حکومتی مذاکراتی لچک اور طالبانی دہشت گردی کب تک؟

احمد جہانگیر

پاکستان میں سامنے آنے والے طالبان نے اپنے ہی ملک کی فوج اور عوام کو اپنا ہدف کیوں بنا لیا؟ ان گروپوں کو اپنے ساتھ کام کرنے اجازت کیوں دی جو مسلک اور فرقے کی بنیاد پر پاکستانیوں کا خون بہاتے ہیں۔ مانا کہ امریکہ نے ڈرون حملے کیے۔ تسلیم کہ پاکستانی فوج نے ان طالبان کے خلاف جنگ لڑی لیکن پاکستان کے بے گناہ عوام نے ان کا کیا بگاڑا تھا۔ وہ ٹھیلے والے والے مزدور جو قصہ خوانی بازار حملے میں مارے گئے یا دیگر خودکش دھماکوں کی نذر ہوئے۔ انہوں نے طالبان کے خلاف کیا سازش کی تھی کہ انہیں بے موت مار دیا گیا؟۔ وہ تو غریب مسکین تھے اور ان کی ساری تگ و تاز کا محور ان کے وہ گھرانے تھے جن کا پیٹ پالنے کے لئے وہ غریب ان مقامات پر موجود تھے جہاں طالبان نے خودکش اور ریموٹ کنٹرول دھماکے کیے۔

جہاں تک مذاکرات کا سوال ہے تو ہم اس حد تک تو اس کے قائل ہیں کہ ہر مسئلہ بات چیت کے ذریعے حل ہوسکتا ہے لیکن یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ حکومت طالبان کے کون سے گروپ سے مذاکرات کرے گی؟ ان میں ایک گروپ ایسا ہے جس کی اولین ترجیح پاک فوج پر حملے کرنا ہے۔ ایک گروپ دوسرے گروپ کی اولین ترجیح اہل تشیع کو قتل کرنا ہے۔ ایک گروپ بریلویوں کو نشانہ بناتا ہے جبکہ ایک بے گناہ پاکستانی عوام کو قتل کرکے خوش ہوتا ہے۔ ایسے گروپ بھی ہیں جو لوٹ مار پر یقین رکھتے اور اغواء برائے تاوان کی وارداتیں کرتے ہیں۔ لہٰذا کیا یہ ممکن ہوگا کہ حکیم اﷲ محسود ان تمام گروپوں کو متشددانہ کارروائیوں سے روک سکیں اور یہ سب ان کی اطاعت کرتے ہوئے اس بات کو منظور کرلیں کہ حکیم اﷲ مذاکرات میں جو کچھ طے کریں گے یہ سب انہیں من و عن تسلیم کریں گے؟۔

گزشتہ ماہ حکومت کی طلب کردہ آل پارٹیز کانفرنس میں ایک مشترکہ اعلامیہ کے تحت بغیر کسی شرط کے طالبان سے مذاکرات کا طے کیا گیا تو اسکے بعد طالبان کے رویے اور طرزعمل میں واضح تبدیلی اور مذاکرات کیلئے آمادگی کا عندیہ ملنا چاہئے تھا مگر اسکے برعکس کالعدم تحریک طالبان کی جانب سے نہ صرف مذاکرات کیلئے سخت ترین شرائط پیش کرکے مذاکرات کی حکومتی پیشکش پر سردمہری کا مظاہرہ کیا گیااور عملاً اس پیشکش کو قبول نہ کرنے کا عندیہ دیا گیا بلکہ صوبہ خیبر پی کے اور ملک کے دیگر علاقوں میں دہشت گردی کی وارداتوں میں بھی شدت پیدا کردی گئی۔ اس کا مقصد بھی یہی پیغام دینا تھا کہ طالبان اپنے ایجنڈے کے برعکس کوئی بات ماننے کو تیار نہیں جبکہ ان کا ایجنڈہ حکومتی ریاستی اتھارٹی کو چیلنج کرکے جمہوریت کو ناکام اور ملک کی سلامتی کو کمزور بنانے کا ہے جس پر وہ کم و بیش گزشتہ دس سال سے عمل پیرا ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ یہ دہشت گرد عناصر اپنے ہمدرد و سرپرست علماکرام کو بھی خاطر میں نہیں لا رہے جنہوں نے ہاتھ جوڑ کر ان سے اپیل کی کہ وہ دہشت گردی کا سلسلہ ترک کرکے حکومت کی مذاکرات کی پیشکش قبول کریں۔ اب سنی اتحاد کونسل کے پلیٹ فارم پر ڈیڑھ سو جیدعلماکرام کی جانب سے بھی طالبان سے کہا گیا ہے کہ وہ اﷲ کے سامنے سر جھکا کر غیرمسلح ہونے کا اعلان کریں بے گناہوں کا خون بہانا بند کریں اور ڈرون حملوں کو دہشت گردی کا جواز نہ بنائیں مگر طالبان کی جانب سے اپنے ہمدرد علماکرام کی اس اپیل کا جواب بھی گزشتہ روز ہنگو میں حکومت پاکستان سے مذاکرات کے حامی طالبان گروپ کے لیڈر کمانڈر ملا نبی کے مرکز پر خودکش حملہ کرکے دیا گیا۔ دہشت گردی کی اس واردات میں17 بے گناہ انسانوں کی جانیں ضائع ہوئیں اور خواتین اور بچوں سمیت 22 افراد زخمی ہوئے۔ یہ خودکش حملہ اتنی شدید نوعیت کا تھا کہ علاقہ کے لوگوں کو اس پر زلزلے کا گمان ہوا جبکہ اس حملے میں ملانبی خود بھی زخمی ہوئے۔

اگر طالبان خود ہی مذاکرات کیلئے سنجیدہ اور مخلص نہیں اور مذاکرات شروع ہونے سے پہلے ہی انہیں سبوتاژ کرنے کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں تو حکمرانوں کو ایسی کیا مجبوری لاحق ہو گئی ہے کہ مذاکرات کے سوا انہیں دہشت گردی کے ناسور کے علاج کا کوئی طریقہ نظر نہیں آرہا۔ بالفرض اگر طالبان کے کسی ایک گروپ کے ساتھ مذاکرات کرکے اسکے ساتھ قیام امن کے دوطرفہ اقدامات کا معاہدہ کرلیا جاتا ہے تو دیگر گروپوں کو اس معاہدے کا کیسے پابند کیا جا سکے گا؟ اس سلسلہ میں کمانڈر ملانبی کے مرکز پر خودکش حملہ دہشت گردوں کے اصل عزائم کا غماز ہے کہ وہ حکومت کے ساتھ مذاکرات اور قیام امن کے حامی اپنے گروپوں کو بھی نہیں بخش رہے۔ ان سے اپنا انتہاپسندانہ ایجنڈہ ترک کرکے ہتھیار ڈالنے اور ملک کے نظام اور آئین کو تسلیم کرنے کی کیسے توقع کی جا سکتی ہے؟

Javed Bhatti
About the Author: Javed Bhatti Read More Articles by Javed Bhatti: 141 Articles with 104993 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.