جاپان میں مارچ 2011ءکو آنے والے تاریخ کے بدترین زلزلے
اور سونامی سے خوفناک تباہی کے نتیجے میں ایک ہزار افراد ہلاک اور ہزاروں
زخمی ہو گئے تھے، ریکٹر اسکیل پر زلزلے کی شدت 8.9 ریکارڈ کی گئی۔ ساحلی
شہروں میں 2 جوہری پاور پلانٹ بند کر دیئے گئے جبکہ ایک ایٹمی بجلی گھر میں
آگ لگنے سے 40 لاکھ گھر تاریکی میں ڈوب گئے۔ زلزلے سے ٹوکیو کا ریلوے نظام
بھی درہم برہم ہو گیا، سیکڑوں عمارتیں زمین بوس ہو گئیں۔اس بدترین تباہی کے
بعد اپنی مدد آپکے تحت جاپان محض ایک سال میں تعمیر نو کے مراحل طے کر کے
پہلے جیسا بن چکا تھا۔ آج وہاں مرنے والوں کی یادگاریں تو موجود ہیں لیکن
تباہی کا نام ونشان بھی نہیں ہے۔ہمارے ہاں 8 اکتوبر 2005ءکو 7-6 کی شدت کے
زلزلے نے تباہی مچا دی ۔جس سے مظفر آباد ،باغ ،راولا کوٹ اور بالا کوٹ جیسے
شہر،اردگرد کے قصبے اور دیہات صفحہ ہستی سے مٹ گئے۔ایبٹ آباد اور مانسہرہ
بھی تباہی سے دوچار ہوئے ۔ اسلام آباد میں مارگلہ ٹاور سمیت متعدد عمارتیں
گر گئیں۔جاپان جیسی شدت کا زلزلہ خدا نخواستہ پاکستان میں آیا ہوتا تو
متاثرہ علاقوں میںشاید کوئی بھی عمارت سلامت نہ رہتی۔
ادھر پاکستان میں زلزلہ آیا اُدھر حکومت نے پوری دنیا کے سامنے امداد کیلئے
ہاتھ پھیلا دیا۔ دنیا نے پاکستان کی مالی مدد کے ساتھ تعمیراتی کاموں میں
بھی حصہ لیا۔ مقامی این جی اوز اور مخیر حضرات انفردی طور پر متاثرین تک
پہنچے۔ حکومت نے مزید امداد اکٹھی کرنے کیلئے اسلام آباد میں ڈونرز کانفرنس
کا انعقاد بھی کیا ۔جتنی امداد اکٹھی ہوئی اس سے متاثرہ علاقوں کی کئی
مرتبہ بحالی ہو سکتی تھی لیکن امدادی سامان پاکستان کی مارکیٹوں میں فروخت
ہوتا ہوا نظر آیااوراربوں کی رقمیں حکمرانوں اور سول وفوجی بیوروکریٹس کے
پیٹ میں چلی گئیں۔زلزلہ زدہ علاقوں کی تعمیر نو کیلئے قائم کئے گئے ادارے
ایرا میں اربوں روپے کے گھپلے سامنے آئے۔آج اس زلزلے کو گزرے آٹھ سال ہوگئے
اس دوران سوائے مارگلہ ٹاور اور جزوی طور پر مظفر آباد کے ایک بھی شہر
تعمیر نو کے مراحل سے نہیں گزر سکا۔ نیو بالاکوٹ سٹی کا منصوبہ ہنوز شروع
نہ ہوسکا۔تعلیمی ادارے اور ہسپتال بدستور ملبے کا ڈھیر ہیں۔ترکی، متحدہ عرب
امارات اور سعودی عرب جیسے ممالک نے جو عارضی گھر بنا کر دئیے شاید وہی
زلزلہ زدگان کا مقدر رہیں۔
2005ءکے زلزلے حکمرانو ں اور بیوروکریٹس نے اپنی تجوریوں کو حرام کے پیسے
سے بھرنے کے سوا کچھ بھی نہیں سیکھا۔24 ستمبر کو بلوچستان میں کشمیر کے
مقابلے میں زیادہ شدت یعنی 7-8کا زلزلہ آیا ۔تین اضلاع متاثر ہوئے، سب سے
زیادہ تباہی آواران میں ہوئی ۔ آبادیوں کے دور دور ہونے کے باعث 2005ءمیں
ہونیوالی ایک لاکھ ہلاکتوں کے مقابلے میں جہاں ایک ہزار کے لگ بھگ لوگ جاں
بحق ہوئے۔ وزیر اعلیٰ بلوچستان کیمطابق متاثرہ خاندانوں کی تعداد 25ہزار
جبکہ تین لاکھ افراد بے گھر ہوئے۔ یہ کوئی بڑی تعداد نہیں ہے لیکن مس
مینجمنٹ ، ذمہ داروں کی نا اہلی اور امدای رقوم پر بُری نظروں کے باعث انکو
سنبھالنا بھی ناممکن ہورہا ہے۔ مرکزی حکومت وسائل مہیا کر سکتی ہے لیکن
ایسا ہو نہیں رہا۔ اب عالمی اداروں سے تو اپیل نہیں کی کی گئی لیکن کوئی
اپنی مرضی سے کارِ خیر میں حصہ لے تو بصد شکریہ قبل کیا جا رہا ہے ، جیسا
کہ سعودی عرب کررہا ہے ۔ قومی حکومت نے ایک فنڈ ضرور قائم کردیا گیا ہے ۔
حکومت کے عدم دلچسپی کی وجہ سے جہاں این جی اوز ایک مرتبہ پھر سرگرم ہیں۔
ان سے بھی زیادہ دہشت گردوں کی انسانیت سوز سرگرمیاں نظر آرہی ہیں جو
امدادی قافلوں اور امدادی کاروائیوں میں مصروف پاک فوج کے جوانوں کو نشانہ
بنا رہے ہیں۔پاکستان میں ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے نام سے ایک ادارہ
بنایا گیا تھا جس کی ہر سانحہ میں کارکردگی مایوس کن رہی۔اس سے پنڈی میں
میریٹ ہوٹل کی آتشزدگی پر قابو پایا جاسکا نہ یہ لاہور میں شاہ عالمی
مارکیٹ کی بلڈنگوں اور ایل ڈے اے پلازہ میں لگی آگ بجھا سکے۔اس کا قیام صرف
کھلے میدان کے حادثات سے نمٹنا ہی نہیں ہے ۔ آج کشمیر اور شمالی علاقہ جات
کے زلزلے کو آٹھ سال بیت گئے ، اس موقع پر ہمیں اپنی کوتاہیوں کا جائزہ لے
کر انکی اصلاح کرنا ہوگی اور حکومت کو دونوں زلزلوں کے متاثرین کی بحالی
کیلئے نئے عزم و ارادے کیساتھ دستیاب وسائل جو کم نہیں ہیں ، پوری
ایمانداری کیساتھ بروئے کارلانا ہونگے۔خدا نہ کرے ایسا بُرا وقت کسی پر بھی
آئے مگر اس سے کوئی بھی دوچار ہوسکتا ہے وہ بھی جن کے بنکوں میں زلزلہ
متاثرین کی امداد کی رقمیں جمع ہو گئیں۔زلزلوں کی مزید ممکنہ تباہی سے بچنے
کیلئے ہمیں جاپان کو رول ماڈل بنانا ہوگا۔ان سے سیکھیں کہ ان کی عمارتیں
جھولتی ہیں تاہم گرنے سے بچ جاتی ہیں۔ایرا اور این ڈی ایم اے کی کارکردگی
کو بھی بہتر بنانا ہوگا۔
کالم نگار | محمد یاسین وٹو....گردش افلاک |