آزاد عدلیہ اور مسلم لیگ (ن) کا امتحان

تیل کی قیمتوں میں ہونے والا حالیہ اضافہ اس قدر زائد ہے کہ عوام تو عوام کابینہ بھی اضطراب سے دوچار ہوگئی ہے اور کابینہ کے بعض اراکین نے جرات سے کام لیتے ہوئے وزیر اعظم کو مشورہ دیا ہے کہ وہ عوام پر اس قدر بوجھ نہ ڈالیں اور تیل کی قیمتوں میں کیا جانے والا اضافہ واپس لے لیں مگر وزیراعظم نے عوامی مشکلات کا ادراک رکھنے والے ان اراکین کابینہ کی تجویز کو مسترد کر کے ثابت کردیا ہے کہ محلوں میں رہنے والے غریبوں کی مشکلات کی کبھی پرواہ نہیں کرتے چاہے وہ محل انہیں ان غریبوں کے خون پسینے سے ہی کیوں نہ حاصل ہوئے ہوں٬ دوسری جانب مسلم لیگ (ن) جس نے ”اوپری دباؤ “ اور ”سیاسی مفادات “ کو ”قومی مفاد “ اور ”مصلحت “ کا نام دے کر ”فرینڈلی اپوزیشن “ کی شکل اختیار کر رکھی ہے نے اس وقت عوام کو حیران کردیا جب وہ پیٹرول کی قیمتوں کے حوالے سے سپریم کورٹ میں چلی گئی لیکن اس حوالے سے عوامی رائے یہ ہے کہ یہ بھی مسلم لیگ کی ایک ”سیاسی چال“ ہے جس کے ذریعے ایک جانب وہ حکومت کو اپنے وجود کا احساس دلاکر اس پر اپنا دباؤ برقرار رکھنا چاہتی ہے تو دوسری جانب عوام کی عدالت میں سرخرو ہونے کا کھیل بھی کھیل رہی ہے اور سپریم کورٹ میں جانے کا مقصد عوام کو انصاف نہیں صرف اطمینان دلا کر اس میں اپنی ساکھ برقرار رکھنے کی کوشش کرنا ہے۔ عوام کا یہ احساس اس بات کو ثابت کررہا ہے کہ اب عوام پہلے سے کہیں سیاسی شعور کے حامل ہوچکے ہیں اور انہیں بے وقوف بنانے کی سیاسی کوشش کسی بھی سیاسی جماعت کے حق میں سودمند ثابت ہونے کی بجائے اس کے سیاسی مستقبل کو تاریک کرنے کے اسباب پیدا کرے گی جبکہ یہ بھی ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ ضرورتوں اور مصلحتوں کے سیاسی کھیل میں شریک ہو کر وہ پہلے ہی اپنا بہت کچھ گنوا چکی ہے؟

تیل کی قیمتوں میں اضافے کے حکومتی اقدام کے بعد عوام میں پیدا ہونے والا اضطراب ایک ایسے امتحان کی نوید دے رہا ہے جس سے جہاں ایک جانب مسلم لیگ دوچار ہے تو دوسری جانب عدالت عظمیٰ کو بھی اپنی ساکھ برقرار رکھنے اور عوام کو عدلیہ کے آزاد ہونے کا ثبوت دینے کے لئے اس امتحان اور ”پل صراط “ سے گزرنا ہی پڑے گا گو کہ عدالت عظمیٰ پر ماضی میں بھی یہ الزام لگ چکا ہے کہ وہ انتظامی معاملات میں ٹانگ اڑا رہی ہے اور اسی تناظر میں چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری سمیت سپریم کورٹ کے متعدد ججوں کو معذولی کا شکار بھی ہونا پڑا تھا مگر عوام اور سول سوسائٹی نے ججز بحالی تحریک میں وکلاء کے ساتھ مل کر جس طرح اس تحریک کو کامیابی سے ہمکنار کرتے ہوئے کامیابی کی منزل٬ عدلیہ کی آزادی اور ججوں کی بحالی تک پہنچایا وہ اس بات کا تقاضہ کررہا ہے کہ عدلیہ اب اپنی آزادی اور غیر جانبداری کا ثبوت دیتے ہوئے عوامی مفادات کے تحفظ کے ذریعے اپنا وقار برقرار رکھے ۔

اس حوالے سے جسٹس (ر) رانا بھگوان داس کمیشن کی عبوری رپورٹ میں درآمدی تیل پر ضرورت سے زائد منافع کمانے کی حکومتی روش کے ثبوت سامنے آنے پر چیف جسٹس نے عوام کے بہترین مفاد میں تیل کی قیمتوں میں فوری کمی کی ہدایت کر کے عدلیہ کی آزادی اور عوامی مفادات کے تحفظ کا جو عملی ثبوت دیا تھا عوام آج بھی اعلیٰ عدلیہ اور چیف جسٹس افتخار چوہدری سے اسی عمل و کردار کا مطالبہ و توقع کررہے ہیں کیونکہ عدالتی احکامات پر حکومت نے بہت معمولی سا ہی سہی لیکن عوام کو ایک روپیہ پچیس پیسے کا ''ریلیف '' دے کر نہ صرف عدالتی احکامات مان کر جمہوری حکومت ہونے کا ثبوت دیا تھا بلکہ عدلیہ کی آزادی کا بھی بول بالا ہوا تھا مگر اب وزیر خزانہ شوکت ترین نے آئی ایم ایف کی ایماء پر ایک بار پھر وزیر اعظم کو تیل کی قیمتوں میں چھ سے سات روپے اضافے کی تجویز پیش کی اور وزیر اعظم نے بلا سوچے سمجھے ہی اسے منظور بھی کرلیا حالانکہ تیل کی قیمتوں کے تعین کے حوالے سے مقدمہ سپریم کورٹ میں زیر التواء ہے اس کے باجود بھی تیل کی قیمتوں میں اضافے کا حکومتی فیصلہ سراسر توہین عدالت کے مترادف ہے اس لئے اس حوالے سے ازخود نوٹس لینا عدلیہ کی ذمہ داریوں میں شامل تھا لیکن ناجانے کیوں اس فریضے سے انحراف کیا گیا جس سے عوام میں عدلیہ کی غیر جانبداری کے حوالے سے منفی تاثر نے جنم لیا اور اب عوام یہ کہتے ہوئے پائے جارہے ہیں کہ جس طرح اپنا مقدر بدلنے کے لئے حکومتوں اور سیاسی قائدین کی تبدیلی سے ان کا مقدر نہیں بدلتا بلکہ اقتدار میں آنے والی ہر سیاسی جماعت اور رہنما اپنے ذاتی و گروہی مفادات کی بجاآوری کے ذریعے عوام کو مزید بدحالی کی طرف دھکیلتے ہیں اسلئے سیاسی جماعتوں کی جدوجہد میں شامل عوام کی جانب سے دی جانے والی ہر قربانی ضائع ہوجاتی ہے اور ان کے مقدر و حالت میں کوئی تبدیلی نہیں آتی ویسے ہی آزاد عدلیہ کیلئے کی گئی عوامی جدوجہد اور وکلاء کی قربانیاں بھی رائیگاں ہوچکی ہیں اور کوئی ایسی تبدیلی نہیں آئے گی جسے کہا جاسکے کہ اب پاکستان کا نظام درست سمت کی جانب رواں ہوا ہے ۔

رہی بات میاں نواز و شہباز شریف اور مسلم لیگ(ن) کی تو ججز بحالی تحریک میں انہوں نے جو نیک نامی کمائی تھی وہ سیاسی مفادات کے حصول کے لئے اسے برقرار رکھنے میں ناکام دکھائی دیتی ہے جبکہ ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ جہاں پنجاب کے مفادات کی بات آتی ہے وہاں مسلم لیگ (ن) حکومت کے سامنے ایک مضبوط اپوزیشن کا کردار ادا کرتے ہوئے اپنی بات پر اٹل ہوجاتی ہے اور کسی بھی قسم کی مصلحت سے کام نہیں لیتی لیکن جب کسی دوسرے صوبے یا ملک کی مجموعی عوام کے مفادات کی بات آتی ہے تو وہاں مسلم لیگ اور شریف برادران ”قومی مفاہمت “ کے نام پر مصلحت سے کام لیتے دکھائی دیتے ہیں اور یہی صورتحال پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں خوفناک اضافے کے حوالے سے بھی دکھائی دے رہی ہے حد تو یہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) اور میاں نواز شریف کی جانب سے اس حوالے سے محض ظفر اقبال جھگڑا کے ذریعے سپریم کورٹ میں کےس دائر کر کے خانہ پری کرنے کی کوشش کے علاوہ کسی بھی قسم کا کوئی واضح اور ملک گیر احتجاج سامنے نہیں آیا بلکہ یوں محسوس ہوتا ہے کہ (ن) لیگ نے عوام کو شوکت ترین کے بے رحمانہ فیصلوں کے بالمقابل تنہا چھوڑ دیا ہے جسے دیکھتے ہوئے عوامی حلقے (ن) لیگ کو قومی سیاسی جماعت کی بجائے ”پنجاب لیگ“ یا پنجاب کی سیاسی جماعت اور شریف برادران کو صوبائی رہنما کہنے پر مجبور ہونے اور اس قسم کا عوامی رجحان نہ تو خود مسلم لیگ و نوازشریف کے حق میں ہے اور نہ ہی ملک و ملت کے حق میں ‘ اسلئے مسلم لیگ (ن) کو اپنے سیاسی مستقبل کو محفوظ رکھنے کے لئے عوامی معاملات پر سمجھوتوں اور صرف پنجاب کے مفادات کے حصول کی خاطر جدوجہد کی عادت سے اجتناب کرتے ہوئے ملک کے ہر طبقے اور ہر خطے کی عوام کی ترجمان کی اپنی سابقہ ساکھ کو بر قرار رکھنے کےلئے عوامی مفادات کے تحفظ کےلئے سیاسی مفادات کو بالائے طاق رکھنا ہوگا۔
Imran Changezi
About the Author: Imran Changezi Read More Articles by Imran Changezi: 63 Articles with 67521 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.