آرمی چیف کافیصلہ،حکومت آزمائش سے بچ گئی

آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے 29 نومبر کو اپنی مدت ملازمت پوری ہونے پر اپنے آرمی چیف کے منصب سے ریٹائرمنٹ کا اعلان کر کے اندرون ملک اور بیرون ملک پھیلی افواہوں کا خاتمہ کردیا ہے۔حال ہی میں غیر ملکی ذرائع ابلاغ میں ایسی خبریں آئی تھیں جن میں جنرل کیانی کی مدتِ ملازمت میں توسیع یا انہیں حکومت کی جانب سے کوئی اور اہم عہدہ دینے کے امکانات ظاہر کیے گئے تھے۔ جس کے بعد جنرل اشفاق کیانی کی ریٹائر منٹ کے حوالے سے مختلف قسم کی افواہیں گردش کرنے لگی تھیں، جو اتوار کے روز آرمی چیف کے بیان سے دم توڑ گئیں۔ اپنے مستقبل کے بارے میں میڈیا کی طرف سے اٹھائے گئے سوالات کا جواب دیتے ہوئے جنرل اشفاق کیانی نے کہا ہے: ”کچھ مدت سے میری موجودہ ذمہ داریوں اور آئندہ کے منصوبوں کے بارے میں افواہیں گردش کر رہی تھیں، قیاس آرائیاں کی جا رہی تھیں، متعدد رپورٹوں میں مجھے نئی ذمہ داریاں سونپے جانے کا بھی ذکر کیا گیا، میں پاکستان کی سیاسی قیادت، قوم اور فوج کا ممنون ہوں کہ انہوں نے ملکی تاریخ کے اس نازک موقع پر مجھ پر اعتماد کا اظہار کیا۔ میں اس عمومی رائے سے متفق ہوں کہ ادارے اور روایات افراد سے زیادہ قیمتی ہوتی ہیں اور انہیں اہمیت دی جانی چاہیے۔ اب جب کہ میں اپنے منصب سے سبکدوش ہو رہا ہوں، اس وقت ملک میں عوامی رائے جڑیں پکڑ چکی ہے، دستور کام کر رہا ہے۔ پاک فوج نے واضح سوچ کے ساتھ اور پاکستان کو درکار درست سمت کا ادراک کرتے ہوئے ملک کی حتمی منزل کی جانب سفر میں اپنا حصہ ڈالا ہے۔ فوج نے لاتعداد مواقع پر اپنی لازوال قربانیوں کے ذریعے ثابت کیا ہے کہ ملکی خوشحالی اور دفاع ہی ان کی اولین ترجیح ہے۔ مجھے اس عظیم قوم کی خدمت کرنے اور دنیا کی شاندار ترین فوج کی چھ برس تک کمان کرنے کی عزت ملی۔ اب یہ دوسروں کے لیے موقع ہے کہ بانیان پاکستان کے خوابوں کے مطابق وہ پاکستان کو خوشحال، مضبوط اور جمہوری ملک بنانے کا عمل آگے بڑھا سکیں۔ میری مدت ملازمت 29 نومبر 2013ءکو ختم ہو جائے گی۔ یہ میری ریٹائرمنٹ کا دن ہے میں اپنی آئینی مدت پوری کر چکا ہوں۔ میں نے عظیم قوم کی خدمت اور عظیم فوج کی قیادت کی، اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔“

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ جنرل اشفاق کیانی نے حکومت کو بھی اپنے اعلان سے سکھ کا سانس لینے کا موقع فراہم کیا ہے کیونکہ حکومت پر ان سوالات کا دباﺅ تھا کہ کیا جنرل کیانی کو توسیع دی جا رہی ہے یا انہیں کوئی نیا عسکری عہدہ دیا جا رہا ہے۔ان کے مطابق حکومت کو اس حوالے سے کافی پریشانی لاحق تھی لیکن آرمی چیف نے اعلان کرکے حکومت کی پریشانی ختم کردی ہے، مبصرین کا کہنا ہے کہ آرمی چیف کے اعلان ریٹائرمنٹ سے حکومت آزمائش سے بچ گئی ہے ۔حکمران اور اپوزیشن جماعتوں سے تعلق رکھنے والے سیاسی و دینی رہنماﺅں نے چیف آف آرمی سٹاف جنرل اشفاق پرویزکیانی کی طرف سے ریٹائرمنٹ کے اعلان کا خیر مقدم کیا ہے۔ پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین مخدوم امین فہیم نے کہاکہ حکومت کو نئے چیف آف آرمی سٹاف کا اعلان کر دینا چاہیے، یہ جمہوری حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ وقت پر اور پوری ذمہ داری نبھائے۔ امید ہے کہ آنے والا چیف آف آرمی اسٹاف بھرپور صلاحیتوں کا مالک ہو گا اور ملک کو بحران سے نکالنے میں جمہوریت کی حمایت کرے گا ۔ پاکستان تحریک انصاف کی رہنما ڈاکٹر مہرالنساءشیریں مزاری نے کہاکہ جنرل اشفاق پرویز کیانی نے ریٹائرمنٹ کا فیصلہ کر کے بہت اچھا کیا کیوں کہ فوج میں سارے پروفیشنل اور تربیت یافتہ افسر ہوتے ہیں اور ان پر بہت اہم ذمہ داریاں ہوتی ہیں۔ نئے چیف آف آرمی سٹاف کو بہت سے مسائل کا سامنا ہو گا جس میں 2014ءمیں امریکی فوج کا انخلائ، کراچی آپریشن اور بلوچستان کے حالات ان کے لیے سب سے بڑا چیلنج ہوں گے، ان پرذمہ داری عائد ہو گی کہ وہ ملک کوکس طرح مسائل کے بھنور سے نکالتے ہیں۔ عوامی نیشنل پارٹی کے ترجمان سینیٹر زاہد خان نے کہاکہ آرمی چیف کی ریٹائرمنٹ کا اعلان مثالی فیصلہ ہے، جمہوریت کو ڈی ریل کرنے کی افواہیں اس فیصلے کے بعد خود بخود دم توڑ گئیں۔سابقہ حکومت میں مختلف مراحل پر جمہوریت پر شب خون مارنے کے مواقع آئے لیکن اسٹیبلشمنٹ نے خاموشی اختیار کی۔ مسلم لیگ ن کے ترجمان سینیٹر مشاہداللہ نے کہا آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی کا ریٹائرمنٹ کا فیصلہ اچھا اقدام ہے، ان کے اعلان سے افواہیں دم توڑگئی ہیں۔ ماضی میں ا س طرح کی مثالیں نہیں ملتیں، جنرل کیانی کے بیان سے ادارے مزید مضبوط ہوں گے، ان کے بیان سے آنے والا ہر جنرل اپنی سنیارٹی پر جگہ بنائے گا۔ وزیراعظم کے پولیٹیکل سیکرٹری آصف کرمانی نے کہا جنرل کیانی کا ریٹائرمنٹ کا فیصلہ خوش آئند ہے۔ آرمی چیف نے روشن روایات کی بنیاد رکھی۔ وزیراعظم کی خواہش ہے تمام ادارے آئینی حدود میں رہ کر کام کریں۔ قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ نے ریٹائرمنٹ کے اعلان کا خیرمقدم کیا اور کہا کہ جنرل اشفاق پرویز کیانی کے بیان کے بعد گومگو کی صورتحال کا خاتمہ ہوگیا۔ جمہوری اداروں کے بعد دیگر اداروں میں بھی اچھی روایات قائم ہورہی ہیں۔ الطاف حسین نے کہا جنرل اشفاق پرویز کیانی کی قیادت میں مسلح افواج نے ڈٹ کر ملک کا دفاع کیا۔ اشفاق پرویز کیانی نے ریٹائرمنٹ کا اعلان کرکے مثبت روایت قائم کی۔ سید منور حسن نے ریٹائرمنٹ کے فیصلے کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ اشفاق پرویزکیانی کے فیصلے سے فوج کے ادارے پر اچھے اثرات مرتب ہوں گے۔ جے یو آئی کے مرکزی سیکرٹری جنرل مولانا عبدالغفور حیدری اور مرکزی ترجمان مولانا محمد امجد خان نے آرمی چیف جنرل اشفاق پرویزکیانی کی جانب سے مقررہ مدت پر ریٹائرمنٹ کے اعلان کو خوش آئند قرار دیا ہے اور کہا کہ آرمی چیف نے اچھی روایت قائم کی ہے۔ عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید نے کہا آرمی چیف کے فیصلے سے پاک فوج پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔ حکومت نئے آرمی چیف کی تقرری سنیارٹی کی بنیاد پر کرے۔ اگر حکومت نے سنیارٹی پالیسی پر عملدرآمد نہ کیا تو حکومت کا اچھا اقدام نہیں ہوگا۔

جنرل اشفاق پرویز کیانی کو29 نومبر 2007 کو اس وقت کے فوجی صدر جنرل پرویز مشرف نے اپنی جگہ پاکستان کی بری فوج کا سربراہ مقرر کیا تھا۔گزشتہ حکومت کے دور میں چوبیس جولائی 2010 کو اس وقت کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے ان کی مدتِ ملازمت میں تین برس کی توسیع کی تھی۔جنرل اشفاق پرویز کیانی اپریل 1952ءکو جہلم میں پیدا ہوئے۔ 1971ءمیں انہوں نے بلوچ رجمنٹ کے تحت پاکستان ملٹری اکیڈمی سے کمیشن حاصل کیا۔ وہ فورٹ بیننگ (امریکا) کمانڈ اینڈ سٹاف کالج کوئٹہ، کمانڈ اینڈ سٹاف کالج فورٹ لیون ورتھ (امریکہ) ایشیا پیسفک سینٹر فار سیکورٹی سٹڈیز ہوائی (امریکا) اور نیشنل ڈیفنس کالج اسلام آباد کے گریجویٹ ہیں۔ انہیں کمانڈ، انسٹرکشنل اور سٹاف تقرریوں میں وسیع تجربہ حاصل ہے۔ وہ انفنٹری بٹالین، انفنٹری بریگیڈ، انفنٹری ڈویڑن اور کورز کے کمانڈر رہے۔ وہ اسکول آف انفنٹری اینڈ ٹیکٹس کوئٹہ، آفیسر ٹریننگ اسکول منگلا، کمانڈ اینڈ سٹاف کالج کوئٹہ اور نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی اسلام آباد کی فیکلٹی میں رہے۔ چیف آف سٹاف کور کے علاوہ وہ ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنر رہے، اس کے علاوہ وہ ڈی جی آئی ایس آئی بھی رہے۔ ان کی خدمات پر انہیں نشان امتیاز (ملٹری) اور ہلال امتیاز دیا گیا۔پرویز مشرف نے آرمی کا عہدہ چھوڑنے سے قبل جنرل کیانی کواپنا جانشین مقرر کیا تھا، 28 نومبر 2008ءکو صدر مشرف کے وردی اتارنے کے ساتھ ہی راولپنڈی میں جنرل کیانی چیف آف آرمی سٹاف کے عہدے پر فائز ہوگئے جہاں پرویز مشرف نے چیف کی چھڑی کیانی کو تھمائی۔

ذرائع نے دعویٰ کیا ہے کہ وزیراعظم نے نئے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی اور آرمی چیف کی تعیناتی کے لیے مشاورت شروع کردی ہے۔ وزیراعظم نوازشریف اپنے اختیارات کو بروئے کار لا کر کسی جونیئر لیفٹیننٹ جنرل کو بھی فوج کا نیا سربراہ مقرر کر سکتے ہیں تاہم وہ ماضی قریب میں اشارے دے چکے ہیں کہ نئی تقرری سنیارٹی کی بنیاد پر عمل میں آئے گی۔ سنیارٹی اور فوج میں مقبولیت کے اعتبار سے تین لیفٹیننٹ جنرل سرفہرست ہیں۔اس پہلو سے دیکھا جائے تو کوئی گمنام لیفٹیننٹ جنرل بھی نیا آرمی چیف بن سکتا ہے جس سے وزیراعظم سلامتی اور دفاع کے تصورات و موجودہ پالیسیوں میں اہم تبدیلیاں لانے کی توقع رکھتے ہوں۔ جی ایچ کیو میں تعینات چیف آف جنرل سٹاف لیفٹیننٹ جنرل راشد محمود کو لاہور سے تعلق، سابق صدر رفیق تارڑ کے ملٹری سیکرٹری ہونے اور آرمی چیف جنرل کیانی کا معتمد ہونے کے باعث متوقع امیداواروں کی فہرست میں سب سے اوپر سمجھا جاتا ہے۔ میجر جنرل شبیر شریف کے بھائی لیفٹیننٹ جنرل راحیل شریف کو فوج میں پیشہ ورانہ مہارت کے باعث بعض حلقے موزوں امیدوار گردانتے ہیں جبکہ کور کمانڈر منگلا لیفٹیننٹ جنرل طارق خان بھی اسی فہرست میں شامل ہیں۔تاہم ذرائع کے مطابق چیئرمین جوائنٹ چیفس کیلئے ایڈمرل آصف سندھیلہ، ائر مارشل طاہر رفیق بٹ اور جنرل ہارون کا نام بھی زیر غور ہے۔
 

عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 701683 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.