مٰین اسکے اصل جائے وقوع پر انووک منتقل کیا گیا - مسجد کا نام ھے مسجد خورشید نیم شب Midnight sun mosque

مسجد کے مینار پر چاند اپنی ہلالی صورت میں ایک عجب شان دکھارہا ھے -

کینڈا کے انتہائی شمالی علاقے میں قطب شمالی کے قریب ساڑھے تین ہزار کے قریب مسلمان رہائش پذیر ہیں -جب مسجد بنانے کا مرحلہ آیا تو عراقی انجینیر نے تخمینہ لگا کر بتایا کہ اگر مسجد کی تعمیر کا کام اسی مقام پر کیا گیا تو بہت خرچ آئیگا -اس کا بہترین حل یہ ہے کہ چار ہزار کلو میٹر دور منی توبہ کے مقام پر اس کے تعمیراتی مراحل کئے جائیں اور اس کے بعد اسے اپنے اصل مقام انو ویک ۔ منتقل کیا جائے - اس سے تعمیراتی لاگت میں بہت کمی آجائی گی کیونکہ منی توبہ میں لیبر کاسٹ کم پڑے گی -وہاں افرادی قوت سستی قیمت پر دستیاب ھو جاتی ہے -اس کے علاوہ تعمیراتی سامان بھی کم نرخوں پر مل جاتا ھے - چنانچہ فیصلہ کیا گیا کہ مسجد کو منی توبہ میں تعمیر کرکے بعد میں اسے بذریعہ ٹرالر اور بحری جہاز مینی توبہ سے انووک منتقل کردی جائے -

یہ ایک عجیب منصوبہ تھا لیکن مسلمانوں کے عزم راسخ اور جہد مسلسل نے اسے پایہ تکمیل کو پہنچا دیا -

اس کی تعمیر کے دوران اور منتقلی کے دوران طرح طرح کی مشکلات سے واسطہ پڑا - ایک سو ستر مربع گز کی مسجد منی پیگ مینی توبہ میں تیار کرکےایک ٹرالر میں لوڈ کردیا گیا - راستے میں خلیج ریندیر پر بنا ہوا پل نے مسئلہ بن کر کھڑا ہوگیا جب پتہ چلا کہ ٹرالر کے ٹرک کی چوڑائی زیادہ ھے اور پل کی کم ہے- چنانچہ اس ٹرالر کے ٹرک کو نکال دیا گیا اور اس کی جگہ نیا ٹرک لے کر آئے - یہ بلاشبہ ایک دشوار کام تھا لیکن ہمت مرداں مدد خدا --بڑی محنت و مشقت کے بعد کامیابی ہوئی اور راہ مین حائل اس دشواری سے بخوبی نکل گئے - لیکن اس سے بھی زیادہ مشکل ایک اور مرحلہ ایا جب سفر کے دوران مسجد اپنی جگہ سے کھسک گئی اور اس کے گرنے کا خدشہ پیدا ہو گیا -یہ بڑا ھی مشکل کام تھا کہ اسکو گرنے سے بچایا جائے کیوں کہ سفر کے دوران کسی کرین کی سہولت بھی میسر نہیں تھی -ان تمام مراحل سے گزرتے ہوئے مسجد بالاخربندر گاہ پہنچائی گئی -منزل ابھی دور تھی -ابھی تو اسے ایک بہت بڑا قطعہ آبی پار کرنا تھا - اسے ایک چھو ٹے بحری جہاز مین منتقل کیا گیا اور اسکا بحری سفر شروع ھوا - بحری سفر میں کیا مسائل درپیش آئے اس کی ایک الگ داستان ھے - 24 ستمبر 2010 کو سارے صبر آزما اور اعصاب معطل کر نے والے مراحل سے گزرے کے بعد مسجد اپنی منزل مقصود پر پہنچی --

کینڈا ایک بہت بڑا ملک ھے -اس کے کسی دوسرے کونے میں رہائش پذیر کار پینٹر فتح اللہ کو پتہ چلا کہ قطب شمالی کے اس گاؤں -انوویک _کے لوگون نے کیا کارنامہ سر انجام دیا ھے تو وہ بھی اس کار خیر میں حصہ لینے اپنے خرچ پر انو وک پہنچ گیا -اس نے مینار بنانے کے لئے اپنی خدمات پیش کیں - فتح اللہ نے مینار بنانے میں اپنی ساری صلاحیتیں صرف کردین اور نہایت قلیل عرصے میں دس میٹر بلند مینار بنا لیا - اس مینار کے اوپر ایک چاند ہلالی صورت میں آویزاں کردیا مسجد کے اندر خواتین کی نماز ادا کرنے کے لئے الگ حصہ مخصوص کیا گیا ھے -ایک لائبریری بھی بنائی گئی ھے اور بچوں کے لئے کھلونوں کا انتظام کیا گیا ھے -

قطب شمالی میں واقع یہ مسجد اس بات کی گواہی دے رہی ھے کہ انسان کے اندر جذبہ ھو اور اللہ کی مدد شامل حال رھے تو تمام مسائل حل ہو جاتے ہیں-
Munir  Bin Bashir
About the Author: Munir Bin Bashir Read More Articles by Munir Bin Bashir: 124 Articles with 355068 views B.Sc. Mechanical Engineering (UET Lahore).. View More