صفیہ صدیقی ۔ بوئے گل سو گئی

کسے خبر تھی کہ آج زیر نظر مضمون کا عنوان وہی منتخب کیا جائے گا جو صفیہ صدیقی کے اس مضمون کا تھا جو انہوں نے اپنے بہنوئی اور سرِی ادب کے نامور مصنف ابن صفی پر لکھا تھا۔ صفیہ صدیقی کہ اردو کی دور افتادہ بستیوں کو بسانے والوں کی سرخیل سمجھی جاتی تھیں، 28 نومبر 2012 کی شام لندن میں انتقال کرگئیں۔ وہ طویل عرصے سے عارضہ قلب میں مبتلا تھیں ۔ افسانہ و ناول نگار کی حیثیت سے انہوں نے اردو ادب میں ایک الگ مقام حاصل کیا تھا۔ صفیہ صدیقی کا آبائی تعلق محلہ مولویانہ، قصبہ نگرام ضلع لکھنؤ سے تھا جہاں وہ یکم جنوری 1935 کو پیدا ہوئی تھیں۔ وہ گزشتہ کئی دہائیوں سے لندن میں مقیم تھیں ۔ان کے والد کا انتقال اس وقت ہوگیا تھا جب وہ سات برس کی تھیں، بعد ازاں وہ اپنے اہل خانہ کے ہمراہ اپنے نانا کے پاس رائے بریلی چلی گئیں جہاں انہوں نے پانچ برس قیام کیا۔ 1947میں ہونے والی اسکول کی چھٹیوں میں وہ بشمول اہل خانہ اپنی خالہ کے پاس شملہ گئی ہوئی تھیں کہ اسی اثناء میں تقسیم ہند کا اعلان ہوا اور تمام لوگ افراتفری میں پہلے کالکا کیمپ اور پھر والٹن کیمپ لاہور پہنچے اور وہاں سے راولپنڈی رخ کیا۔صفیہ صدیقی لندن میں روزنامہ جنگ کے 1971میں اجراء ہی سے اس سے وابستہ ہوگئی تھیں جہاں سے انہوں نے1982 میں خرابی صحت کے باعث استعفی دے دیا تھا۔ صفیہ صدیقی نے انگریزی سے تراجم کیے، افسانے لکھے، ناول لکھے، کالم نویسی کی،انٹرویو کیے اور متفرق مضامین تحریر کیے ۔بریڈ فورڈ کے ہفتہ وار اخبار ’راوی‘ سے منسلک رہیں۔ غرضیکہ ہر صنف ادب میں اپنی موجودگی کا قوی احساس دلایا۔ ان کے افسانوں کے چار مجموعے اور ایک ناول (وادی غربت میں) شائع ہوچکا ہے ۔ان کے افسانوں کے مجموعوں کے نام یہ ہیں: پہلی نسل کا گناہ، چاند کی تلاش، چھوٹی سی بات، بدلتے زمانے، بکھرتے لوگ۔ صفیہ صدیقی نے ’’اردو اینڈ آئیــ‘‘ کے عنوان سے لکھے گئے رالف رسل کے ایک طویل مضمون کو اردو کے قالب میں ’’یاداشتیں‘‘ کے عنوان سے ڈھالا جو 2002 میں کراچی کے مجلے ’آج‘ میں شائع ہوا تھا۔لکھنؤ سے تعلق ہونے کے سبب انہیں زبان و بیان پر عبور حاصل تھا ۔افسانہ نگاری میں وہ ایک جداگانہ مقام رکھتی تھیں اور ان کے افسانوں آغاز تا انجام اچھوتے اور چونکا دینے والے ہوا کرتے تھے۔ ایک طویل عرصہ لندن میں قیام پذیر ہونے کی وجہ سے صفیہ صدیقی کے اظہار بیان میں صاف گوئی اور بے باکی کے عناصر عود کرآئے تھے۔ مغربی معاشرے کا گھناؤنا چہرہ قارئین کے سامنے عیاں کرنے میں انہیں کبھی کوئی جھجھک مانع نہ رہی اور وہ وقتا ً فوقتا ً اپنی کہانیوں میں اس کا اظہار کرتی رہتی تھیں۔زندگی کروٹ بدلتی ہے،اور سمندر رونے لگا، فیصلہ، ایک اور موت ، منزل،چھوٹی سی بات، خواب سی زندگی، کب در زنداں کھلتا ہے، سوز غم ہائے نہانی ان کے چند عمدہ افسانے ہیں۔ بریڈ فورڈ سے جناب مقصود الہی شیخ کی زیر ادارت دس برس تک سے شائع ہونے والے ادبی مجلے ’’مخزن‘‘ میں ان کے افسانے مستقل شائع ہوتے رہے تھے۔صفیہ صدیقی لیوٹن کے رسالے سہ ماہی سفیر اردو اور لندن کے رسالے ماہنامہ پرواز کی بھی مستقل قلمکار تھیں۔پروفیسر ممتاز احمد خان نے صفیہ صدیقی پر اپنے تبصرے میں کہا تھا : ’’ صفیہ کا اسلوب سادہ مگر صاف و شفاف ہنر مندی سے عبارت ہے۔‘‘ ۔ معروف افسانہ نگار محترمہ اصغرا اصغر نے کہا تھا: ’’ برطانوی پیش منظر میں صفیہ صدیقی نے مشرقی جذبوں کی کہانیاں قلم بند کی ہیں۔ غیر معمولی جذباتیت سے گریز کرنے کے باوجود ’’فیصلہ‘‘ اور ’’ایک اور موت ‘ ‘ قاری کے جذبات میں ہلچل مچاتی ہیں اور دیر تک گرفت میں رکھتی ہیں۔‘‘ ۔ڈاکٹر انور سدید صفیہ صدیقی کے بارے میں کہتے ہیں ’’ صفیہ صدیقی کی کہانیوں میں وہ عورت بڑی اہمیت رکھتی ہے جس کی جڑیں اپنے وطن کی سرزمین میں گہری اتری ہوئی ہیں۔ اپنے ماں باپ اور دھرتی سے کٹی ہوئی یہ عورت اولاد، بیوی اور پھر اپنے بچوں کی ماں ہے۔ خوبصورت مکان کا حصول اس کی عزیز ترین خواہش ہے۔ ’وارمنگ پارٹیوں‘ میں شرکت اس کی دلچسپی کا ایک زاویہ ہے لیکن یہ زاویہ اس وقت غیر اہم ہوجاتا ہے جب اس کی بیٹی جوان ہوجاتی ہے اور حریص نظروں میں گھرِ جانا ماں کو کسی طرح قبول نہیں ہوتا۔‘‘

پروفیسر رالف رسل صفیہ صدیقی کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’ میں صفیہ صدیقی کو عرصے سے جانتا ہوں لیکن مجھے ان کی تحریروں کے بارے میں تین چار سال قبل اس وقت علم ہوا جب میں نے ان کا افسانہ ’’کمیونٹی لیڈر‘‘ پڑھا۔اس افسانے نے مجھ پر گہرااثر چھوڑا ۔برطانیہ میں بسنے والے پاکستانیوں کے رویہ اور انداز فکر میں جو خوب و ناخوب تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں ، ان کو صفیہ صدیقی نے اس افسانے میں نہایت سچائی سے بڑے دلچسپ اور حقیقت پسندانہ انداز میں پیش کیا ہے۔ میں نے صفیہ صدیقی کے تقریبا تمام افسانوں کو پڑھا ہے اور ان کی بہترین تحریریں ان خوبیوں سے مزین ہیں۔ ‘‘

اپنے بارے میں ایک مختصر سوانحی مضمون میں صفیہ صدیقی کا انداز بیاں ملاحظہ ہو ۔ راقم الحروف سے رابطے اور ای میلیز کے تبادلے میں بھی ان کی اپنے وطن سے محبت لفظ لفظ سے عیاں ہوا کرتی تھی :

’’مجھے اس وقت فیض صاحب کا ایک مصرعہ یا د آرہا ہے، خدا جانے کیوں۔۔۔۔ع۔۔۔میرے درد کو جو بیاں ملے مجھے اپنا نام و نشاں ملے
اب آپ فرمائیں گے کہ آپ کو کیا دْکھ ہے، انگلستان میں بیٹھی ہیں اور مزے سے زندگی گزاررہی ہیں،نہ لوڈشیدنگ ہے نہ چینی کی قلت، اور نہ اپنے بھائی بند کے کلاشنکوف اور بم سے خود کو سجائے بنائے، جنت میں جانے کی شدید خواہش سے بیتاب آس پاس پائے جانے کاڈر ہے، مگر ان کو معلوم نہیں کہ وہ جو گھر تباہ برباد کر رہے ہیں اور معصوم اور بے گناہ جانیں لے رہے ہیں وہ بے گناہ تو جنت پہنچ جائیں گے مگر یہ خود دروازے پیٹتے ہی رہ جائیں گے۔ یہ جو وطن کی فکر اور تردد ہماری زندگی میں درآیا ہے۔ آخر اس درد کی دوا کیا ہے؟ ‘‘

صفیہ صدیقی کے ایک یادگار افسانے ’’ چھوٹی سی بات‘‘ سے یہ اقتباس ملاحظہ ہو کہ اس میں تارکین وطن کو درپیش مصائب اور ان کی سوچ کا ذکر ایک علاحدہ ڈھنگ سے کیا گیا ہے:
’’ میرے دل میں درد کا طوفان اٹھ رہا تھا، مجھے وہ زمانہ یاد آرہا تھا ، وہ اندھیری شامیں اور بچوں کی اسکول سے واپسی ۔ سرد کمروں کی آغوش میں انہیں اپنی ماں کی ضرورت تھی۔ماں کی توجہ کی ،دیکھ بھال کی۔شاید میں نے غلط فیصلہ کیا تھا۔مجھے اپنے بچوں کو محبت اور ذہنی آسودگی پہنچانے کی ضرورت تھی۔پیسوں کی کمی کے باوجود گزر ہوہی جاتی مگر اس وقت تو ہمیں بچوں کو بہتر معیار زندگی مہیا نہ کرسکنے کا غم رہتا تھا۔ بہتر زندگی ہی کے لیے تو یہ تکلیفیں اٹھائی ہیں، مگر اب کیا ہوسکتا ہے۔ اب تو وقت مٹھی سے نکل چکا ہے۔ وقت کی ریت تو کب کی مٹھیوں سے نکل چکی ہے، وہ کب ٹھہرتی ہے۔ہم نے اپنے لحاظ سے تو بچوں کے لیے اتنی قربانیاں دیں۔ کبھی اپنے متعلق نہیں سوچا۔کپڑے لتے، گھومنا پھرنا ، سینما تھیٹر۔ساری آرزوئیں دل میں دفن ہوگئیں۔ ساری رنگینیاں اسی لند ن شہر میں موجود تھیں مگر ہم ان سے بے نیاز محنت اور مشقت کے اندھیروں میں زندگی گزارتے رہے اور آج وہی کہہ رہے ہیں کہ ہم نے ان کو جذباتی محرومیاں دیں۔ کمینے کہیں کے۔آج ان کے پاس ساری آسائشیں ہیں۔انہیں ہماری تکالیف کا کیا اندازہ۔انہیں کیا معلوم کہ ہم نے نسلی تعصب کے نام پر کتنی ذلتیں سہیں، کتنی توہین برداشت کی، دل ہی دل میں کڑھتے رہے، جلتے رہے اور بچوں کی خاطر ب کچھ سہہ گئے۔اپنی انا،اپنی عزت نفس، خودداری۔سب کو دنا کر زندگی کا ایک مقصد بنا لیا تھا کہ بچوں کو بہتر تعلیم اور معیار زندگی مہیا کرنا ہے۔ ‘‘

راقم الحروف کے ای میل ریکارڈ میں صفیہ صاحبہ کے کئی پیغامات آج بھی محفوظ ہیں۔ 24 نومبر2011 کو ارسال کردہ ایک پیغام میں وہ رقمطراز ہیں:
’’ ابھی آپ کی بھیجی ہوئی میل دیکھی اور پڑھی، اور ان تصویروں میں میرے بھائی جان کی بھی ایک تصویر تھی کافی پرانی، بہت خوشی ہوئی، آ پ کو شائد معلوم نہیں کہ مکین احسن کلیم میرے بڑے بھائی تھے، وہ لا ہور میں تھے جب ان کا انتقال ہوا۔ قیصر تمکین صاحب نے خبر گیر میں ان کا تذکرہ کیا ہے، یہ کتاب میرے پاس ہے، جب انھیں معلوم ہوا کہ میں ان کی بہن ہوں تو تمکین صاحب میرا بہت خیال کرنے لگے تھے، وہ کوئی 14 یا 15 برس کے رہے ہوں گے جب وہ قومی آواز میں پارٹ ٹائم کام کیا کرتے تھے وہیں بھائی جان سے ملا قا ت ہوئی تھی۔ ‘‘

واضح رہے کہ 15 نومبر1923 کو محمود آباد، ہندوستان میں پیدا ہونے والے ترقی پسند ادیب و صحافی مکین احسن کلیم لاہور میں 11 دسمبر 1976 کو انتقال کرگئے تھے۔ مکین صاحب کا ذکر معروف ہندوستانی افسانہ و ناول نگار آ نجہانی رام لعل کی خودنوشت ’’کوچہ قاتل ‘‘، قیصر تمکین علوی کی خودنوشت ’’خبر گیر‘‘ اور اے جی خان کی خودنوشت ’’یادوں کا سفر‘‘ میں موجود ہے۔مکین صاحب کا ڈاکٹر عباد ت بریلوی پر لکھا ایک عمدہ مضمون 1956 میں نقوش کے شخصیت نمبر میں شائع ہوا تھا۔

ادیب و افسانہ نگار تسلیم الہی زلفی لکھتے ہیں:
’’آپ صفیہ صدیقی کے تمام افسانے پڑھ جائیے بلا شبہ ان میں واقعات، افراد، قصّے اور اسلوب کے اعتبار سے نمایاں فرق محسوس ہوگا، پر وہ انداز جس سے وہ زندگی دیکھتی ہیں، کسی زنجیر کی طرح ابتداء سے انتہا تک چلا گیا ہے، اور ان کا یہ انداز ہی ان کے بیان کئے ہوئے ہر واقعے کو کسی نہ کسی بنا پر سماج کی اجتماعی زندگی سے وابستہ کر دیتا ہے اور ان اثرات کو واضح کر تا ہے جو اس واقعے کے ظہور پذیر ہونے سے مرتب ہوتے ہیں، لہٰذا ثابت یہ ہوا کہ صفیہ کا کردار اپنے ماحول اور معاشرے سے الگ نہیں بلکہ سماج کا ایک جزو ہے اور وقت کے تقاضوں کے زیر اثر جو بھی تبدیلی سماج کے باطن کو متاثر کرتی ہے اس سے سماج کا یہ جز و متاثر ہوتا ہے۔ صفیہ صدیقی اس زاویہ نگاہ سے اپنے ہر کردار کو پرکھنے کے بعد اپنے افسانے میں شامل کرتی ہیں۔ ‘‘

زیر نظر مضمون کے آغاز میں صفیہ صدیقی کے ابن صفی پر لکھے مضمون کا ذکر آیا تھا۔ تین دہائیوں قبل لکھے متذکرہ مضمون کو صفیہ صدیقی نے حقیقت پسندی پر مبنی جن الفاظ میں سمیٹتے ہوئے اختتام پذیر کیا تھا، آج انہی کو دوہراتے ہوئے ہم ان کے لیے دعائے مغفرت کے طلبگار ہیں:
’’ہم سب کو معلوم ہے کہ موت سے کسی کو رُست گاری نہیں آگے پیچھے سب کو جانا ہے یہ دنیاوی جھمیلے ،یہ محبتیں ،یہ رشتے ناتے سب فانی ہیں ان کی کوئی اہمیت نہیں ۔ہر شخص اپنے اعمال کے لیے خود جواب دہ ہو گا لیکن سب جانتے ہوئے اور ان پر ایمان رکھتے ہوئے بھی ہم جانے والوں کے لیے کیوں روتے ہیں ؟کیا یہ ہمارے ایمان کی کمزوری ہے ۔خداوند عزوجل ہم سب کو ایمان کی قوت عطا فرمائے تا کہ ہم اس کے احکام کی تعمیل میں انسانی کمزوریوں پر قابو پا سکیں اور اس کے فیصلوں کو بسر د چشم رونے دھوئے قبول کر لیں ۔آمین۔ـ ‘‘

Rashid Ashraf
About the Author: Rashid Ashraf Read More Articles by Rashid Ashraf: 107 Articles with 277557 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.