’’اٹوٹ انگ ،شہ رگ ،قائداعظم ؒ کشمیر اور پرنسپل ‘‘

حضرت مولانا محمد یوسف کاندھلوی ؒ اپنی تصنیف حیات الصحابہ ؓ میں لکھتے ہیں کہ حضرت قیس بن حجاج اپنے استاد سے نقل کرتے ہیں کہ حضرت عمر بن عاصؓ نے جب مصر فتح کر لیا تو مہینوں میں سے بونہ مہینے کے شروع ہونے پر مصر والے ان کے پاس آئے اور کہا امیر صاحب ! ہمارے اس دریائے نیل کی ایک عادت ہے جس کے بغیر یہ چلتا نہیں ۔حضرت عمر و ؓ نے ان سے پوچھا وہ عادت کیا ہے ؟انہوں نے کہا جب اس مہینے کی بارہ راتیں گزرجاتی ہیں تو ہم ایسی کنواری لڑکی کو تلاش کرتے ہیں جو اپنے والدین کی اکلوتی لڑکی ہوتی ہے اس کے والدین کو راضی کرتے ہیں اور اسے سب سے اچھے کپڑے اور زیور پہنا کر اسے دریائے نیل میں ڈال دیتے ہیں ۔حضرت عمروؓ نے کہا یہ کام اسلام میں تو ہو نہیں سکتا کیونکہ اسلام اپنے سے پہلے کے تمام (غلط )طریقے ختم کر دیتا ہے چنانچہ مصر والے بونہ ،ابیب اور مسری تین مہینے ٹھہرے رہے اور آہستہ آہستہ دریا نیل کا پانی بالکل ختم ہو گیا یہ دیکھ کر مصر والوں نے مصر چھوڑ کر کہیں اور جانے کا ارادہ کیا ۔جب حضرت عمرؓ نے دیکھا تو انہوں نے اس بارے میں حضرت عمر بن خطاب ؓ کو خط لکھا ۔حضر ت عمر ؓ نے جواب میں لکھا آپ نے بالکل ٹھیک کیا بے شک اسلام اپنے سے پہلے کے تمام غلط طریقے ختم کر دیتا ہے میں آپ کو ایک پرچہ بھیج رہا ہوں جب آپ کو میرا خط ملے تو آپ میرا وہ پرچہ دریائے نیل میں ڈال دیں جب خط حضر ت عمر وؓ کے پاس پہنچا توا نہوں نے وہ پرچہ کھولا اس میں یہ لکھا ہوا تھا ۔
’’ اﷲ کے بندے امیر المومنین عمر ؓکی طرف سے مصر کے دریائے نیل کے نام ۔امابعد !اگر تم اپنے پاس سے چلتے ہوتو مت چلو اور اگر تمہیں اﷲ واحد قہا ر چلاتے ہیں تو ہم اﷲ واحد قہار سے سوال کرتے ہیں کہ وہ تجھے چلا دے ۔‘‘
چنانچہ حضرت عمر و ؓ نے صلیب کے دن سے ایک دن پہلے یہ پرچہ دریائے نیل میں ڈالا ادھر مصر والے مصر سے جانے کی تیاری کر چکے تھے کیونکہ ان کی ساری معیشت اور زراعت کا انحصار دریائے نیل کے پانی پر تھا صلیب کے دن صبح لوگوں نے دیکھا کہ دریائے نیل میں سولہ ہاتھ پانی چل رہا ہے اس طرح اﷲ تعالیٰ نے مصر والوں کی اس بڑی رسم کو ختم کر دیا ۔

قارئین آج کے کالم کے دون حصے ہیں آئیے چلتے ہیں کالم کے پہلے حصے کی جانب ۔ضلع اٹھمقام آج سے چودہ سال قبل ایک تحصیل تھا 1999میں جب پاکستان میں جمہوری حکومت کی بساط لپیٹی جا چکی تھی اور میاں محمد نواز شریف قائد مسلم لیگ ن کو دو تہائی اکثریت سمیت کمانڈو جنرل پرویز مشرف پابند سلاسل کرتے ہوئے اقتدار پر قابض ہو چکے تھے یہ واقعہ ان دنوں کا ہے ۔پاکستان کے بڑے بڑے تجزیہ نگار کتابوں میں یہ بات تحریر کر چکے ہیں کہ جنرل پرویز مشر ف کا اقتدار پر قابض ہونا اس خوف کی وجہ سے تھا جو کارگل پر بغیر کسی اجازت ،اطلاع یا اعلان کے چھیڑی جانے والی خوفناک جنگ پر احتساب کی صور ت میں ایک لٹکتی ہوئی تلوار کی طرح جنرل پرویز مشرف کے اعصاب پر سوار تھا ۔1999 ہی کا وہ ایک دن تھا کہ جو راجہ ظہیر کے لیے ایک قیامت بن کر طلوع ہوا ۔وادی نیلم کے گاؤں نیلم کے بالکل سامنے کی پہاڑی چوٹیاں ’’ کیرن‘‘کے نام سے بھارتی مقبوضہ کشمیر کا حصہ ہیں ۔جنرل پرویز مشرف کی طر ف سے ’’ مجاہدین ‘‘کے نام پر چھیڑی جانے والی غیر اعلانیہ جنگ اور اس کے بعد پاکستان میں انہی عزت مآب جنرل صاحب کا اقتدار پر قابض ہونا بھارت کے لیے جھنجھلاہٹ کا سبب بننا ہوا تھا اور اس روز بھارت کی طرف سے اچانک ہی دنیا کے اس خوبصورت ترین سیاحتی مقام پر فائرنگ شروع کر دی گئی اور بھارتی فوج کی طرف سے میزائل داغا گیا ۔یہ میزائل راجہ ظہیر کے گھر کے سامنے آ کر گرا اور دیکھتے ہی دیکھتے پورا گاؤں تباہی کا نقشہ پیش کرنے لگا ۔راجہ ظہیر کی ٹانگ کٹ کر جسم سے علیحدہ ہو گئی اس کے نو عزیز رشتہ دار شہید ہو گئے اور والد سمیت اہل خانہ بڑی تعداد میں زخمی ہوئے ۔راجہ ظہیر کو فوری طور پر مظفرآباد سی ایم ایچ پہنچایا گیا اور اس کی جسم سے علیحدہ ہونے والی ٹانگ بھی ڈاکٹر کو مہیا کی گئی لیکن سرجن نے بتا دیا کہ راجہ ظہیر عمر بھر کے لیے ایک ٹانگ سے محروم ہو چکا ہے اور تن سے جدا ہونے والی ٹانگ دوبارہ جسم کے ساتھ نہیں لگا ئی جا سکتی ۔پاکستان کے الیکٹرونک میڈیا نے بھارت کی طر ف سے کی جانی والی ننگی جارحیت کی کوریج شروع کی او ر آٹھویں کلاس کے طالب علم راجہ ظہیر پر جب کیمرہ آ کر رکا تو پندرہ سالہ خوبصورت کم سن بچے نے جب معصومیت کے ساتھ اپنی جان پر گزرنے والے حادثے پر بات کی تو اتفاق سے پاکستان پیپلز پارٹی کی قائد محترمہ بے نظیر بھٹو شہید لاہور میں اپنی رہائش گا ہ پر نشریات دیکھ رہی تھیں بے نظیر بھٹو اپنے جذبات پر قابو نہ پا سکیں اور پر نم آنکھوں کے ساتھ انہوں نے آزادکشمیر میں اپنی جماعت پیپلزپارٹی کی قائم شدہ حکومت کے منتخب وزیراعظم بیرسٹر سلطان محمود چوہدری سے رابطہ کرتے ہوئے اپنی اس خواہش کا اظہار کیا کہ وہ اس معصوم بچے راجہ ظہیر اور اس کے اہلخانہ سے ملاقات کرنا چاہتی ہیں ۔محترمہ بے نظیر بھٹو شہید ا س بچے سے آ کر ملیں اور انہوں نے اپنی ذاتی جیب سے راجہ ظہیر کو پچاس ہزار روپے دینے کے ساتھ ساتھ آزادکشمیر حکومت کی ذمہ داری لگائی کہ چونکہ راجہ ظہیر کے والد راجہ بابر خان بھی معذور ہو چکے ہیں اور ان کی ایک ٹانگ بھی چلنے پھرنے کے لائق نہیں رہی اور ان کی دوکان جو نیلم بازار میں واقع تھی وہ بھی فائرنگ کی وجہ سے جل چکی ہے اس خاندان کی مالی امداد کرنے کے لیے مظفرآباد میں انہیں دو کنال زمین الاٹ کی جائے ۔یہاں ہم آپ کو بتاتے ہوئے چلیں کہ راجہ ظہیر اپنے سات بہن بھائیوں میں سب سے بڑا تھا ۔1999سے لے کر آج 2013تک راجہ ظہیر کی یہ درخواست محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کے خون کی برکت سے بر سر اقتدار آنے والے وفاقی وزراء اور آزادکشمیر حکومت کے مختلف دروازوں پر دستک دیتے دیتے تھک ہار کر ’’ انصار نامہ ‘‘کی دہلیز پر آ کر سستا رہی تھی کہ راقم کی نظر اس پر پڑ گئی ۔اس وقت آزادکشمیر میں بقول خود چوہدری عبدالمجید محترمہ بے نظیر بھٹو شہید اور ذوالفقار علی بھٹو شہید کے مزاروں کے مجاوروں کی حکومت ہے ۔اگر بیرسٹر سلطان محمود چوہدری کے دور وزارت عظمیٰ میں بی بی شہید کی طرف سے کیا گیا وعدہ پورا نہیں ہو سکا تو ہم چوہدری عبدالمجید سے امید رکھتے ہیں کہ دھوپ اور چھاؤں کے سایوں کی طرح آنے اور جانے والے بے وقعت اقتدار کے ان لمحات کو غنیمت جانتے ہوئے وہ اس معذور لیکن خوددار نوجوان راجہ ظہیر اور اس کے خاندان کے ساتھ کیے جانے والے اپنی عظیم قائد بی بی شہید کے وعدے کو پورا کریں ۔یہاں ہم یہ بھی بتاتے چلیں کہ آزادکشمیر کے سابق وزیراعظم اور پاکستان مسلم لیگ ن آزادکشمیر کے صدر راجہ فاروق حیدر خان اس خاندان کو بہت اچھی طرح جانتے ہیں اور راجہ ظہیر پر گزرنے والی قیامت سے آگاہ و آشنا ہیں ۔یہ علیحدہ بات ہے کہ راجہ ظہیر اور ان کا خاندان ’’ بمبے راجپوت ‘‘ ہیں اور عزت مآب سابق وزیراعظم راجہ فاروق حیدر خان ’’کھکے راجپوت ‘‘ ہیں ۔ذات پات اور برادری ازم کی تقسیم میں الجھے کشمیر میں شاید وہ وقت بہت عرصے بعد آئے گا کہ جب یہاں کا انسانی ذہن اس حد تک ترقی کر لے گا کہ انسان کو اس کے کردار اور اعمال سے جانچا جائے گا نہ کہ اس کی ذات اور برادری سے کہ جس کے انتخاب میں اس انسا ن کا اپنا کوئی بھی کردار نہیں ہوتا ۔راجہ فاروق حیدر خان سے بھی ہم امید رکھتے ہیں کہ وہ میاں محمد نواز شریف وزیراعظم پاکستان اور برجیس طاہر وزیر امور کشمیر سے راجہ ظہیر کی اس بدحالی کا ذکر ضرور کریں گے اور اس خاندان کی مدد کے لیے دو کنال زمین ضرور فراہم کریں گے ۔

قارئین آئیے اب چلتے ہیں کالم کے دوسرے حصے کی جانب ۔گزشتہ دنوں بھارت کی جانب سے بھارت کے وزیراعظم من موہن سنگھ جی نے اقوام متحدہ میں خطاب کرتے ہوئے کشمیر کو اٹوٹ انگ قرار دیتے ہوئے پاکستان کو مورد الزام ٹھہرایا کہ پاکستان بھارت میں دہشت گردی کو ایکسپورٹ کررہا ہے اس بھارتی موقف پر پاکستان بھر میں احتجاج ہوا اور گزشتہ ہفتے آزادکشمیر اسمبلی کی طرف سے بھی ایک متفقہ قرار داد پاس کی گئی جس کا یک سطری ترجمہ یا متن کچھ یوں ہے کہ
’’ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے ‘‘

یہاں پر ہم آپ تمام پڑھنے والوں کی توجہ اور یاداشت اپنے ایک گزشتہ کالم ’’ قائدا عظم ؒ۔۔۔ پرنسپل گورنمنٹ کالج میرپو رکے کٹہرے میں ‘‘ کی طرف مرکوز کرانا چاہیں گے اس کالم میں ہم نے اس بات پر خون کے آنسوؤں کے ساتھ یہ حقیقت آپ کے سامنے آشکار کی تھی کہ خطہ آزادکشمیر کے اہم ترین تعلیمی ادارے گورنمنٹ کالج میرپور میں تعینات پرنسپل ڈاکٹر محمد عارف خان کی جانب سے کالج ہی میں منعقدہ ایک انتہائی اہم تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کی جانے والی گفتگو انتہائی زہریلی ،دل شکن اور حقائق کے منافی تھی ڈاکٹر عارف نے قائداعظم محمد علی جناح ؒ کے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ اور پاکستان کی زندگی اور موت کا سوال قرار دینے والی بات کی انتہائی تمسخر آمیز انداز میں جھٹلاتے ہوئے تحریک پاکستان کے سپاہی گورنمنٹ کالج لاہور کے سابق پرنسپل بین الاقوامی سکالر ڈاکٹر فتح محمد ملک کی موجودگی میں یہ بات کہی کہ ان کی چالیس سالہ ریسرچ کے مطابق قائداعظم نے کبھی بھی کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار نہیں دیا ۔یہ کالم تحریر کرنے کے بعد ہمیں ہزاروں دوستوں اور پڑھنے والوں نے رابطہ کیا اور ڈاکٹر محمد عارف کی طر ف سے ریسرچ کے نام پر قائداعظم محمد علی جناحؒ کو جھٹلانے اور کشمیر اور پاکستان کے رشتوں کو کاٹنے کے مترادف کی جانے والی حرکت پر اپنی تشویش سے آگاہ کیا ۔ہمارے چند مخلص دوستوں نے ہم سے وہ حوالہ جات بھی پیش کر دینے کی فرمائش کی کہ جن کے مطابق قائد اعظم محمد علی جناح ؒ کشمیر کو پاکستان کے لیے ناگزیر قرار دیتے ہوئے شہ رگ کہتے ہیں یا کشمیر کو پاکستان کی بقاء کا مسئلہ قرار دیتے ہیں یہاں ہم بیسیوں حوالہ جات میں سے چند ریفرنسز نقل کیے دیتے ہیں

۱۔انسائیکلو پیڈیا قائداعظم صفحہ 595مرتبہ زاہد حسین ناشر مقبول اکیڈمی لاہور 1991۔
۲۔ کشمیر ہمارا ،صفحہ 294سے لے کر 300میر غلام احمد کشفی ،کلاسک پبلشرز ،دی مال روڈ لاہور ،اگست 1963
۳۔ کشمیر آزادی کی دہلیز پر صفحہ 223,224غلام احمد پنڈت ،ناشر جنگ پبلشرز ،1991
۴۔قائداعظم ؒ ماہ و سال ،صفحہ 322،محمد علی چراغ ،سنگ میل پبلیکیشنز لاہو ر1986
۵۔بھٹو ضیاء او رمیں، صفحہ نمبر 265،فیض علی چشتی ،جنگ پبلشرز ،1991،
سمیت ایسی بیسیوں دستاویزات موجود ہیں جن میں قائداعظم محمد علی جناح ؒ کشمیر کو پاکستان کی زندگی اور موت کا مسئلہ قرار دیتے ہیں ،کشمیر کو پاکستان کی بقاء کے لیے ناگزیر سمجھتے ہیں ،کشمیر کو پاکستان کی ’’لائف لائن یا شہ رگ ‘‘کہتے ہوئے اس مسئلے پر اپنی پریشانی ظاہر کرتے ہیں ۔1906سے لے کر 1948تک قائداعظم ؒ کی اپنی ہاتھ سے لکھی گئی تحریریں بھی موجود ہیں ان تحریروں میں بھی چودہ سے زائد دستاویزات ایسے ہیں جن میں قائداعظم محمد علی جناح ؒ کشمیر کو پاکستان کی بقاء اور سالمیت کے لیے ناگزیر قرار دیتے ہیں اور کشمیر کے ساتھ اپنی قلبی وابستگی اور پاکستان کے نہ ختم ہونے والے جذباتی ،روحانی ،قلبی ،خونی ،دینی اور دنیاوی تعلق کا اظہار کرتے ہیں یہاں پر ہم سابق ڈی پی آئی کالجز آزادکشمیر پروفیسر عزیز احمد رانا کی طر ف سے بیان کیے گئے ایک واقعہ کو بھی نقل کرتے چلیں ۔پروفیسر عزیز احمد رانا سول لائن کالج لاہور میں خود موجود تھے اور یہ 1948کی بات ہے قائداعظم محمد علی جناح ؒ طلباء سے خطاب کرنے کے لیے آئے اور پروفیسر عزیز احمد رانا کہتے ہیں کہ قائد اعظم محمد علی جناح ؒ نے یہ فرمایا کہ ’’ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے‘‘یہ بات پروفیسر عزیز احمد رانا نے محکمہ تعلیم میں سروس کرنے کے دوران سینکڑوں مرتبہ تبرک کے طور پر دہرائی اور اس کے سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں گواہان آزادکشمیر بھر میں موجود ہیں ۔

قارئین پرنسپل گورنمنٹ کالج میرپور ڈاکٹر عارف خان نے کشمیر اور پاکستان کے درمیان موجود نظریاتی رشتوں کے پل کو تحقیق کے نام پر جس طریقے سے منہدم کرنے یا کاٹنے کی کوشش کی ہے وہ لائق صد مذمت ہے ۔ڈاکٹر محمد عارف خان کی یہ تقریر فیس بک پر ویڈیو کلپ کی شکل میں موجود ہے ۔ہمیں سمجھ نہیں آ رہا کہ ابھی تک پاکستان اور آزادکشمیر کی سلامتی کے لیے کام کرنے والی قوتوں کی جانب سے ڈاکٹر محمد عارف خان سے باز پرس کیوں نہیں کی گئی ۔ہمیں آزادکشمیر کی ’’ غیر ریاستی جماعتوں ‘‘ حکمران پاکستان پیپلزپارٹی اور اپوزیشن جماعت پاکستان مسلم لیگ ن پر بھی حیرت ہے کہ ایک طرف تو وہ اسمبلی میں ’’ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے ‘‘ کی قرار داد منظور کروانے کے لیے اکٹھے ہو رہے ہیں اور بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ کی جانب سے کشمیر کو بھارت کا اٹوٹ انگ کہنے کی مذمت کرر ہے ہیں اور دوسری جانب آزادکشمیر کے اہم ترین تعلیمی ادارے گورنمنٹ کالج میرپور کے پرنسپل ڈاکٹر عارف خان کی طرف سے قائداعظم محمد علی جناح ؒ کی توہین اور ان کے کشمیر کے حوالے سے دیئے گئے تاریخی پالیسی سٹیٹمنٹ کی نفی کا کسی بھی قسم کا سنجیدہ نوٹس نہیں لے رہے ہم اپنے ایمان کی روشنی میں سمجھتے ہیں کہ ڈاکٹر عارف خان کی طرف سے جاری شدہ یہ بیان اور ویڈیو کلپ انتہائی زہریلا ،نظریہ پاکستان دشمن اور کشمیر اور پاکستان کے رشتوں کو توڑنے والا ہے ۔جو بھی لوگ ڈاکٹر عارف خان کا ساتھ دیں گے ہم سمجھیں گے کہ وہ بھی ان کے نظریاتی حلیف ہیں رہی بات تحقیق اور ریسرچ کی تو اتنا عرض کرتے چلیں کہ راقم بھی ایم فل کرنے کی غرض سے یونیورسٹیوں کی خاک چھانتا رہا ہے اور ایسے درجنوں سکالر ز کی جوتیاں اٹھانا کا فخر رکھتا ہے کہ جو تحقیق کے میدان کے شاہسوار ہیں ۔ہمیں امید ہے کہ اس انتہائی حساس معاملے کا بروقت اور سنجیدہ نوٹس لیا جائے گا اور آزادکشمیر کو ’’ بنگلہ دیش یا بلوچستان ‘‘ بنانے کی خواہش رکھنے والے وطن دشمنوں کا سد باب کیا جائے گا ۔

ٓآخر میں حسب روایت ادبی لطیفہ پیش خدمت ہے ۔
ایک دفعہ علی گڑھ میں مشاعرہ ہو رہا تھا دور دور سے اہل ذوق مشاعرے میں آئے ہوئے تھے علامہ اقبال ؒ بھی موجود تھے علی گڑھ کے چند مقامی شعرا نے علامہ اقبال ؒکو پریشان کرنے کی ٹھانی ،انہوں نے ایک مصرعہ منتخب کر کے علامہ اقبالؒ کو اس پر گرہ لگانے کے لیے کہا وہ شرارتی مصرعہ کچھ یوں تھا ،
مچھلیاں دشت میں پیدا ہوں ،ہرن پانی میں

علامہ اقبالؒ ایسے بکھیڑوں سے پرہیز کرتے تھے لیکن لوگوں کے اسرار پر آخر کار یہ مصرعہ لگا کر شعر مکمل کر دیا
اشک سے دشت بھریں آہ سے سوکھیں دریا
مچھلیاں دشت میں پیدا ہوں ،ہرن پانی میں

قارئین انصار نامہ میں راقم بھی راجہ ظہیر کے لیے آہیں بھر رہا ہے کہ اس کی امید کا دشت آخر کار نخلستان بن جائے اور محترمہ بے نظیر بھٹو شہید نے راجہ ظہیر سے جو وعدہ کیا تھا وہ مجاور وزیراعظم چوہدری عبدالمجید اور بی بی شہید کے بھائی میاں محمد نواز شریف پورا کر دیں اور اسی طرح راقم خون کے آنسو بہاتے ہوئے یہ امید رکھتا ہے کہ فیصلہ ساز قوتیں کشمیر اور پاکستان کے رشتوں کو توڑنے والے لوگوں اور ڈاکٹر عارف خان کو احتساب کے کٹہرے میں کھڑا کرتے ہوئے قول و فعل کے تضاد کو دور کریں گی یہی وقت کی آواز ہے ۔

Junaid Ansari
About the Author: Junaid Ansari Read More Articles by Junaid Ansari: 425 Articles with 336925 views Belong to Mirpur AJ&K
Anchor @ JK News TV & FM 93 Radio AJ&K
.. View More