ضروری کام سے مچھ (کو ئٹہ کے قریب ایک مقام )جانا
پڑ گیا -کوئی مسئلہ نہیں -مچھ کون سا دور ہے -- لیکن مسئلہ یہ تھا کہ اسی
روز واپس آنا بھی تھا-
خیر یہ فیصلہ کیا کہ جائیں گے ر یل سے اور واپسی بذریعہ بس کریں گے - ٹرین
اپنے وقت پر روانہ ھوئی( ہے نہ حیرت کی بات !!) میں گھر کے کپڑوں یعنی
شلوار قمیض میں ملبوس تھا - سرنگوں سے گزرتے ہوئے - پلوں کو پار کرتے ہوئے
-پہاڑوں کی پر ہیچ گھاٹیوں کے اندر گھومتے ہوئے جب ٹرین نسبتآ کسی میدانی
علاقے سے گزر رہی تھی کہ اچانک تڑا ٹر -- قسم کی آوازیں سنائی دینے لگیں
کھڑکی سے باھر جھانک کر باہر دیکھا تو حیران ہو گیا - ایک عجب نظارہ نظر
آیا - ریل کی پٹری کے ساتھ جو پتھر پڑے ہوتے ہیں وہ بندوق کی گولیوں کی طرح
دور دور جا رھے تھے - ایک پہاڑی بکرا اپنے ریوڑ سے دور کھڑا، اطمینان سے
جگالی کرتے ھوئے ٹرین کو دیکھ رہا تھا -ایک پتھر اسکی پیشانی پر لگا - پتہ
نہیں وہ کونسی آواز نکالتا ھوا بگٹٹ دور بھاگتا چلا گیا - بکرے کی آواز اس
لئے سنائی نہیں دی کہ ٹرین کی جو آوازیں نکل رہی تھیں وہ سب پر بھاری تھیں
- ایک صاحب جو باتھ روم میں تھے گھبرا کر باہر نکل آئے -ان کی آنکھیں پھیلی
ھوئی تھیں - کیا ہے کیا ہے -انھوں نے چلا کر کہا - باتھ روم میں زمین کو
جانے وال پائپ سے پتھر آرہے ہیں معاملہ کسی کی سمجھ میں نہیں آرھا تھا -
اچانک اس آواز میں ایک اور آواز بھی شامل ہو گئی - "ٹن--ٹن _ٹں" پھر ٹرین
کی رفتار کم ھونے لگی -اور بالآخر ٹرین رک گئی-یہ ایک ویران جگہ تھی- باہر
کوئٹہ کی ٹھنڈی ٹھنڈی خوشگوار ہوا چل رہی تھی- دور دور تک ہلکی ہلکی دھوپ
پھیلی ہوئی تھی - ریلوے کے صاحبان اتر کر ہمارے ڈبے کی طرف آتے دکھائی دئے
-
"ادھر آؤ - ادھر سے آواز آتا پڑا ھے " ایک صاحب نے کوئٹہ کے مخصوص لہجے میں
انہیں پکارا - میں بھی ادھر چلا گیا - دیکھا کہ ایک بوگی کے نچلے حصے میں
ایک آہنی تین انچ موٹا پائپ لٹکا ھوا تھا - اس پائپ کا دوسرا حصہ زمین سے
چھو رہا تھا اور اسی سبب پتھر دور دور تک پھیل رہے تھے - ٹرین کے عملے نے
عارضی طور پر اسے ایک تار کی مدد سے باندھ دیا اور گاڑی آگے روا نہ ھوئی -
اگلا اسٹیشن نہ جانے کونسا تھا وہاں اس کا اسٹاپ نہی تھا لیکن گاڑی روک کر
اس کی مرمت کا کام شروع ھوا - اب میں ذہنی تناؤ میں آگیا کہ واپس بھی ھونا
تھا اور شام چھ بجے کے بعد کوئی بس نہیں ملتی تھی - مجھے پہنچنے کی جلدی
تھی -اس لئے عملے کی مدد کرنے کے لئے میں خود بھی بوگی کے نیچے چلا گیا -
لیکن سپر وائزر نےآواز دی "آپ اوپر آجائیں ‘ مجبورآ باہر آنا پڑا -بیس سال
ایک بڑے صنعتی ادارے میں بھاری مشینوں کی مرمت کرتے کرتے اتنی تو شدھ بدھ
ھو گئی تھی کہ اندازہ لگا سکوں مرمت کرنے والے ماضی میں مشین سے کیا برتاؤ
کرتے رہے ہیں اور اب مشین مستقبل میں ان کے ساتھ کیا سلوک کرے گی -یہ پا ئپ
غالبآ بریک کا لیور تھا - ایک جگہ سے کریک ہونے کے بعد ٹوٹ کر گر پڑا تھا
-کریک کا جائزہ لینے سے اندازہ ھوتا تھا کہ پرانا کریک ہے اور آج پرانا
کریک اچانک بڑھا اور اس ٹوٹ پھوٹ کا باعث بنا -مینٹیننس کا اصول یاد آیا کہ
تین چار مشینیں اگر ایک ہی حالات اور ایک ہی ماحول میں کام کر رھی ہوں اور
ایک جگہ اگر کوئی مسئلہ آیا ھے تو سمجھیں دوسری جگہ بھی ایسا ھی مسئلہ مو
جود ھو گا - اسی سوچ کے تحت دوسری بوگیوں کے نیچے جاکر دیکھا تو وہاں بھی
ایسے ہی کریک موجود تھے -
میں نے سپر وائزر سے بات کرنے کو کوشش کی تو اس نے جواب دیا " آپ لوگوں کو
اچانک دست نہیں لگ جاتا -ایسے ہی ٹرین کو بھی ھو جاتا ھے
میں کہنا چاہ رہا تھا جناب آپ جب مرمت کی لاگ بک بھریں تو لکھیں کہ مستقبل
میں ایسے بریک ڈاون سے بچنے کے لئے تمام بوگیوں کے بریک لیور کا جائزہ لے
کر ان کی ویلڈنگ کا انتظام کریں -
یوں بھی ٹکنیکل رپورٹ لکھنے کا ایک اصول یہ بھی ہے کہ آخر میں تبصرہ کرتے
ھوئے بتایا جائے کہ "مستقبل میں اس قسم کے واقعات سے کیسے بچا جا سکتا ھے "
لیکن افسوس میری صدا مچھ کے پہاڑوں سے ٹکرا کر واپس آگئی - |