گزشتہ روز میں لاہور سے پھولنگر کی جانب سفرکی غرض سے
ویگن میں بیٹھا ہوا تھا ۔ویگن میں ابھی خالی نشستیں باقی تھی اور دوپہر کی
وجہ سے سواری کافی کم تھی ہاکر بچارا چلا چلا کر آوازیں لگا رہا تھا۔ٹھیک
دوپہر تھی سخت دھوپ میرے سر پر پڑ رہی تھی ۔ میں سر نیچے کو کر کے بیٹھا
ہوا تھا اور کسی گہری سوچ میں گم تھا کہ اچانک کسی نے میرا کندھا ہلایا اور
بولا’’اﷲ تیری مائی باپ دی حیاتی کرے کوئی خیر خیرات دئے جا باؤ‘‘میں نے سر
اوپر اُٹھایا تو دیکھاکہ ایک ہٹا کٹا نوجوان ویگن کے باہر کھڑا تھا اور
بھیک کا سوال کر رہا تھا ۔ دیکھتے ہی مجھے اُس پر غصہ آیا مگرکچھ افسوس کے
اثرات بھی میرے دل میں آئے کہ نہ جانے کیا مجبوری اس شخص کو اس مقام تک
لائی ہوگی ۔بہرحال میں نے معاف کر بابا کہہ کر جان چھڑانے کی کوشش کی
مگربھکاری نے مجھ پر دعاوں کا ٹوکرا گراتے اور ماں باپ کے واسطے دیتے ہوئے
بڑے ہی معصومانہ طریقے سے دوبارہ خیرات کا سوال کیا مگر میں نے کوئی اُس کو
خیرات ڈالنے کے بجائے اُس سوالی سے ہی ایک سوال کر ڈالا کہ تم کو شرم نہیں
آتی مانگتے ہوئے اچھے بھلے ہٹے کٹے انسان ہو کوئی بھی کام کر کے گھر کا خرچ
چلا سکتے ہوتم کو شرم آنی چاہیے بھیک مانگتے ہو ئے ۔میرے لب یہ الفاظ اداء
کر کے سا کن بھی نہیں ہوئے تھے کہ بھکاری نہ مجھے سے سوال کی شکل میں ایک
جواب دیا جو مجھے ایسا لگا کہ جیسے غلط سوال پرطمانچہ کھا رہا ہوں ۔ سوالی
نے تو مجھے تو بے حد آسانی سے جواب دے دیا لیکن مجھ سے ایک ایسا سوال بھی
کر ڈالا کہ میں نے خود کو لا جواب پایا۔سوالی کا جواب نما سوا ل تھا کہ
بھیک تو ہمارے حکمران بھی مانگتے ہیں کیا ان کو شرم آتی ․․․․․․․․․․؟یہ دو
ٹوک بات کر کے بھکاری آگے چلا گیا لیکن مجھے ایک ایسا جوا ب دے گیا جو اصل
میں ایک سوال تھا جس کا جواب تو شاید ہمارے حکمرانوں کے پاس بھی نہ ہو ۔بھکاری
کی اس بات پر تو میرا دل ایسا کیا کہ اس کو ابھی دس کا نوٹ دے دوں مگر وہ
آگے چلا گیا اور مجھے ایک بار پھر سوچ کی دنیا میں گُم کر گیا ۔ایک سے ڈیڑھ
گھنٹے کے سفر میں میری سوچ کا محور اس بھکاری کاجواب ہی تھا جو کئی قسم کے
سوالوں کو جنم دے رہا تھا ۔میں سوچتا رہا کہ ہمارے ملک میں ہزاروں کی تعداد
میں بھکاری موجود ہیں جنہوں نے عوام کا گھروں میں آرام ،عبادت کرنا ،مسجدوں
سے نکلنا،سگنلز پر رکنا،فٹ پاتھ پر چلنا اور بازار سے گزرنا دشوار کر رکھا
ہے۔بھکاریوں کی فوج ظفر موج اس کے علاوہ چوری ،ڈکیتی جیسے جرائم کی
وارداتوں میں بھی ملوث ہوتی ہیں۔مگرنہ ہی ہمار ے دار ے ان کے خلاف کاروائی
کرتے ہیں نہ حکمرانوں کی جانب سے کبھی ان بھکاریوں کے خلاف ایکشن لینے
کاحکم آتا ہے ۔ارے بھا ئی اب سمجھ آیاکہ کیسے ان کے خلاف ایکشن ہو سکتا ہے
اصل میں یہ حکمرانوں کے پیٹی بھائی ہیں۔حکمران خود ایک کام کر رہے ہیں تو
وہ کیسے عوام کو اس کا م سے روک سکتے ہیں ۔کہا جاتا ہے اگر ایک قوم کے
حکمران عش وعشرت پر لگ جائیں تو عوام بھی عش وعشرت کو ہی اپنا لیتی جو بعد
میں ان کی تباہی و برباد ی کا سبب بنتی ہے۔اس ہی طرح ہمارے حکمرانوں نے جو
محنت ،جدوجہد کو ٹھکرادیا ہے کشکول اُٹھالیے ہیں تو عوام تو خود با خود ہی
کشکول کو سہارا بنا لے گی۔جس طرح ہمارے حکمران کبھی دہشت گردی کے کینسرکے
نام پر تو کبھی زلزلہ ،سیلاب اپاہج لوگوں نام پر بھیک مانگتے ہیں اس ہی طرح
بھکاری اپنے رنگ برنگے روپ دھا ر کر یا کوئی اپاہجی کوئی بیماری ظاہر کرکے
عوام سے بھیک مانگتے ہیں۔ میرے قارئین یہ تو ایک قدرتی عمل ہے کہ جیسے
حکمران ویسے ہو جاتی ہے عوام۔اس واقعہ سے یہ بات حقیقت ثابت ہوچکی ہے کہ
واقعی حکمرانوں کی نقل عوام کرتی ہے۔ ہمارے حکمرانوں کو چاہیے کہ خود محنت
،کفائیت شعاری کو اپنائیں تو عوام بھی ان کے کو دیکھ کر خود با خود محنت
پسند اور کفائیت شعار ہو جائے گی۔اگرہماری حکومت یو ہی بھیک مانگتی رہی اور
تو بھکاریوں کے پاس ایک اچھا جواز موجود ہے وہ بھی حکمرانوں سے یہ سوال کر
سکتے ہیں کہ آپ کس لیے دیگر ممالک سے بھیک مانگتے ہوں ۔اس سوال کا کوئی
حکمران جواب نہیں دے سکتا ۔ بھیک تو بھیک ہے چاہے وہ عام آدمی مانگ لے یا
ملک کا صدر یا وزیر اعظم ۔ہاں اگر صدر یا وزیر اعظم بھیک مانگے تو ہم اُس
کونیشنل نہیں بلکہ انٹرنیشنل بھکاری کہیں گے۔بہرحال بھیک مانگنا
انسانیت،خاص طور پر مسلمان کی تذلیل باعث شرم ہے ۔بھیک مانگناخدا کی لعنت
ہے۔ ہمارے حکمرانوں کو چاہیے کہ خود بھی اس لعنت سے بچیں اور عوام کو بھی
اس سے نجات دلائیں۔ |