ایران امریکہ تعلقات !

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس سے قبل ہی دنیا بھر کے میڈیا نے نئے منتخب ایرانی صدر ڈاکٹر روحانی اور امریکی صدر باراک اوباما کے درمیان مسکراہٹوں کے تبادلے کی خبریں نشر کرنا شروع کردیں اور اجلاس کے دوران سب سے زیادہ توجہ اسی خبر کی جانب تھی کہ کب اوباما اور ڈاکٹر روحانی کے درمیان مسکراہٹوں کا تبادلہ ہوگا!اجلاس ختم ہوگیا لیکن کہیں کسی مسکراہٹ کی خبر نہیں آئی۔ اجلاس کے اختتام پر جب ڈاکٹر روحانی کا جہاز نیویارک ایئر پورٹ سے اڑا تو امریکی صدر نے ٹیلی فون کرکے ایرانی صدر سے بات کی اور اس طرح یہ خبر دنیا کی سب سے اہم خبر میں تبدیل ہوگئی اور اسے ایران امریکہ تعلقات میں ایک اہم پیش رفت قرار دیا گیا!

سوال یہ ہے کہ کیا ایران اور امریکہ کے اختلافات معمولی سیاسی نوعیت کے ہیں جو صدارتی یا سفارتی تعلقات کے قیام کے بعد ختم ہوجائیں گے اور راوی چین لکھنا شروع کردے گا؟ حقیقت یہ ہے کہ ایران امریکہ اختلاف نظریاتی نوعیت کا ہے۔ امریکہ عالمی برادری اور دنیا کی قیادت کا دعویدار ہے اور اپنے لبرل جمہوری طرز حکومت میں دنیا کی بھلائی قرار دیتاہے چنانچہ ہم سب کو نائن الیون کے بعد جارج ڈبلیو بش کا وہ بیان اچھی طرح یاد ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ دنیا میں صرف دو ہی گروہ ہیں یا ہمارے حامی یا ہمارے مخالف! امریکہ کی اس سوچ کے مقابلے میں ایران وہ واحد ملک ہے جس نے اسلامی نظام حکومت پیش کیا ۔ کہنے کو تو ایران ایک ملک ہے لیکن حقیقت میں عالمی سطح پر ایک چنگاری ہے جو پچاس سے زائد اسلامی ممالک کو اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے اور کسی بھی وقت مسلم امہ اسلامی نظام حکومت کو اپنے لیے منتخب کرسکتی ہے۔

اسی نظریاتی اختلاف کی وجہ سے امریکہ اور مغربی ممالک کی طرف سے ہمیشہ ایران کے اسلامی نظام کے خاتمے کی کوشش کی گئی سب سے پہلے مرحلے میں ایران کی حکومت کو ختم کرنے کے لیے ایران عراق جنگ کی داغ بیل ڈالی گئی جو آٹھ سال تک جاری رہی۔ اس کے ساتھ ساتھ مختلف سازشوں کے ذریعہ حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کی گئی چنانچہ کبھی ایران میں امریکی دستے اتارے گئے کبھی سیاست دان خریدے گئے، کبھی دہشت گرد گروہوں کو منظم کیا گیا لیکن ان سب حرکتوں کے جواب میں ایران ثابت قدم رہا اور اپنے موقف سے کسی بھی صورت عقب نشینی اختیار نہیں کی۔

امریکہ اور مغربی ممالک لاکھ کوشش کے باوجود نہ تو اسلامی نظام کو ختم کرسکے اور نہ ہی اس کی عوامی مقبولیت میں کمی لاسکے اسی وجہ سے انہوں نے ایران کو اندر سے کمزور کرنے کی پالیسی اپنائی اور ایران کے اندر موجود ایسے عناصر کو جو ایران کے اسلامی نظام کے مخالف ہوں اپنے ساتھ ملانے کی کوشش شروع کی ہوئی ہے۔ امریکہ کی پالیسی کا مقصد داخلی اور خارجی سطح پر یہ ثابت کرنے کی کوشش تھی کہ اسلامی بنیادوں پر استوار کوئی بھی نظام حکومت کامیاب نہیں ہوسکتا کیونکہ ایسا نظام حکومت پیچیدہ سماجی و سیاسی مسائل کو سمجھنے سے قاصر اور عالمی تقاضوں کے مطابق کسی بھی قسم کی لچک کا مظاہرہ کرنے کی اہلیت نہیں رکھتا چنانچہ القاعدہ یا طالبان کی صورت میں افغانستان میں پیش کیا جانے والا اسلامی نظام حکومت بھی اسی سلسلہ کی ایک کڑی تھی اور ایران کے اسلامی نظام حکومت کے خلاف عالمی رائے عامہ کو ہموار کرنے کا ایک بہانہ تھا جو اب بھی مختلف صورتوں میں جاری ہے۔ اب تک امریکہ کو اپنی اس حکمت عملی کی وجہ سے کوئی بڑی کامیابی حاصل نہیں ہوئی ہے یعنی نہ تو وہ دنیا کو اور نہ ہی ایرانیوں کو یہ باور کرواسکا ہے کہ اسلامی نظام حکومت وقت کے تقاضوں کے ساتھ ہم آہنگ نہیں ہے کیونکہ ایران نےسخت پابندیوں کے باوجود ثابت کیا ہے کہ وہ ایٹمی، جینیاتی اورنانو ٹیکنالوجی کے میدان میں دنیا کے دس بڑے ممالک کی صف میں کھڑا ہے ۔ اس دعوے کی وجہ سے عالمی سطح پر ایران کے اسلامی انقلاب کی مقبولیت میں اضافہ ہوا ہو یا نہ لیکن ایرانی عوام اس بات پر فخر کرتے ہیں کہ پابندیوں کے باجود انہوں نے علم و ہنر ، صنعت و حرفت کی دنیا میں کافی بڑے کارنامے انجام دیئے ہیں۔ یہی وجہ ہے بہت سے اسلامی ممالک اور اسلام پسند سیاسی جماعتوں کے نزدیک ایران کا اسلامی نظام ایک لاشعوری ماڈل اور نمونہ عمل کا روپ دھار چکا رہے۔ ایران اور امریکہ کے تعلقات میں آنے والی موجودہ تبدیلی حقیقت میں امریکہ کی طرف سے ایران کے خلاف ایک نیا محاذ کھولنے کی کوشش کی سوا کچھ نہیں ہے جس کے اثرات کچھ عرصے بعد ظاہرنا شروع ہونگے۔
 

A.B. Salman
About the Author: A.B. Salman Read More Articles by A.B. Salman: 16 Articles with 13055 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.