قسط نمبر2 نیپال کا ایک سفر

ایئر پورٹ کے اند رکا ماحول خاصا پر سکون تھا ، ہر کوئی قطار میں کھڑا باری باری سامان چیک کر وارہا تھا اور ساتھ ہی بورڈنگ کارڈ کے حصول کیلئے کوشاں تھا ، میں جس کاؤنٹر پر بورڈ نگ کارڈکیلئے پہنچا وہاں ایک خاتون کی ڈیوٹی تھی جو نہ چاہتے ہوئے بھی با ر با ر مسکرا رہی تھی شاید یہ اس کی تربیت کا نتیجہ تھا ، لیکن سامنے کھڑا کوئی بھی مسافرا س کی جبراً مسکراہٹ سے متاثر نہیں ہو رہا تھا بلکہ ہر کوئی جلد ی میں آ گے نکلنے کیلئے بے تاب تھا۔ بیرون ملک جانے والی فلائٹس میں چیکنگ کا نظام قدرے زیاد ہ ہو تا ہے اس سارے پراسیس سے گز ر کر ہم لوگ جہاز میں سوار ہوئے جو کئی 50منٹ لیٹ تھا ، اس جہاز سے ایک ہی طرح کا لباس پہنے کوئی 20کے قریب نوجوان بھی نیپال کی جانب رخت سفر تھے ، بعد میں پتہ چلا کہ متحدہ عرب عمارات اور سعودی عرب میں کام کرنے والے نیپالی اکثر یہی روٹ اختیار کر تے ہیں اور جاتے ہوئے وہ کراچی سے لیدر کی اشیا ء ساتھ لے جاتے ہیں جو نیپال میں آسانی سے فروخت ہو جاتی ہیں ۔یہ سارے نیپالی نوجوان تھے جوچھٹی پر گھر جارہے تھے لیکن سب نے ایک ایک لیدر کی جیکٹ خرید کر خود پہن رکھی تھی جس سے وہ کسی ایک ہی فورس کے اہلکار لگ رہے تھے ۔

پی آئی اے کی یہ فلائیٹ لگ بھگ 35ہزار فٹ کی بلندی پر سفر کرتے ہوئے 2گھنٹے 40منٹ میں کھٹمنڈو ایئرپورٹ پہنچی جو دنیا کا مشکل ترین ایئر پورٹ ہے ، پہاڑوں میں گھرے اس ایئر پورٹ پہ جہاز اتارنے کی یقیناًخصوصی تربیت ہوتی ہو گی ورنہ آس پاس کے یہ نوک دار پہاڑ آپ کی کسی بھی معمولی غلطی کو بھی معاف نہیں کرتے۔ کراچی سے نیپال جانے والے جہاز عموماً بھارت کے مختلف شہروں کے اوپر سے گزرتے ہیں جن کے بارے میں جہاز کا کپتان اکثر بتاتا رہتا ہے ۔کھٹمنڈو ایئر پورٹ قدیم طرز کا بنا ہو اہے اور صفائی کا بھی کوئی معقول انتظام نہیں لیکن اسکے باوجود یہ مصروف ترین ایئر پورٹ ہے ، ایئر پورٹ سے ٹرمینل تک کچھ راستہ پیدل طے کر نا پڑ تاہے ٹرمینل کے اندر ہی آپ کا ویزا بھی پاسپورٹ پرStampکر دیا جا تاہے ۔
نیپال پہنچنے والے مسافروں کی مختلف کٹیگریز بنائی جاتی ہیں ، سارک ممالک سے تعلق رکھنے والے مسافروں کو علیحدہ قطار میں کھڑا کیا جاتا ہے ، اور یورپی اور امریکی ممالک کے باشندے علیحدقطار میں کھڑے کیے جاتے ہیں۔ سارک ممالک کے باشندوں سے ویزے کی کوئی فیس بھی نہیں لی جاتی لیکن امریکی ، پورپی ممالک کے شہریوں سے باقاعدہ فیس وصول کی جاتی ہے ، ویزہ فارم جو ائیر پورٹ پر ہی دستیاب ہوتا ہے کو پر کرنے کے بعد اب قطار میں کھڑا ہونے کا مرحلہ تھا جس کیلئے باقاعدہ کوئی تحریر درج نہ تھی کہ کون سی قطار میں کھڑا ہونا ہے ،مقامی ایئر پورٹ کے اہلکار اس سلسلے میں معاونت کرتے ہیں اور وہ بھی صرف شکل سے پہچان کر اندازے سے قطاروں میں کھڑا کرتے ہیں۔ مجھے انہوں نے یورپی باشندوں کی قطار میں کھڑا کر دیا ، جب بالکل کاؤنٹر کے قریب پہنچا تو میں نے پاسپورٹ نکال کر ہاتھ میں رکھ لیا اس وقت ایک اہلکار جسے شاید میرے سبز رنگ کے پاسپورٹ پر نظر پڑ چکی تھی دوڑتا ہوا میرے پاس آیااور کہنے لگا کہ آپ غلط قطار میں کھڑے ہیں ، دوسری قطار میں کھڑے ہوجائیں ، میں نے استفسار کیا کہ آپ نے خود ہی تو مجھے اس قطار میں کھڑا کیا تھا ، تو کہنے لگا کہ’’ شکل سے آپ بھی پورپی لگ رہے تھے‘‘ خیر دوسری قطار میں کھڑا ہونے سے مزید 20منٹ انتظار کرنا پڑا، پھر ویزے کا مرحلہ مکمل ہو ا او ر میں ایئر پورٹ سے باہر آگیا جہاں ہوٹل کی گاڑی مجھے لینے آئی ہوئی تھی لیکن مجھے اس بات کا علم نہ تھا ۔ ائیر پورٹ کے باہر آتے ہی دیکھا کہ ایک شخص جو مخصوصلباس میں تھا ہاتھ میں میرے نام کا بورڈ لے کر کھڑا ہے، میں نے اسے اپنا تعارف کروایا اور سیدھا اس کے ساتھ چل پڑا۔

ایئرپورٹ سے ہوٹل تک کا راستہ8کلو میٹر کا تھا، راستے میں قدیم طرز کی عمارتیں تھیِں کچھ گنجان آباد بازار بھی تھے ، پولیس یا سیکورٹی اہلکار کہیں نظر نہیں آ رہے تھے حتیٰ کے ایئر پورٹ کے اندر بھی ایسا نہیں تھا ، وہاں بھی سیکورٹی پر مامور زیادہ تر خواتین تھیں جن کا ’’ سرکاری لباس‘‘ سرخ ساڑھی تھا ، 30منٹ میں ہوٹل پہنچ گیا، ہمالین نامی یہ ہوٹل جو باہر سے قدیم لگ رہا تھا،اندر سے بڑا جدید تھا ، فور سٹار اس ہوٹل میں ہر طرح کی سہولت میسر تھی، ہوٹل پہنچنے پر میرے کوائف چیک کئے گئے اور کمرے میں منتقل کر دیا گیا ۔ہوٹل کے کمرے میں منتقل ہونے تک کا مرحلہ تو مکمل ہو گیا لیکن ابھی تک مجھے یہ نہیں بتایا گیا تھا کہ وہاں آپ کا میزبان کون ہو گا اورہم کتنے لوگ ہیں جو اس پروگرام کا حصہ ہیں۔ سفر کی تھکاوٹ دور کرنے کیلئے کچھ دیر آرام کیا ، اتنے میں رات کا کھانے کا وقت ہو گیا ہوٹل کے ریسٹورنٹ میں کھانے کا اہتمام تھا لیکن یہاں سب سے بڑی مشکل حرام اورحلال کی پہچان تھی، میں نے پہلے ایک چکر لگایااور پکی ہوئی تمام اشیا ء کے نام پڑے ، ایک جگہ چکن لکھا تھا اور پھر دال اورسبزی بھی تھی جن پر دل کو یقین آ رہا تھا ان میں حرام ہونے کا امکان کم ہے ،لیکن پھر بھی کوئی چیز لینے سے پہلے کافی دیر سوچا، اسی اثنا ء میں ایک نوجوان میرے قریب آیا اور میرا تعارف پوچھا، میں نے بتایا کہ میں پاکستان سے آیا ہوں تو اس نے دوبارہ استفسار کیا کہ پاکستان کس شہر سے ؟ پھر میں نے بتایا کہ راولاکوٹ آزاد کشمیر ، اس پر وہ مجھے گلے ملا اور کہنے لگا کہ میں خود مظفر آباد سے ہوں اور ہوٹل کی گفٹ شاپ پر ملازم ہوں بقول اس کے اس نے مجھے اندازے سے پہچا ن لیا تھا کہ میں آزاد کشمیر سے ہوں ، خیر مختصر بات چیت کے بعد اس نے مجھے گائیڈ کیا کہ چکن ٹھیک نہیں آپ سبزی یا دال لے لیں ۔

نیپال میں پہلی رات گزاری تو بہت ساری معلومات ہوئی ۔ کھٹمنڈو میں عام طور پر ( سوائے ایک شہر کے) مارکیٹیں رات 10بجے بند ہو جاتی ہیں اور صبح سویرے کھل جاتی ہیں۔ رات کو کھٹمنڈو شہر کے اوپر سے جہازوں کی آمدو رفت بھی منع ہے جس کی ایک وجہ تو شاید دشوار گزار ہوائی راستہ ہے لیکن ہوٹل انتظامیہ نے بتایا کہ شہریوں کے سکون کی خاطر اس طرح کی پابندی عائد کی گئی ہے ،حتیٰ کہ متعدد ریڈیو اسٹیشن اپنی نشریات رات 10بجے بند کر دیتے ہیں لیکن اس کے باوجود نیپال میں عیاشی کے تمام مواقع موجو د ہیں ۔ جنوبی ایشیاء میں سب سے زیادہ جن ممالک میں جواء خانے پائے جاتے ہیں،نیپال ان میں سے ایک ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان جواء خانوں کی تشہیر محکمہ سیاحت نیپال از خود کرتا ہے اور اس مقصد کیلئے ہر دو ماہ کے بعد Casino Newsکے نام سے ایک میگزین بھی شائع ہو تا ہے جس میں نہ صرف ان جواء خانوں کے پتہ جات بلکہ گزشتہ دو ماہ کی کارکردگی رپورٹ بھی ہوتی ہے ۔ متعدد ممالک سے جواری یہاں جواء کھیلنے آتے ہیں ، زیادہ تر بھارت سے آتے ہیں جنہیں اس مقصد کیلئے ویزا حاصل کرنا پڑتاہے اور نہ ہی کرنسی تبدیل کروانی پڑتی ہے ۔یہاں جواء صرف ڈالر یا بھارتی کرنسی پر ہی کھیلا جاتاہے ، یہ دلچسپ بات ہے کہ نیپال میں آپ نیپالی کرنسی کے ساتھ ساتھ بھارتی کرنسی میں بھی شاپنگ کر سکتے ہیں او ر اسے عام طور پر استعمال میں لا سکتے ہیں ، صرف 5سوروپے کا بھارتی کرنسی کا نوٹ مارکیٹ میں قابل قبول نہیں جس کی وجہ یہ بتائی گی کہ چند سال قبل یہاں 5سو روپے کے جعلی نوٹ پھیلائے گئے جس کے بعد سے آ ج تک یہ نوٹ تبدیل کئے بغیر گردش نہیں کر سکے۔نیپال پر بھارت کی بڑی کمان ہے بلکہ یوں کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا کہ یہ بھارت کی کالونی ہے ۔ دونوں ممالک کی سرحدیں کھلی ہوتی ہیں بغیر ویزے کے شہری آر پار جاتے ہیں ، کاروبار کرتے ہیں اور اسی وجہ سے بھارت کی ثقافتی یلغار بھی یہاں نمایاں ہے ، نیپال کے اکثریتی علاقوں میں ہندی بولی جاتی ہے اور ہندووانہ رسم و رواج بہت زیادہ اپنایا گیا ہے ، یہاں پاکستان سے سخت نفرت کی جاتی ہے۔ اگلی صبح جب میں ناشتے سے فارغ ہوا تو ابھی کوئی فیصلہ نہیں کر پایا تھا کہ پانوس کے مقامی دفتر سے ایک خاتون ’’ رتی ‘‘ کا فون آیا ، حال احوال پوچھنے کے بعد انہوں نے دفتر آنے کا کہا جو ہوٹل سے محض 10منٹ کی مسافت پر تھا ، میں بغیر وقت ضائع کئے وہاں پہنچا تو مذکورہ خاتون جس سے فون پر بات ہوئی تھی نے گیٹ پر آ کر ’’نمستے‘‘کہا جس کے بعد کشور کے پاس بھیجا گیا جو اس ادارے کے نیپال میں انچارج تھے ، وہاں ان کے علاوہ روحیلہ جو پہلگام (بھارت کے زیرانتظام کشمیر )سے اسی انٹرن شپ کے سلسلے میں آئی تھی موجود تھیں ، روحیلہ اور میں ایک ہی دن نیپال پہنچے تھے لیکن شناسائی نہ تھی ، روحیلہ پہلگام اسلامی یونیورسٹی میں بپلک ریلیشن آفیسر تھی( جو کہ اب اسی یونیورسٹی میں لیکچرر ہیں) یونیورسٹی کیمپس ریڈیو چلانے کا ارادہ رکھتی تھی ، مختصر تعارف کے بعد کشور نے اس انٹرن شپ کے حوالے سے بریفنگ دی ، جس میں انہوں نے بتایا کہ جنوبی ایشیاء کا پہلا کمیونٹی ریڈیو نیپال کے ضلع پالپا (palpa ) کے گاؤں مدن پوکھرا میں ہے۔ اس ریڈیو کو کمیونٹی کے لو گ مل کر چلاتے ہیں اس کے علاوہ 2008ء تک وہاں 50سے زائد ایف ایم ریڈیو کام کرتے تھے۔ جن میں بعض سیٹلائیٹ سٹیشن بھی تھے ، ہمیں بتایا گیا کہ آپ لوگوں نے اگلے روز اسی ریڈیو اسٹیشن پر جانا ہے جہاں 15روز آ پ کا قیام ہے، وہاں پہنچے پر ہمیں پہلے گوتم بدھ ایئر پورٹ جانا تھا ، کھٹمنڈو سے 40منٹ کی فلائیٹ تھی ، اگلے روز ہم دونوں میں اور روحیلہ صبح سویرے کھٹمنڈو ایئر پورٹ پر پہنچے جہاں سے18سیٹوں والے چھوٹے طیارے پر سوار ہوئے ، نیپال میں 6پرائیویٹ ائیر لائنز ہیں جو اندرون نیپال چھوٹے طیارے چلاتی ہیں، جس جہاز پر ہم لوگ سوار ہوئے یہ بھی 18سیٹوں پر محیط تھا اور اس میں سوار ہونے کے بعد سب سے پہلے میزبان ایئر ہوسٹس نے کانوں میں ڈالنے کیلئے روئی اور منہ میں ڈالنے کیلئے مٹھائی دی ، ان چھوٹے جہازوں پر سفر کرتے وقت عموماً ان کے شور سے کان بند ہوجاتے ہیں، 40منٹ کی فلائیٹ کے بعد ہم لوگ گوتم بدھ ایئرپورٹ پہنچے جو چھوٹے سائز کا اور انتہائی قدیم طرز کا ایئرپورٹ تھا۔ اس ایئر پورٹ پر چیکنگ کا نظام عمارت کے برآمدے میں تھا،جس طرح ایک زما نے میں جی ٹی ایس کے اڈے پر ہوتا تھا ، لیکن اس کے باوجود یہاں روزانہ ایک فلائیٹ روانہ ہوتی تھی اور لینڈ کرتی تھی، کبھی کوئی واقعہ پیش نہ آیا ، ائیرپورٹ سے باہر آنے کے بعد ہم نے ایئر پورٹ کے اسٹیشن منیجر سے بات کی ، جہاں ہم نے پہنچنا تھا اس نے ہمیں گائیڈ کیا ، کہ آپ ٹیکسی کر کے’’ نیاپاٹی‘‘ نامی بازار میں پہنچیں جہاں سے صبح آپ کومدن پوکھراجانا ہے ، نیا پاٹی ایک معمولی درجے کا بازار تھا اور ایک زمانے میں یہ علاقہ ماؤباغیوں کا گھڑھ سمجھا جاتا تھا اور عملاً ان ہی کا کنٹرول ہوتاتھا، مغرب کے وقت اس بازار میں ہم پہنچے بڑی مشکل سے ایک گیسٹ ہاؤس میں قیام کیلئے جگہ ملی ، نیپال میں یوں تو بیئر اور وسکی تمام مارکیٹوں میں دستیاب ہے لیکن اس بازار میں زیادہ تر کاروبار اسی طرز کا تھا ، وہاں قیام کے بعد اگلے روز صبح ایک ٹیکسی کرائے پر لی اور مدن پوکھرا گاؤں کی جانب چل پڑے ، 35منٹ گاڑی کا راستہ تھا جس کے بعد 45منٹ کا پیدل راستہ تھا، 10بجے کے قریب انہتائی خوبصورت گاؤں مدن پوکھرا میں قائم جنوبی ایشا کے پہلے کمیونٹی ریڈیو سٹیشن پر پہنچے ، یہ گاؤںPALPAضلع میں واقع ہے ، اس طرح کے 19گاؤں اور بھی اس ضلع میں ہیں یہاں کے عوام کی اکثریت کھیتی باڑی کرتی ہے ، جس پر آگے چل کر بات ہوگی، جس کمیونٹی ریڈیو اسٹیشن پر ہم پہنچے اس کے انچارج رامیش کمار آریال نے ہمارا استقبال کیا ، رامیش ریڈیو جائن کرنے سے پہلے ایک سکول میں معلم تھے اور انہیں ریڈیو کا کوئی خاص تجربہ نہ تھا ، ابتداء میں ایک غیر سرکاری تنطیم نے کمیونٹی کے ساتھ مل کر ریڈیو سٹیشن کا آغاز کیا لیکن اس کیلئے کوئی باقاعدہ عمارت نہ تھی محض ایک کمرے میں سسٹم نصب کیا گیا تھا ، محدود سی نشریات تھیں اور ایک شخص اپنے کندھے پر انٹینا رکھ کر کھیتوں میں کام کرنے والے کسانوں کے انٹر ویو کرتا تھا اور پھر اسے وہیں سے آن ایئر کیا جاتا تھا ، اس طرح کے اقدامات کا مقصد دوسرے کسانوں کوکھیتی باڑی کی ٹیکنالوجی سے آشنا کرنا تھا ۔

Abid Siddique
About the Author: Abid Siddique Read More Articles by Abid Siddique: 34 Articles with 38282 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.