اندھیروں میں روشنی کی کرن

ہندوستان اور پاکستان کے وزرائے اعظم منموہن سنگھ اور نواز شریف کی بالآخر نیویارک میں ملاقات ہوہی گئی۔ اس ملاقات کو روکنے کے لئے ہند۔پاک دوستی کے مخالفوں نے ایڑی چوٹی کا زور لگادیا تھا۔ پاکستان کے جیوٹی وی کے حامد میرنے اپنی بات بلکہ اپنی رائے کو ٹی وی پر اس طرح پیش کیا کہ بات کا بتنگڑ بنانے والے ہندوتوا دیوں نے نواز شریف پر الزام دھردیا کہ نواز شریف نے منموہن سنگھ کو دیہاتی عورت کہا ہے اور کہا کہ انہوں نے دیہاتی عورتوں کی طرح اوباما سے شکایت کی ہے۔ نریندر مودی کو تو رائی کا پربت بنانے کا موقع چاہئے ۔ا نہوں نے دہلی میں ریالی کو مخاطب کرتے ہوئے کہہ دیا کہ نواز شریف نے ہندوستانی صحافیوں کے سامنے منموہن سنگھ کو شکایت کرنے والی دیہاتی عورت کہا ہے۔ ماسوا ے ایک دو ٹی وی چینلز تقریباً تمام چینلز نے ملاقات کی مخالفت اور اسے ناکام بنانے کے لئے پروپگنڈے میں مصروف تھے۔ نریندر مودی کی غیر ذمہ دارانہ غیر مہذب اور بھڑکاؤ تقریر راست ٹیلی کاسٹ کی جارہی تھی۔ نیویارک میں سلمان خورشید نے یہ سوچا کہ اگر میں مسلمان ہوتے ہوئے پاکستان پر کوئی الزام نہ لگاؤں تو مجھ پر اعتراض ہوگا (یہ احساس کمتری ہے) لہٰذا انہوں نے پاکستانی فوج اور آئی ایس آئی کو اپنی تنقید کا نشانہ بنانا ضروری سمجھا۔ اس سے قبل خود منموہن سنگھ نے نواز شریف سے ملاقات سے قبل اپنا لہجہ اور موقف دہشت گردی کے حوالے سے سخت کرلیا تھا تاکہ بی جے پی ان کو پھر ایک مرتبہ کمزور وزیر اعظم نہ کہے۔ غرض کہ بقول ممتاز سیاسی قائد، دانشور، سابق وزیر اور سابق سفیر ہند برائے پاکستان منی شنکر ایر ہند۔پاک دوستی کے مخالف پاکستان کے دہشت گردوں اور ہندوستان کے ہندوتوا دیوں کے علاوہ کوئی نہیں ہے۔

بہر حال منموہن سنگھ اور نواز شریف کی ملاقات ہوگئی اس ملاقات کا سہرا بلاشبہ وزیر اعظم منموہن سنگھ کے سرباندھا جانا چاہئے باوجود شدید مخالفت کہ وہ اپنے موقف پر سختی سے قائم رہے۔ سنگھ پریوار اور ذرائع ابلاغ کی مخالفت کے تناظر یا ناداستہ طور پر مخالفت میں اضافے کا سبب ہوئے جبکہ انہوں نے داغداراکان پارلیمان کو تحفظ فراہم کرنے والے حکم نامے آرڈیننس پر شدید تنقید کرتے ہوئے اسے بکواس قرار دے کر اپنی ہی حکومت کی مذمت کی اور بیرون ملک اہم دورے میں مصروف منموہن سنگھ کو پشیمانی سے دوچار کیا گوکہ راہول کا بیان ایک علاحدہ موضوع ہے لیکن اس موضع پر اتنا ضرور کہا جاسکتا ہے کہ راہول کی بات کتنی ہی صحیح سہی لیکن اس کو مناسب انداز میں صحیح وقت اور سلیقے سے نہیں کہا گیا تھا۔ ایک طرف ملک کا وزیر اعظم جنرل اسمبلی کو مخاطب کرنے اور پڑوسی ملک کے اپنے ہم منصب سے اہم ملاقات کی تیاری کررہا ہو دوسری طرف اپنے ہی ملک میں وزیر اعظم سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا جارہا ہے۔ راہول گاندھی نے بی جے پی کو ایک بار پھر وزیر اعظم مستعفی ہونے کے مطالبہ کا موقع فراہم کیا ہے۔ اور خود کو تدبر سے عاری ظاہر کیا۔

ہند۔پاک تعلقات میں آزادی کے بعد سے ہی تلخی زیادہ رہی ہے اور خوش گوار تعلقات کے ادوار مختصر رہے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دونوں ہی ملکوں کی حکومتیں امن و سلامتی اور خوش گوار تعلقات کے قیام کے سلسلے میں مخلص رہی ہوں نہ رہی ہوں لیکن اکثر و بیشتر اندرونی اور بیرونی دباؤ کا شکار ضرور رہی ہیں مثلا آج کل حکومت ہند پر ہندوتوا کے علمبرداروں کا دباؤ ہے کہ پاکستان سے بات چیت ہی نہ کی جائے تو دوسری طرف نواز شریف ہندوستان سے تعلقات بہتر بنانے کے لئے کوشاں ضرور نظرآتے ہیں لیکن دراصل وہ اس احمقانہ کوشش میں مصروف ہیں کہ یہ ثابت کریں کہ پاک تعلقات کو بہتر بنانے کے لئے صرف وہی کچھ کرسکتے ہیں۔ اپنی برطرفی 1999ء تک جو کچھ کیا گیا تھا وہ انہوں نے ہی کیا تھا بلکہ انہوں نے یہاں تک بڑہانک دی کہ ان کو ہندوستان سے تعلقات بہتر بنانے کی کوششوں کی سزا میں اقتدار سے محروم کیا گیا تھا۔ یہ بات نواز شریف کی خودستائی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ ہندوستان میں اٹل بہاری واجپائی اور جنرل پرویز مشرف سے زیادہ مخلص شائد ہی کوئی اور ہو بلکہ کچھ کردکھانے کا جذبہ جتنا ان دونوں میں تھا شائد ہی دونوں ملکوں میں کسی اور میں رہا ہو۔ مشرف کو ان کے آخری دور میں ان کے ملک کی داخلی صورت حال نے کچھ کرنے نہیں دیا ۔ واجپائی کو خود ان کی پارٹی بی جے پی نے زیادہ آگے بڑھنے نہیں دیا۔ آگرہ میں اڈوانی اور سشما سوراج نے واجپائی ، مشرف مذاکرات کو ناکام بنانے میں جو منفی رول ادا کیا تھا وہ مورخ معاف نہیں کرے گا۔ یو پی اے یا منموہن سنگھ حکومت نے سنگھ پریوار کے دباؤ اور خوف کے علاوہ کانگریس میں نرم ہندتوا کے نظریہ کے قائل اہم قائدین نے جس طرح گجرات میں مسلمانوں کے قتل عام کے سرپرست اعلیٰ مودی کے خلاف کوئی کارروائی ہونے نہیں دی اسی طرح پاکستان سے تعلقات بہتر بنانے میں جنر ل مشرف سے تعاون نہ ہوسکا بعد وہ خود مجبور ہوگئے تھے۔

پاکستان میں بھی ایک ایسا اہم اور بااثر گروپ لازماً ابتداء سے ہی سرگرم عمل رہا ہے جو کبھی بھی صرف اپنے مفادات کی خاطر ہندوستان سے خوش گوار تعلقات کو پسند نہیں کرتا تھا اور اس گروپ جس میں سیاستداں مذہبی قائدین افواج کے اعلیٰ افسران بہ شمول آئی ایس آئی اور انتظامیہ کے اعلیٰ افسران بیورو کریسی شامل رہے ہیں 26/11 کے دہشت گردانہ حملے میں بھلے ہی حکومت پاکستان ملوث نہیں رہی ہو لیکن مذکورہ بالا گروپ کے ذریعہ ہی سی آئی اے (امریکہ اور موساد اسرائیل )کے ایجنٹ ڈیوڈ ہیڈلی نے قصاب گروپ کی خدمات حاصل کیں ظاہر ہے کہ لکھوی اور حافظ سعید وغیرہ اس گروپ سے وابستہ رہے ہوں گے (یو حیرت انگیز بات ہے کہ حکومت ہند اس سنگین معاملے میں ہیڈلی کے رول کی اہمیت کو نظر انداز کررہی ہے!)

ٹی وی مذاکرات میں بعض اہم ربٹائرڈ فوجی افسران اور سفارت کار جس ذہنیت اور رویہ کااظہار کرتے ہیں اس سے بڑی آسانی سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ دونوں ملکوں کے تعلقا ت بگڑنے اور تلخ و ناخوش گوار ہونے میں اس قسم کے افراد نے کیا رول ادا کیا ہوگا۔ نیز تمام سفارت کار بھی اگر منی شنکر ایر جیسے ہوتے تو ہند۔پاک تعلقات کی کہانی شائد اتنی تلخ، اور متنازعہ نہ ہوتی!

ہند۔پاک تعلقات میں اس وقت جبکہ ٹی وی کا وجود نہ تھا اخبارات اور دونوں ملکوں کے سرکاری ریڈیو اسٹیشنوں نے اتنا منفی رول ادا نہیں کیا تھا جنتا کہ دونوں ملکوں کے ٹی وی چینلز آج کل کررہے ہیں۔ پاکستان کے ٹی وی چینلز کے بارے میں ہم زیادہ نہیں جانتے ہیں تاہم منموہن سنگھ اور نواز شریف کی ملاقات سے قبل جیوٹی وی کے حامد میر کی مذکورہ بالا حرکت سے خاصی حدتک اندازہ لگایا جاسکتا ہے تاہم پاکستان کے اخبارات میں بیشتر کا رویہ ہندوستان کے تئیں خاصہ جارحانہ رہتا ہے۔ جس کا ردِعمل ہندوستان میں ہوتا ہے۔

پاکستانی میڈیا کے رویہ کے قطع نظر ہم کو اپنے بھی گریبان میں جھانکنا چاہئے۔ ہندپاک تعلقات پر گزشتہ دس بارہ سال سے میڈیا خاص طور پر ٹی وی چینلز خاصی حدتک اثر انداز ہوتے ہیں جس طرح پولیس کے ہاتھوں پکڑے جانے والے معصوم و مظلوم نوجوانوں کی مفروضہ، من گھڑت اور بے سروپا تذکروں کو عام طور پر ناظرین حقیقی مان کر مسلمانوں کو دہشت گرد سمجھتے ہیں اسی طرح ہندوستان کو پاکستان سے دور رکھنے کے لئے جس قسم کا پروپگنڈہ ٹی وی چینلز پر ہوتا ہے وہ بلاشبہ عوام کے ذہنوں پر اثر انداز ہوتا ہے بلکہ ماضی میں بھی ہوتا رہا ہے اور یہ کھلی بات ہے کہ ہمارے بیشتر ٹی وی چینلز یا تو سنگھ پریوار کے مستقلاً زیر اثر ہیں یا وقتی طور پر ہندوتوادیوں کی مرضی کے مطابق کام کرتے ہیں جیسے آج کل مودی کی ٹی وی چینلز پر جس طرح مودی کی پبلسٹی ہورہی ہے وہ سب کے آگے ہیں۔ اسی طرح جب بھی ہندپاک تعلقات میں بہتری کی امید ہوتی ہے تو اگر پاکستان میں حافظ سعید کوئی کارگزاری دکھاتے ہیں تو ان کے کام یا مقصد کو آگے بڑھانے یا پورا کرنے کا کام ہندوستان میں ہوجاتا ہے۔ ہندپاک گفتگو میں رکاوٹیں پیدا کرنے کا کام دونوں ملکوں کے وہ عناصر جو ہندپاک دوستی کے مخالف ہیں مل جل کر کرتے رہتے ہیں اور کمال کی بات یہ ہے کہ ہم ہندوستان میں آئی ایس آئی، حافظ سعید اور پاکستانی افواج کو موردِ الزام ٹھہراتے ہیں تو سرحد کے پار ہندوستان کے الزامات اور پروپگنڈے کو پاکستان سے ہندوستان کی دشمنی قرار دیا جاتا ہے اس طرح دونوں ملکوں میں ایک دوسرے کے خلاف اشتعال پیدا کرنے کا کام بڑی خوبی سے انجام پاتا ہے۔ عام طور پر ہمارے ٹی وی چینلز کا شور و غل نمایاں ہوجاتا ہے مثال کے طور پر حامد میر کے حوالے سے منموہن سنگھ پر دیہاتی عورت کی پھبتی کو مودی نے اڑے اور مودی کی ناشائستہ باتوں پر ہمارے ٹی وی چینلز ٹوٹ بڑے اور مودی کے جملے بار بار دکھاکر مخالف پاکستان ماحول پیدا کیا گیا ۔ نواز شریف سے منموہن سنگھ کی ملاقات سے گھنٹہ آدھا گھنٹہ قبل نہ صرف ہمارے وزیر اعظم بلکہ نواز شریف پر بھی تنقید کرتے ہوئے مودی کو بار بار دکھایا جارہا تھا۔ یہ واہیات ، بے بنیاد اور بے جواز پروپگنڈہ ملک کے کیا کام آیا؟ ہم نے کیا فائدہ اٹھایا؟ ہم اسی لئے کہے رہے ہیں کہ میڈیا کی پرواز غلط سمت میں جارہی ہے۔ اسی لئے اس کے پرکترنا چاہئے ۔ آزادی اظہار رائے کے نام پر میڈیا کو ملک دشمن نہ سہی ملک کو نقصان پہنچانے والی حرکتوں سے باز رکھنے کے لئے کچھ پابندیوں کی ضرورت ہے۔

ہند۔پاک تعلقات کے سلسلے میں ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ بی جے پی جب اقتدار میں ہوتی ہے تو پاکستان سے دوستی کرنا چاہتی ہے۔ سرحدات پر فوجیں لگاکر واجپائی نے افواج کو واپس بلاکر پاکستان کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا تھا لیکن حزب اختلاف میں ہوتی ہے تو پاکستان سے دوستی کی بات تک سننا پسند نہیں کرتی ہے۔ چنانچہ یو پی اے دورِ حکومت میں یہی کرتی آئی ہے۔

منموہن سنگھ اور نواز شریف کی ملاقات گوکہ بظاہر کسی خاص یا اہم نتیجہ کی حامل نہیں رہی۔ عام سی باتوں پر اتفاق ہوا کوئی اہم فیصلہ نہیں ہوا اسی واسطے پارتھا سارتھی، کنول سبل اور کے سی سنگھ اورجنرل ملک اور جنرل پرساد وغیرہ قسم کے غیر سیاستداں سفارت کار اور جنرلوں نے ملاقات کو غیر مفید بتایا لیکن یہ ملاقات بہر حال اہم یوں رہی ہے کہ ایک ٹوٹا ہوا سلسلہ پھر شروع ہوا ہے ۔ رابطہ بحال ہونے کی صورت نکلی ہے حکومت ہند کی مجبوری یہ ہے کہ آئندہ سال اسے پارلیمانی انتخابات کے مرحلے سے گزرنا ہے۔ پاکستان سے نرمی برت کر وہ بی جے پی کو پاکستان کے خلاف کمزوری دکھانے کے اعتراض کا موقع نہیں دینا چاہتی ہے۔ فی الحال اندھیروں میں روشنی کی یہ کرن ہی بہت ہے۔ کہیں بہار کے امکان تو پیدا ہوئے ہیں ۔منموہن سنگھ کی ہمت کو خراج تحسین پیش نہ کرنا زیادتی ہوگی اور ساتھ اس بات کا اندازہ ہوگیا ہے کہ اگر اﷲ نہ کرے مودی وزیر اعظم بنتے ہیں تو وہ کس قسم کے وزیر اعظم ہوں گے؟ امید ہے کہ انتخابات کی مجبوریوں کے باوجود منموہن سنگھ استقامت اور نواز شریف اپنے عزائم میں مخلص ہونے کا ثبوت دیں گے!

Rasheed Ansari
About the Author: Rasheed Ansari Read More Articles by Rasheed Ansari: 211 Articles with 184944 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.