سب نے اپنی اپنی بوگی کے دروازے
بند کر لیے حملہ کرنے والے ہندؤں کی تعداد اتنی زیادہ تھی کہ ہم ان سے لڑنے
کا سوچ بھی نہیں سکتے تھے اور ہمارے ساتھ عورتیں اور بچے بھی تھے ہم بوگی
کا دروازہ کھول کر آزادانہ طریقہ سے ان سے لڑ نہیں سکتے تھے۔ ہم نے یہ حکمت
عملی اختیار کی کہ بوگی کے دروازوں کے آگے سارا سامان رکھ دیا اور دروازوں
کو ٹھیک طرح سے بند کر دیا، ہم نے تمام خواتین اور بچوں کو زمیں پر لیٹ
جانے کیلیے کہا اور خود پلر کے سائیڈ میں چھپ کر ان کا مقابلہ کرنے لگے۔
میرے پاس چونکہ ریوالور تھی میں نے اس کو احتیاط سے چلانے کا فیصلہ کیا،
ہندؤں کا ایک گروہ تقریبا ١٥ یا ٢٠ افراد کا ہماری بوگی کی طرف بڑھا تو میں
نے پلر کے سائیڈ سے ٹھیک نشانہ لیتے ہوئے ایک ہندو کو ڈھیر کر دیا یہ
دیکھتے ہوئے آگے بڑھنے والے سارے جنونی ہندو پیچے ہٹ گئے اور کسی کی ہماری
طرف آنے کی ہمت نہ ہوئی۔ ہمارے دونوں طرف والی بوگیوں میں سے چیخنے چلانے
کی آوازیں آ رہی تھیں ہمیں اندازہ نہیں ہو رہا تھا کہ وہاں کیا ہو رہا ہے۔
ہم نے یہ سوچا تھا کہ کچھ بھی ہو جائے دروازے نہیں کھولنے ہمیں اپنے ساتھ
والوں کی جانیں بچانی تھیں، ادھر بوگی کی دوسری طرف ہندؤں کا ایک ٹولہ بوگی
کے دروازے کو کھولنے کی کوشش کر رہا تھا ان کے پاس بڑے بڑے ہتھوڑے تھے جس
کو وہ پورے طاقت سے بوگی کے دروازے پر مار رہے تھے میں وہاں پر پہنچا تو
دیکھا کہ ہمارے ایک ساتھی کا ہاتھ باہر سے کسی نے پکڑ لیا ہے اور اس پر
چاقو سے وار کر کے اسے زخمی کر دیا ہے میں نے یہ معاملہ دیکھتے ہی ایک فائر
کیا گولی سیدھی جا کر اس کے دماغ پر لگی وہ حملہ آور اسی وقت ڈھیر ہو گیا۔
جن صاحب کو زخمی کر دیا تھا ان کے ہاتھ پر دوا لگوا کر اس کو کپڑے سے باندھ
دیا خون اتنی تیزی سے بہہ ریا تھا کی بچے اور خواتیں خوفزدہ ہو گئے، ٹرین
کے چاروں طرف سے آہوں اور سسکیوں کی آوازیں آرہی تھیں میری سمجھ نہیں آریا
تھا کہ میں کیا کروں میرا دل چاہ رہا تھا کہ میں دروازہ کھولوں اور جا کر
دیکھوں کہ ہمارے برابر والے ڈبے میں لوگوں پر کیا گزر رہی ہے، میرے ساتھ
موجود ایک ساتھی بہت جذباتی ہو رہے تھے ان کا نام غالباً وسیم تھا ان کا قد
تقریباً ٦فٹ اور جسامت بھی اچھی تھی، وسیم نے مجھ سے کہا کہ کبیر بھائی مجھ
سے یہ آہ و ابقاء سنی نہیں جا رہی آپ مجھے اجازت دیں کہ میں بوگی سے باہر
جاؤں اور ان سب کی مدد کروں میں نے اس سے کہا کہ بے وقوف مت بنو باہر ان
لوگوں کی تعداد بہت بڑی ہے تم مارے جاؤ گے وسیم نے کہا کہ ایسی زندگی سے
موت ہی اچھی ہے یہ کہتے ہوئے اس نے دروازہ کھولا اور باہر نکل گیا اس کے
باہر نکلتے ہی ہندؤں نے اسے گھیر لیا یہ دیکھتے ہوئے میں نے فائرنگ شروع کر
دی میرے پاس چار گولیاں بچی تھیں سب کی سب میں نے چلا ڈالی میں چار ہندؤں
کو ڈھیر کر چکا تھا لیکن اپنی ساری کوششوں کے باوجود میں اپنی آنکھؤں کے
سامنے وسیم کو شہید ہوتے ہوئے دیکھتا رہا اور میں کچھ بھی نہ کر سکا ان
ظالموں نے وسیم کے سر کو اس کے دھڑ سے جدا کرنے میں دیر نہ لگائی(انا للہ
وانا الیہ راجعون)۔
یہ منظر دیکھ کر میں بھی جذباتی سا ہو گیا تھا اگر ہمارے ساتھ عورتیں اور
بچے نہ ہوتے تو خدا کی قسم میں بھی وسیم جیسی موت کو ترجیح دیتا، لیکن کیا
کرتا میں بھی مجبور تھا ہماری پوری بوگی میں تقریبا ٢٠٠ افراد کی تعداد میں
مرد اور عورتیں اور بچے تھے مردوں کی تعداد ٥٠ ہوگی ان میں ١٥ کے قریب
بوڑھے تھے ہم سب مل کر ایک بھر پور حملہ کر سکتے تھے لیکن شاید ان سینکڑوں
مسلح افراد کا مقابلہ نہیں کر سکتے ہم سب نہتے تھے سب کے پاس کل ملا کر ١٠
چاقو ہونگے جو کہ نا کافی تھے۔ سب اس بات پر متفق تھے کہ اندر رہ کر مقابلہ
کیا جائے۔
میں ابھی پلاننگ میں مصروف ہی تھا کہ ہندؤں نے بوگی کے چاروں دروازوں کو
توڑنا شروع کر دیا بہت ہی زبر دست طریقہ سے انہوں نے طاقت لگانی شروع کر دی
ان ظالموں نے پوری بوگی کو ہلا کر رکھ دیا عورتوں نے چلانا اور بچوں نے
رونا شروع کر دیا۔
میں نے ہر دروازے پر تین تین آدمیوں کو چاقو دیکر کھڑا کر دیا کہ جیسے ہی
جنونی ہندو اندر آئیں ان کو صحیح کا مزہ چکھانا وہ پوری طاقت کے ساتھ
دروازہ کھولنے کی کوشش کر رہے تھے ہمارا ایک دروازہ کمزور پڑ رہا تھا میری
پوری توجہ اسی پر تھی ان جنونی ہندؤں نے اتنا زور لگایا کہ وہ دروازہ
کھولنے میں کامیاب ہو گئے۔ (جاری) |