کیاایک سچے سیکولررہنماکی سیاسی موت ہوگئی؟

باسمہ تعالیٰ

سیاست کے کھیل بڑے ہی نرالے ہیں،یہاں کب کیاہوجائے کوئی نہیں جانتا،عروج وزوال کاکھیل ہمیشہ چلتارہتاہے،کسی کوزیروسے ہیروبننے میں دیرنہیں لگتی توہیروکوزیرو ہوتے ہوئے بھی اتناہی کم وقت لگتاہے۔ہرشخص اپنے مدمقابل کوزیرکرنے کی تدبیروں میں لگارہتاہے،سیاسی گلیاروں کی ایک کہاوت بہت مشہورہے کہ یہاں کوئی کسی کاہمہ وقتی دوست یادشمن نہیں ہوتاہے،وقت اورحالات کے اعتبارسے وفاداریاں ہمیشہ بدلتی رہتی ہیں۔حالیہ دنوں میں ہوئے سیاسی اتھل پتھل کواسی نظریے سے دیکھاجاسکتاہے،جس میں ہندستان ہی نہیں بلکہ بین الاقوامی شہرت کے حامل ایک سیکولرلیڈرکوقانون کے شکنجہ میں کچھ اس طرح کساگیاہے کہ اب وہ شایدہی اس شکنجہ سے باہرآسکیں،اتناہی نہیں سیاسی تجزیہ نگاروں نے تواسے سیاسی موت سے تعبیرکیاہے۔اوراس تجزیہ میں بہت حدتک سچائی بھی ہے۔اس شخصیت اورسیاسی رہنماکودنیاکابچہ بچہ لالوپرشادیادوکے نام سے جانتاہے۔

گذشتہ ۳اکتوبرکوسی بی آئی کی خصوصی عدالت نے ۱۷ سال پرانے چارہ گھوٹالہ کیس میں لالوپرشادیادوکو۵ سال کی جیل اور۲۵ لاکھ روپے جرمانہ کی سزاسنائی ہے۔اس کے ساتھ ہی لالوپرسادیادوکی سپریم کورٹ کے نئے قانون کے مطابق پارلیمنٹ کی رکنیت بھی ختم ہوجائے گی اورآئندہ گیارہ سالوں تک وہ انتخاب بھی نہیں لڑسکیں گے،جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ ۶۶سالہ لالوپرشادیادوکاسیاسی کیریرختم ہوجائے گایایوں کہہ لیں کہ ختم ہوگیا۔سی بی آئی عدالت کایہ فیصلہ ہندستان کی سیاسی تاریخ میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتاہے،لالویادوکی سزاکوسیاست سے گندگی اوربدعنوانی کوختم کرنے کی ایک اچھی شروعات کانام دیاجاسکتاہے لیکن اس سے بھی تلخ حقیقت یہ ہے کہ لالوکے خلاف یہ فیصلہ ایک ایسے وقت میں آیاہے جب کہ لالواپنی سیاسی ساکھ کوبحال کرنے کی پرزورکوشش کررہے تھے ،اس کے علاوہ ایک تلخ حقیقت اوربھی ہے کہ قطع نظربدعنوانی اوربہارکی پسماندگی کے لالویادوہی اس وقت ہندستانی سیاست میں ایک ایسے رہنماتھے جوصحیح معنوں میں سیکولرزم کے علمبردارتھے،اوران کے سیاسی کیریرکی پوری تاریخ گواہ ہے کہ انہوں نے اپنے سیاسی مفادات کے لیے کبھی بھی سیکولرزم سے سمجھوتہ نہیں کیا،یہ ان کاایک ایساوصف ہے جوہندستانی سیاست میں ان کودیگرتمام سیاسی رہنماؤں سے ممتازکرتاہے۔کوئی بھی سیاسی رہنما بدعنوانی سے پاک نہیں ہے،اگرفیصدنکالاجائے توایک فیصدنکلنابھی مشکل ہوجائے گا،توایسے میں لالوپرشادیادوکی بدعنوانی کوئی انوکھی یامافوق الفطرت بات نہیں ہے،البتہ ان کے خلاف ہونے والایہ فیصلہ ضرورمافوق الفطرت ہے،جسے ایک طرح سے اگرایک سچے سیکولر رہنماکے سیاسی کیریرکوختم کرنے کی سازش سے تعبیرکیا جائے توکسی حدتک بے جا نہیں ہوگا؟؟؟جب تک رہے گاسموسے میں آلو،بہارمیں رہے گالالو،لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ سموسے میں آلوتوہے لیکن بہارسے لالوجی کاخاتمہ ہوچکاہے،اوراس کے ساتھ ہی ان کایہ ڈائیلاگ بھی لوگوں کے لیے اجنبی بن چکاہے۔

لالوپرشادیادوبہارکے گوپال گنج ضلع کے پھلوریاگاؤں میں۱۱جون۱۹۴۸ء کوایک غریب گھرانے میں پیداہوئے،پٹنہ یونیورسٹی کے بی این کالج سے ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کی اورساتھ ہی پولٹیکل سائنس میں ماسٹرکی ڈگری لی۔لالوپرشادیادو ایک اسٹوڈنٹس یونین لیڈرکی حیثیت سے سیاست میں داخل ہوئے اور۱۹۷۰ء میں پٹنہ یونیورسٹی اسٹوڈنٹس یونین کے جنرل سکریٹری منتخب ہوئے۔وہ زمانہ بہارکی سیاست کے مشہورلیڈراورایمرجنسی کے زمانہ میں اندراگاندھی کی مخالفت میں صف اول کے رہنمالوک نائک جئے پرکاش نارائن کا تھا،لالویادونے اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے جئے پرکاش نارائن کواپناسیاسی گروبنالیااور ان کی رہنمائی میں سیاست کی سیڑھیاں چڑھنی شروع کیں،اتناہی نہیں انہوں نے انہوں نے جئے پرکاش نارائن کے علاوہ کرپوری ٹھاکر،راج نارائن اورستیندرسنہاسے بھی سیاست کی باریکیاں سیکھیں۔۱۹۷۷ء میں صرف ۲۹؍سال کی عمر میں چھٹے لوک سبھاکے ممبرمنتخب ہوئے جس میں ستیندرنارائن سنہاکی بھرپورحمایت حاصل تھی،یہ انتخاب انہوں نے جنتاپارٹی کے ٹکٹ پرلڑاتھااورکامیاب ہوکرکم عمرایم پی ہونے کا ریکارڈ بھی اپنے نام کیا۔۱۹۸۹ء کے بھاگلپورفسادکے بعدجب مسلم ووٹ بینک کانگریس سے دورہورہاتھاتواس وقت لالونے عام انتخابات اورریاستی اسمبلی کے انتخابات میں نیشنل فرنٹ کی قیادت کی اوراسے جیت دلائی ،پھر۱۹۹۰ء میں اپنی ہی پارٹی کے وزیراعلیٰ رام سندرداس کوپیچھے چھوڑتے ہوئے بہارکے وزیراعلیٰ بنے جوکہ بہارہی نہیں بلکہ ہندستان کی سیاست کے لیے بھی حیرت کی بات تھی کہ ایک غیراعلیٰ ذات کامعمولی لیڈرتمام بڑے لیڈروں کوپچھاڑتے ہوئے اس مقام تک پہونچ گیاتھاجوبہت سارے لوگوں کے حلق سے نیچے نہیں اترا،۱۹۹۰ء سے ۱۹۹۷ء تک وزیراعلیٰ کی کرسی پربراجمان رہے،۱۹۹۶ء میں بی بی سی نے ایک رپورٹ شائع کی جس میں ساڑھے نوسوکروڑکے چارہ گھوٹالہ کاانکشاف کیا اورلالوپرشادیادو،سابق وزیراعلیٰ جگن ناتھ مشرسمیت کئی لوگوں کواس میں ملزم بنایاگیا،عدالت سے گرفتاری کاوارنٹ جاری ہونے کے بعد۲۵ جولائی ۱۹۹۷ء کووزیراعلیٰ کے عہدے سے استعفادے کراپنی گھریلواوران پڑھ بیوی کووزارت اعلیٰ کی کرسی پربیٹھاکرخودجیل کی یاتراکے لیے نکل پڑے،اس زمانے میں لالویادوجنتادل کے سربراہ تھے،لیکن جب جنتادل کی سربراہی چھوڑنے کے لیے مجبورکیاگیاتوانہوں نے راشٹریہ جنتادل کے نام سے اپنی سیاسی جماعت کی بنیاد۵ جولائی ۱۹۹۷ء کوڈالی۔لمکابک آف ریکارڈ کے مطابق لالو واحدشخص ہیں جنہوں نے سب سے زیادہ مدت تک کسی سیاسی جماعت کی سربراہی کی ہے۔لالوپرشادیادواوران کی بیوی رابڑی دیوی نے تقریباًپندرہ سالوں تک بہار پرحکومت کی،لالوپرشادکی سب سے بڑی غلطی یہی تھی کہ جب انہیں بہارمیں حکومت کاموقع ملاتوانہوں نے بہارکی عوام کوصرف اپنے مسخرے پن سے ہنساتے رہے،اورکبھی بھی ترقیاتی کاموں کی طرف توجہ نہیں دی،حالاں کہ بعدکے زمانے میں جب انہوں نے ریلوے کی وزارت سنبھالی اورجس طرح ایک خسارے میں چلنے والے ادارہ کومنافع کی بلندیوں تک پہونچایاجس کی وجہ سے انہیں ملک کی سب سے بڑی بزنس منیجمینٹ انسٹی ٹیوٹ آئی آئی ایم نے ریلوے کے منافع کے گرکواپنے طالب علموں کوبتلانے کے لیے اپنے یہاں مدعوکیااوراسی طرح دنیاکی سب سے بڑی یونیورسٹی ہارورڈ یونیورسٹی نے بھی انہیں اپنے طلبہ کے سامنے خطاب کاموقع دیا،آئی آئی ایم نے توان کے دور وزارت کی ترقی کو اپنے بحث وتحقیق کاموضوع بھی بنایا۔لالوپرشادیادونے ۲۰۰۴ء میں چھپرہ اورمدھے پورہ کی سیٹوں سے پارلیمنٹ کاالیکشن لڑااوردونوں سیٹوں پردوبڑی پارٹی کے دوسینئر لیڈروں کوشکست دے کردونوں سیٹوں پرقبضہ جمایااورمرکزکی یوپی اے حکومت میں ریلوے کی وزارت سنبھالی،جسے ڈھائی ہزارکروڑسے زیادہ منافع بخش محکمہ بنادیا۔ اگردیکھاجائے تو لالوپرشادیادوکازوال ۲۰۰۵ء کے ریاستی اسمبلی انتخابات کے بعدسے ہوا،جس میں جہاں ایک طرف نتیش اوربی جے پی سے محاذآرائی تھی تودوسری جانب پاسوان انہیں نقصان پہونچانے کی ہرممکن کوشش میں لگے ہوئے تھے۔حقیقت یہ ہے کہ لالوپرشادیادوکواس حالت تک پہونچانے میں سب سے بڑاکرداررام ولاس پاسوان کاہی ہے،جوکبھی کسی کے نہ ہوئے بلکہ وقت کے ساتھ ساتھ بدلتے رہے۔رام ولاس پاسوان نے ۲۰۰۵ء کے ریاستی انتخابات میں اپنامدعالالوکی پندرہ سالہ حکومت کوبنایاتھاجس کی بنیاد پرانہیں۲۹سیٹ حاصل ہوئے،اورلالوکی پارٹی کو صرف ۷۵سیٹوں پراکتفاء کرناپڑاتھااگراس وقت پاسوان لالوسے ترقی کی شرائط پرسمجھوتہ کرتے ہوئے حکومت میں شامل ہوجاتے توشایدبہارکی سطح پرفرقہ پرستوں کوپنپنے کاموقع نہ ملتالیکن پاسوان نے اپنی ضداورہٹ دھرمی کے تحت بہارمیں صدرراج کے نفاذکاراستہ صاف کردیااورپھرجب نومبر۲۰۰۵ء میں انتخابات ہوئے تولالوکوتو۵۴ سیٹیں ہاتھ لگیں لیکن پاسوان ۱۰نشستوں پرہی سمٹ کررہ گئے،اوربعدکے دنوں میں وہی پاسوان لالوکے گن گان کرنے لگے جوآج تک کررہے ہیں۔ ۶۳ سے زائدمقدمات کاسامنا کرنے والے لالونے اپنے دوروزارت میں ریلوے کے کرایوں میں کبھی اضافہ نہیں کیابلکہ دوسرے طریقوں سے ریلوے کو منافع بخش بناتے رہے حالاں کہ بعدمیں کچھ لوگوں نے ان پریہ الزام بھی لگایاکہ انہوں نے ریلوے میں کوئی ترقی نہیں کی بلکہ یہ سب صرف اعدادوشمارکاکھیل ہے جوکہ سمجھ سے بالا ترہے،یہ الزام صرف اس بنیادپرلگایاگیاکہ جس شخص نے بہارکو۱۵؍سالوں میں پسماندگی کے نچلے زینہ پرڈھکیل دیاوہ بھلاریلوے کوکیامنافع دے سکتاہے،حالاں کہ ایسانہیں ہے کیوں کہ دیر سے ہی سہی لالوجی کوبھی یہ بات سمجھ آگئی تھی کہ اب وہ زمانہ نہیں کہ لوگوں کواپنے مسخرہ پن سے بہلالیں بلکہ عوام اب جاگ چکی ہے اوروہ ترقی چاہتی ہے۔

لالوپرشادیادوصحیح معنوں میں سیکولرزم کے علمبردارتھے،انہوں نے اپنی پوری سیاسی زندگی میں بہت نشیب وفرازدیکھے،لیکن کبھی بھی انہوں نے سیکولرزم سے سمجھوتہ نہیں کیا۔اوران کی یہی وہ خاصیت تھی جس سے ملک کاایک بڑافرقہ پرست طبقہ خارکھاتاتھا،اورجوہرپل اس خواہش میں رہتاتھاکہ کس طرح لالوکونقصان پہونچایاجائے،اورلالوکوسزاسنائے جانے کے بعدسے جس طرح فرقہ پرستوں کے خیمہ میں جشن کاماحول ہے اس سے یہ بات بہت حدتک واضح ہوچکی ہے کہ اب ہندستان میں فرقہ پرستوں پربراہ راست وارکرنے والا اس وقت کوئی نہیں ہے۔یہ لالوپرشادیادوکی ہی ذات تھی جس نے ہندستان کے مشہورفرقہ پرست چہرہ اورہندستان کے مختلف صوبوں کوفرقہ پرستی کی آگ میں جھونکنے والے لال کرشن اڈوانی کی رتھ یاتراکو۲۳؍اکتوبر۱۹۹۰ء کوسمستی پورمیں روک دیااورانہیں گرفتارکرلیااوربہارکوفسادات کی آ گ میں جلنے سے بچالیاکہ جہاں جہاں بھی اڈوانی کاناپاک قدم پڑاوہاں بھیانک فرقہ وارانہ فسادات ہوئے ،لیکن لالونے اپنی جرأت مندی کامظاہرہ کرتے ہوئے بہارکواس سے بچالیا۔میں یہ نہیں کہتاہوں کہ لالوپرشادیادودودھ کے دھلے ہیں یاان کی سزاغلط ہے،یہ قانونی معاملہ ہے،اورعدالت نے اپناکام کیااوریقینامجرم کوقرارواقعی سزاملنی ہی چاہیے،لیکن اس کے ساتھ ہی یہ بھی قابل غورہے کہ اس حمام میں صرف ایک لالویادونہیں ہیں بلکہ بہت سارے ہیں جن پرسیکڑوں بدعنوانی کے مقدمات ہیں،اتنے نام ہیں کہ شمارکرانابھی مشکل ہے،لیکن وہ سب آزادہیں،نہ جانے کیوں کبھی کبھی اس بات پہ یقین ہوجاتاہے کہ سی بی آئی طوطے کی طرح کام کرتی ہے،ملک پرحکومت کرنے والی جماعت اپنے جس مدمقابل کوختم کرناچاہتی ہے اس کے سارے کیس کھول کررکھ دیتی ہے،اورجسے بچاناچاہتی ہے اس کے جرموں کی اس قدرپردہ پوشی کرتی ہے کہ وہ محترم ہوجاتاہے،کئی ایسے نام ہیں جنہیں اس وقت جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہوناچاہیے لیکن وہ سب آزادہیں اورحکومت کے مزے لے رہے ہیں،اورلالوپرشادیادوجوایک بارپھرسے اپنی ساکھ بحال کرناچاہ رہے تھے انہیں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے سیاست کے میدان سے ہی باہرپھینک دیا۔ممکن ہے یہ بھی حکمراں جماعت کی ۲۰۱۴ء کی حکمت عملی کاایک حصہ ہوکیوں کہ لالوکے رہتے وہ نتیش کے ساتھ نہیں جاسکتی ہے اورلالوکے میدان سے نکل جانے کے بعداب اس کاراستہ صاف ہوگیاہے۔بہرحال یہ وقت راجدکے رہنماؤں کے لیے بڑاکٹھن اورآزمائش کاہے،انہیں اس وقت اپنے اتحادکامظاہرہ کرناہوگااورجس طرح لالونے ہمیشہ فرقہ پرستی کاڈٹ کرمقابلہ کیاہے اسی طرح ان کے پارٹی کے رہنماؤں کوبھی اپنی سیکولرزم کی شبیہ کو برقراررکھتے ہوئے پارٹی کوآگے بڑھاناہوگا۔اورکم ازکم بہارکی سطح سے فرقہ پرست جماعتوں کاصفایاکرنے میں راجدکے رہنماؤں کوانتہائی دوراندیشی اورحکمت عملی سے کام کرنا ہوگاتبھی اس ملک سے فرقہ پرستوں کامکمل طورسے صفایاہوسکے گا۔٭٭

Ghufran Sajid Qasmi
About the Author: Ghufran Sajid Qasmi Read More Articles by Ghufran Sajid Qasmi: 61 Articles with 50711 views I am Ghufran Sajid Qasmi from Madhubani Bihar, India and I am freelance Journalist, writing on various topic of Society, Culture and Politics... View More