اطلاعات کے مطابق سوات اور
مالاکنڈ کے بعد وزیرستان میں شدت پسندوں کے خلاف پاک فوج آپریشن کے لئے
ابتدائی مرحلے عبور کر چکی ہے، لیکن ضروری ہے کہ وہاں سے شدت پسندوں کا
صفایا کرنے کے لئے، وہاں سے آنے والے متاثرین کی تعداد کو پیش نظر رکھا
جائے، کیونکہ ان شدت پسندوں کے پیچھے جو قوتیں کار فرما ہیں ان کا مقصد یہی
ہے کہ پاک فوج کو اپنے ہی علاقوں میں الجھا کر کمزور کیا جائے۔ ہمارے وزارت
خارجہ کے مطابق ان علاقوں میں بیرونی مداخلت کے ثبوت ملے ہیں، قوم کو پہلے
روز سے یقین تھا کہ یہاں جو کھیل کھیلا جا رہا ہے اس کے پیچھے بیرونی عناصر
کارفرما ہیں۔ شدت پسندوں کے روپ میں غیر ملکی ایجنٹ موجود ہیں، جو ہمارے
دشمن ممالک سے پیسہ اور اسلحہ لے کر کارروائیاں کررہے ہیں اس لیے حکومت پر
لازم ہے کہ پاک فوج کو ان علاقوں میں لگی آگ میں جھونکنے سے قبل تمام
معاملات کو مدنظر رکھے۔
کیونکہ جس وقت حکومت نے شدت پسندوں کے خلاف آپریشن کا فیصلہ کیا تھا عوامی
حلقوں نے اسے مستحسن اقدام گردانتے ہوئے اس آپریشن پر مکمل اعتماد کا اظہار
کیا تھا، کیوں کہ شدت پسندوں نے جس طرح علاقے کے لوگوں کو یرغمال بنا رکھا
تھا اس کے پیش نظر پاکستانی قوم میں خاصی تشویش پائی جارہی تھی اس پر
مستزاد غیر ملکی میڈیا الگ چیخ رہا تھا کہ شدت پسند اسلام آباد کے قریب
پہنچ گئے ہیں، اور وہ جلد پاکستان پر قبضہ کر کے ایٹمی اثاثوں پر کنٹرول
حاصل کرلیں گے، لیکن یہ بات وقت نے غلط ثابت کردی کیوں کہ مسلح افواج نے جس
پیشہ وارانہ انداز میں ان عناصر کے سامنے سیسہ پلائی دیوار کا کردارادا کیا،
وہ اپنی مثال آپ ہے اور یہ فقط پاک فوج کا ہی اعزاز ہے، اس حوالے سے فوج
ہمیشہ قوم کی توقعات پرپورا اترتی رہی ہے لیکن اس آپریشن سے جہاں عسکریت
پسندوں کا زور ٹوٹ گیا اور ہم نے پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کے غیر محفوظ
ہونے کا واویلہ مچانے والوں کا منہ بند کردیا وہیں اس آپریشن میں جلد بازی
کے باعث کچھ مضمرات بھی سامنے آئے جس میں آپریشن زدہ علاقوں سے نقل مکانی
کرنے والے 30 لاکھ متاثرین کی بحالی کا چیلنج آج بھی حکومت کے لئے سوالیہ
نشان بنا ہوا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ملک کی عسکری اور سیاسی قیادت نے آپریشن راہ راست کو جلد از
جلد مکمل کر کے متاثرین کی بحفاظت واپسی کے شیڈول کو یقینی بنانے کے لئے
اہم فیصلے کئے ہیں اور اعلیٰ عسکری و سیاسی قیادت کے درمیان ہونے والی
حالیہ ملاقاتوں میں اس بات پر اتفاق کیا گیا ہے کہ ملک میں جہاں کہیں
حکومتی رٹ کو چیلنج کیا جائے گا، وہاں آپریشن کر کے ان عناصر کا قلع قمع کر
دیا جائے گا، جبکہ حکومت نے اس کا عزم کا اعادہ بھی کیا ہے کہ شدت پسندوں
کے آگے سر نہیں جھکایا جائے گا اور اس جنگ کو منطقی انجام پر پہنچا کر ہی
دم لیا جائے گا۔ عسکری و سول قیادت کے درمیان ملاقات میں ملکی سلامتی کے
دیگر اہم امور کے علاوہ سوات مالاکنڈ میں جاری آپریشن کے جلد خاتمے کے
علاوہ اورکزئی ایجنسی میں ہیلی کاپٹرحادثہ میں شہید ہونے والے پاک فوج کے
جوانوں کی قیمتی جانوں کے ضیاع پر بھی گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کرتے
ہوئے اس بات پر اطمینان کا اظہار بھی کیا گیا کہ پاک فوج مشکل حالات میں
شدت پسندوں کا جس دیدہ دلیری سے مقابلہ کر رہی ہے اس پر ساری قوم کو فخر ہے
اور اس فخر میں قومی اظہار یک جہتی کا عنصر سب سے زیادہ ہے اس موقع پر آرمی
چیف نے سیاسی قیادت کو آپریشن راہ راست کی کامیابی کے حوالے بتایا کہ 90
فیصد علاقہ شدت پسندوں سے خالی کرالیا گیا ہے، جبکہ باقی علاقہ بھی جلد
کلیئر کر کے متاثرین کی واپسی کا عمل تسلسل سے شروع کیا جاسکتا ہے۔ اب جب
کہ آپریشن اپنے منطقی انجام کو پہنچنے والا ہے، تو ضروری ہے کہ ان نقل
مکانی کرنے والے تمام لوگوں کی داد رسی کی جائے، حکومت کے پاس وسائل کا
فقدان رہا ہے اس کے باوجود حکومت نے اپنی سی سعی کر کے ان کی دیکھ بھال کی
ہے عالمی برادری کا اس حوالے سے کردار خاصا شرمناک رہا ہے، کیونکہ ان لوگوں
کی امداد اس طرح نہیں کی گئی جس طرح شدت پسندوں کے خلاف آپریشن کے لیے چیخ
وپکار کی جارہی تھی۔ ایسی صورت میں تمام وزن حکومت پاکستان اور پاکستان کی
عوام کو اٹھانا پڑا، اب جب کہ شدت پسندوں سے تمام علاقہ خالی کروالیا گیا
ہے تو یہ بات حکومت کو سمجھنی چاہیے کہ غیر ضروری آپریشن سے پرہیز کیا جائے،
کیوں کہ حکومت عالمی دباؤ میں آکر اگر آپریشن کرے گی تو اس کے نقصانات کا
احتمال اسی طرح ہوگا، جیسے سوات متاثرین کی صورت میں سامنے آیا ہے۔ یہ بات
ممکن ہی نہیں کہ آرمی آپریشن ہو رہا ہوں اور وہاں کے بے گناہ لوگوں کا
نقصان نہ ہو ایسی صورت حال میں ضروری ہوتا ہے کہ کم سے کم نقصان کا احتمال
پیش نظر رہے، اور پاک فوج نے اسی پالیسی کو مدنظر رکھ کر آپریشن کیا ہے، جس
کی وجہ سے آپریشن میں غیر ضروری طوالت بھی در آئی۔ اب ان علاقوں میں واپس
جانے والے متاثرین کے لئے پاک فوج حفاظت کا جو فول پروف انتظام کررہی ہے اس
پر بھی عوام میں خاصا اطمینان پایا جارہا ہے۔
حالات اور سابقہ تجربات کے تناظر میں ضرورت اس امر کی ہے کہ وزیرستان اور
باجوڑ میں آپریشن سے قبل سوات آپریشن کے تجربے کو بھی ملحوظ رکھا جائے اور
نقل مکانی کرنے والوں کے لئے مکمل تیاری کرلی جائے اور عالمی برادری کو اس
حوالے سے باور کرایا جائے کہ اگر اس نے ان متاثرین سوات و مالاکنڈ کی امداد
میں جس طرح کا کردار ادا کیا ہے وہ قطعاً مستحسن نہیں ہے، لہٰذا اب حکومت
کسی ایسے آپریشن سے گریز کرے گی ،جو استحکام پاکستان کے خلاف اور عالمی
دباؤ کے تحت ہو صدر، وزیراعظم اور آرمی چیف یقیناً صورت حال کا ادراک رکھتے
ہیں یہی وجہ ہے کہ جہاں وزیرستان میں شدت پسندوں کو کچلنے کے لیے پاک فوج
رخت سفر باندھ چکی ہے‘ وہیں عوامی رائے عامہ کو احترام دیتے ہوئے اب بھی
شدت پسندوں سے ہتھیار پھینکنے اور خود کو قانون کے دائرے میں لانے کی اپیل
کے ذریعے بھٹکے ہوؤں کو راہ راست پر آنے کاموقع بھی فراہم کررہی ہے! |