اتوار کے روز پاکستانی وزیراعظم میاں محمد نوازشریف اور
بھارتی وزیراعظم منموہن سنگھ کے درمیان پہلے ”ون آن ون“ اور پھر وفود کی
سطح پر ملاقات ہوئی۔دونوں رہنماﺅں نے ایک دوسرے کو رسمی طور پر اپنے اپنے
ملک میں آنے کی دعوتیں دیں جن کو دونوں نے قبول کرلیا۔ 75 منٹ کی ملاقات کے
دوران وزیراعظم نوازشریف نے منموہن کے سامنے کشمیر، سیاچن، سرکریک،
بلوچستان میں بھارتی مداخلت سمیت دوسرے مسائل اٹھائے۔لیکن صرف کنٹروئن پر
کشیدگی میں کمی لانے پر اتفاق ہوسکا۔ اس کے علاوہ کسی مسئلے پر بات پایہ
تکمیل تک نہیں پہنچی۔ بھارت اور پاکستان کے رہنماﺅں نے بہتر تعلقات کی
خواہش تو ظاہر کی مگر وہ کسی ٹھوس معاہدے پر نہ پہنچ سکے۔ منموہن نے
نوازشریف سے سرحد پار سے ہونے والی دہشت گردی کی شکایت کی اور ان سے مطالبہ
کیا کہ وہ سرحد پار سے دہشت گردی کی روک تھام کے لیے اقدامات کریں۔
وزیراعظم نوازشریف نے اس پر کہا کہ پاکستان خود بھی دہشت گردی کا شکار ہے۔
وزیراعظم نوازشریف نے بلوچستان میں بھارتی مداخلت کا معاملہ اٹھایا اور اس
پر تشویش کا اظہار کیا۔منموہن نے کہا کہ پاکستان نے ابھی تک بمبئی حملوں کے
ملزموں کو سزا نہیں دی، جس پر میاں نوازشریف نے کہا کہ ابھی تک بھارت نے ان
حملوں میں پاکستان کے ملوث ہونے کا کوئی ٹھوس ثبوت ہی پیش نہیں کیا۔تجزیہ
کاروں کا کہنا ہے کہ میاں نوازشریف اور منموہن کی ملاقات زیادہ نتیجہ خیز
ثابت نہ ہوسکی اور اسے کسی طرح کامیاب بھی نہیں کہا جاسکتا۔کیونکہ اس
ملاقات میں سوائے کنٹرول لائن پر کشیدگی کم کرنے کے اور کچھ بھی طے نہیں
پایا۔واضح رہے کہ وزیر اعظم نواز شریف نے ملاقات سے پہلے ہی کہا تھا کہ کسی
بڑے بریک تھرو کا امکان ہے نہ ہی مجھے ان کے ساتھ ملاقات سے کوئی زیادہ
امیدیں وابستہ ہیں۔
کل جماعتی حریت کانفرنس (گ) کے چیرمین سید علی گیلانی نے بھارت اور پاکستان
کے وزرائے اعظم کے مابین ملاقات کو دہائیوں سے چلی آنے والی ایک سفارتی رسم
قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ جب تک دونوں ممالک کشمیر کے ایِشوکے بارے میں
سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کرتے اور بھارت اس سلسلے میں اپنی روائتی ہٹ دھرمی
ترک نہیں کرتا، اس وقت تک یہ ملاقاتیں اور مذاکرات ایک لاحاصل عمل ہیں اور
ان سے کسی بریک تھرو کی امید نہیں کی جاسکتی ہے۔ جبکہ واشنگٹن میں سینٹر
فار سٹریٹجک اینڈ انٹرنیشنل سٹڈیز سے وابستہ امریکی صحافی کا کہنا ہے کہ
دونوں رہنماﺅں کی یہ ملاقات بروقت ہے۔ پاکستان اور بھارت اسلحے کے دو بڑے
خریدار ہیں، پاکستان بھارت بہتر تعلقات سے اسلحے کی دوڑ ان دو ملکوں میں
ختم ہو سکتی ہے۔ اس سے جنوبی ایشیاءمیں امن کا بول بالا ہو گا اور کشیدگی
کا خاتمہ دونوں ملکوں کے عوام کے لیے خوشحالی لائے گا۔ دونوں رہنما اس امر
سے آگاہ ہیں کہ پاکستان بھارت تعلقات کی بہتری کی کوششوں میں بے شمار
رکاوٹیں حائل ہو سکتی ہیں۔ 1998ءمیں پاکستان کے ایٹمی تجربات کے بعد
نوازشریف نے فروری 1999ءمیں اس وقت کے بھارتی وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی
کی میزبانی کی تھی۔ اس موقع پر کسی ایٹمی تتنازعے سے بچنے اور ایک پاکستان
بھارت بس سروس شروع کرنے کے ایک تاریخی اعلامیے پر بھی دستخط کیے گئے تھے۔
تاہم تعلقات بہتر کرنے کی اس کوشش کو تین ہی مہینے بعد اس وقت شدید دھچکا
پہنچا تھا، جب کشمیر میں کارگل کے مقام پر دونوں ملکوں کے درمیان جھڑپیں
شروع ہوگئی تھیں۔پانچ ماہ بعد ہی فوج نے نواز شریف کی حکومت کا تختہ الٹ
دیا تھا۔ تیسری مرتبہ وزیر اعظم بننے کے بعد سے نواز شریف ایک بار پھر
بھارت کے ساتھ بہتر تعلقات اور سرحد کے آر پار تجارت میں اضافہ کرتے ہوئے
پاکستانی معیشت کو مستحکم بنانے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں۔ دیکھتے ہیں اس
کا انجام کیا ہوگا؟۔مبصرین کا کہنا ہے کہ میاں نوازشریف اگرچہ بھارت سے
تعلقات بہتر بنانے کی کوشش کررہے لیکن بھارت کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے یہ کوشش
نتیجہ خیز ثابت ہوتی نظر نہیں آرہی۔ دوسری جانب بھارتی وزیر خارجہ سلمان
خورشید نے الزام عائد کیا ہے کہ پاکستانی فوج اور آئی ایس آئی وزیراعظم
نوازشریف کی بھارت سے بات چیت کی کوششوں کو سبوتاڑ کر رہی ہیں۔ وزیراعظم
نوازشریف ان اداروں کو گرفت میں رکھیں، وزیراعظم منموہن سنگھ نے جنرل
اسمبلی کے اجلاس سے جو کچھ کہا یہ بھارت کی پاکستان سے جائز شکایات ہیں۔
ماضی کی غلطیوں کا کچھ مداوا ہو تب ہی نیا آغاز ممکن ہے۔ پاکستانی
وزیرداخلہ چودھری نثار نے بھارتی وزیر خارجہ سلمان خورشید کے پاک فوج اور
آئی ایس آئی سے متعلق الزامات پر اپنے ردعمل میں کہا، سلمان خورشید کا بیان
غیرضروری، بلاجواز اور سفارتی آداب کے منافی ہے۔ بھارتی حکمرانوں کا وطیرہ
بن گیا ہے بے بنیاد الزامات سے نہیں کتراتے۔ بھارتی وزیر خارجہ بھارتی فوج
کے کشمیر میں کرتوتوں پر توجہ دیں۔ بھارتی حکام کے ایسے بیانات سے حالات
میں بہتری نہیں آ سکتی۔ دو طرفہ تعلقات کی بہتری کے وقت ایسے بیانات سے
گریز کیا جائے۔ بھارتی وزیر خارجہ کو سابق آرمی چیف کے بیان پر فکرمند ہونا
چاہیے۔یہ بھی واضح رہے کہ دیرینہ تنازعات کے حل کیلئے مذاکرات کا شور مچانے
والے منموہن سنگھ نواز شریف سے ملاقات سے ایک روز پہلے اقوام متحدہ کی جنرل
اسمبلی میں پاکستان کے خلاف زہر اگلتے رہے۔ انہوں نے سرحد پار سے دہشتگردی
کا رونا روتے ہوئے یہاں تک کہہ دیا تھا کہ پاکستان جنوبی ایشیاءمیں
دہشتگردی کا مرکز ہے۔ کشمیر سمیت تمام تنازعات کے حل کی خواہش کا ڈھونگ
رچایا لیکن ساتھ ہی پاکستان سے دہشتگردی کے مراکز ختم کرنے کی شرط بھی رکھ
دی تھی۔ اور کہا کہ کشمیر تو بھارت کا اٹوٹ انگ ہے۔ اپنی سلامتی پر سمجھوتہ
نہیں کریں گے۔ جس پر پاکستانی ویر اعظم نے مزاحاً کہہ دیا تھا کہ منموہن
سنگھ دیہاتی عورت کی طرح میری شکایتیں اوباما کو لگانے آئے تھے۔ اس پر
بھارتی میڈیا اور متعصب بھارتیوں نے طوفان کھڑا کردیا۔ گجرات میں مسلم کش
فسادات کرانے والے بی جے پی کے لیڈر نریندر مودی نے کہا کہ وزیر اعظم
نوازشریف نے منموہن کو ’دیہاتی عورت‘ کہہ کر بھارت کی توہین کی ہے اور
بھارتی عوام یہ توہین برداشت نہیں کریں گے۔ نواز شریف نے بھارتی اور
پاکستانی صحافیوں سے ’آف دی ریکارڈ‘ بات چیت کے دوران مبینہ طور پر کہا تھا
کہ جب منموہن سنگھ نے صدر اوباما سے ملاقات کے دوران پاکستان کی شکایت کی
تو یہ بات ایسے ہی تھی جیسے کوئی دیہاتی عورت اپنے ذاتی اختلافات میں دوسرے
لوگوں کو شامل کرلیتی ہے۔ یہ بات سینئر پاکستانی صحافی نے ’لیک‘ کر دی لیکن
اس ملاقات میں موجود این ڈی ٹی وی کی ایڈیٹر برکھا دت کا کہنا ہے کہ نواز
شریف نے یہ بات اس انداز اور سیاق و سباق میں نہیں کہی تھی جس میں یہ پیش
کی جا رہی ہے یہ بات مذاق میں کہی گئی تھی۔
بھارتی وزیر اعظم کے پاکستان کو براعظم ایشیا میں دہشتگردی کا مرکز اور
کشمیر کو اٹوٹ انگ قرار دینے پر پر پاکستان کے متعدد مذہبی و سیاسی جماعتوں
کے قائدین و رہنماﺅں نے رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ بھارتی وزیراعظم کایہ
بیان صرف چور مچائے شور کا مصداق ہی قرار دیا جا سکتا ہے۔ مسئلہ کشمیر سے
توجہ ہٹانے کے لیے بھارت پاکستان کے خلاف جھوٹے اور بے بنیاد الزامات لگا
رہا ہے۔ کشمیر کو اٹوٹ انگ اور پاکستان کو دہشت گردی کا مرکز کہنا بھارت کی
پرانی رٹ ہے۔ بھارت پاکستان کے خلاف بے بنیاد پروپیگنڈہ اور الزام تراشی کر
کے اپنا دہشت گردی والا مذموم چہرہ چھپانے میں کامیاب نہیں ہو سکتا۔ بھارت
بے بنیاد الزام تراشیوں کی بجائے پاکستان میں تخریب کاری اور دہشت گردی بند
کرے۔ مسئلہ کشمیر حل کیے بغیر جنوبی ایشیا میں کسی صورت امن قائم نہیں ہو
سکتا۔ بلوچستان، خیبر پی کے، سندھ اور دیگر علاقوں میں بھارتی دہشت گردی کو
پوری دنیا کے سامنے بے نقاب کرنے کی ضرورت ہے۔ مسئلہ کشمیر کے حل اور
بھارتی دہشت گردی ختم ہونے تک خطے میں کسی صورت امن قائم نہیں ہوسکتا۔
پاکستان کو دہشت گردی کا مرکز کہنے والے بھارت کے قومی ایوانوں میں بڑی بڑی
ہندو دہشت گرد جماعتوں کے رہنما بیٹھے ہوئے ہیں جن کا دہشت گردی میں ملوث
ہونا کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے بھی
کہا کہ بھارت پاکستان کا دوست ہے اور نہ ہی کبھی ہو سکتا ہے۔ بھارت مذاکرات
میں سنجیدہ ہے تو سب سے پہلے مسئلہ کشمیر کا حل اور مقبوضہ کشمیر میں مظالم
کا سلسلہ بند کیا جائے۔ بھارت کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ اس کو جب بھی
موقع ملتا ہے پاکستان کے خلاف ضرور سازش کرتا ہے اور یہاں کے حالات خراب
کرنے میں بھی بھارت کا ہاتھ ہے۔ میرے خیال میں بھارت کے ساتھ کسی بھی صورت
مذاکرات کامیاب ہو سکتے ہیں اور نہ ہی کبھی بھارت پاکستان کا دوست ہو سکتا
ہے۔ |