پندرہ سال کے طویل وقفہ کے بعدہند کے صدر جمہوریہ نے ۵ سے
۷اکتوبر انقرہ اور استنبول کا دورہ کیا۔ صدر پرنب مکھرجی کا یہ سرکاری دورہ
ترک صدر عبداﷲ گل کے سنہ۲۰۱۰ء کے دورہ ہند کے جواب میں ہوا ہے۔ وزیر خارجہ
سلمان خورشید کے اس سال جولائی میں اور نائب صدر جمہوریہ حامد انصاری کے
اکتوبر سنہ ۲۰۱۱ء کے دورے کے بعداب صدر مکھرجی کا یہ دورہ خاص اہمیت کا
حامل ہے۔ ترکی سے ہماری جذباتی وابستگی کا ایک سبب وہ تاریخی تحریک ہے جو
نظام خلافت اسلامیہ کے تحفظ کے لئے ہندستان میں (۱۹۱۹-۲۴ء) چلائی گئی تھی
اور جس نے تحریک آزادی کو غیرمعمولی تقویت پہنچائی تھی۔
ایک زمانہ وہ تھا جب ترکی کو ’یوروپ کا مردِبیمار‘ کہا جاتا تھا۔ اب جب کہ
پورا یوروپ بیمار ہے، ترکی میں جسٹس اینڈ ڈولپمنٹ پارٹی (اے کے پی) کی فعال
قیادت میں مذہبی آزادی،سیکولر جمہوری نظام ، سیاسی استحکام اور اقتصادی نمو
کی رفتار روزافزوں ہے اورترکی ایک مثالی ملک کی حیثیت سے ابھر رہا
ہے۔انگولہ اور ترکمانستان میں ہند کے سابق سفیر میم افضل نے ایک ملاقات کے
دوران بڑے پتے کی بات کہی تھی کہ سفارتی رشتوں اوردوروں کی کامیابی
کاپیمانہ یہ ہے کہ اقتصادی تعاون میں فریقین کوکیا فائدہ پہنچتا ہے۔ نائب
صدرجمہوریہ ، وزیر خارجہ اور اب صدرجمہوریہ کے دوروں کا مقصد بھی یہی ہے
عالمی اور علاقائی سطح پر ترکی کے ساتھ تعاون کو فروغ دیا جائے اور دوطرفہ
رشتوں کو مضبوط کیا جائے۔ چنانچہ صدر جمہوریہ نے اس دورے پر روانگی سے قبل
ترک خبررساں ایجنسی ’جیہان‘ کو ایک غیر معمولی انٹرویو میں کہا تھا،’
’ہندستان ترکی کے ساتھ تعلقات کی استواری کو کتنی اہمیت دیتا ہے، یہ میرے
اس دورے سے نمایاں ہوجاتا ہے۔‘‘
ہند اورترکی کے درمیان تجارت تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ سنہ۲۰۱۱ء میں دونوں ممالک
کے درمیان تجارت مقررہ ہدف پانچ ارب ڈالر سے بھی تقریباً ڈیڑھ گناہوگئی۔ اس
وقت تعمیراتی صنعت میں ترکی چین کے بعد دنیا میں دوسرے مقام پر ہے۔ چنانچہ
سڑکوں، ہائی ویز اور پائپ لائنوں کی تعمیر کے پروجیکٹوں میں ترک کمپنیاں
ہند آرہی ہیں۔ ہندستان کی بھی ایک سو سے زیادہ کمپنیاں ترکی میں کاروبار
کررہی ہیں۔ مکان سازی کی صنعت میں ترکی نے حیرت انگیز ترقی کی ہے۔ حال ہی
میں اس نے ایک ایسا وال پیپر بنایا ہے، جوساؤنڈ پروف اور ہیٹ پروف ہے۔ صحت
کے لئے محفوظ ہے اور جب چاہو آسانی سے اتار کر دوسری جگہ لگایا جاسکتا
ہے۔ترکی ہندمیں اس کی مارکیٹنگ کے لئے کوشاں ہے ۔ اس طرح صنعت اور تجارت
میں دوطرفہ تعاون بڑھ رہا ہے۔
صدرجمہوریہ کے اس دورے کے موقع پر اا معاہدوں پر دستخط ہوئے جن میں۶ معاہدے
دونوں ممالک کی یونیورسٹیوں کے درمیان ہوئے۔ اسی لئے صدر کے وفد میں کئی
اہم یونیورسٹیوں کے وائس چانسلر بھی شامل تھے۔ہند اورترکی کے درمیان سیکھنے
سکھانے کا رشتہ قدیم ہے۔ ہمایوں کے دور میں ترک بحریہ کی ایڈمیرل سیدی علی
رئیس ہند آئے تھے اور ہمایوں کے اصرار پر۱۵۵۵-۵۶ء میں یہاں رہ کر علم
فلکیات اورستارہ شناسی کی تعلیم دی تھی۔ اس کا ذکر انہوں نے اپنے
سفرنامہ’میرات الممالک‘ (The Travels and Adventures of Sidi Ali Reis) میں
کیا ہے۔ ہند -ترک ثقافتی رشتوں کی تاریخ بھی پرانی ہے۔ مغل افواج میں بہت
سے ترک آئے جو یہیں بس گئے۔ خودمغل حکمراں ترک زبان و ادب اورتہذیب کے
دلدادہ تھے۔ترکی ان کی روزمرہ کی زبان تھی۔ اس وقت بھی دہلی سمیت ملک میں
کئی شہروں میں ترکی کے تعلیمی و تربیتی ادارے چل رہے ہیں ، جن سے فیض یافتہ
طلباء کے لئے ترکی میں روزگار کے اچھے مواقع متوقع ہیں۔
تاریخی وثقافتی رشتوں سے زیادہ اہم ہند کے لئے ترکی کی وہ اسٹراٹیجک پوزیشن
ہے جو اس کو خصوصاًوسط ایشائی ممالک میں اور خاص طور سے افغانستان میں
امریکا کے انخلاء کے بعد حاصل ہونے کی توقع ہے۔ ترکی کئی شعبوں میں
افغانستان میں سرگرم ہے۔ اپنے جغرافیائی محل وقوع اور زیر زمین بیش بہا
معدنی ذخائر کی بدولت افغانستان کی اہمیت بہت ہے۔ اس جنگ زدہ خطے میں امن
اور استحکام کے لئے ترکی، ایران ، پاکستان اتحاد مشترکہ طور پر سرگرم ہے۔
پاکستان کے تحفظات کی بدولت ہندستان کواس میں شامل نہیں کیا گیا، حالانکہ
ہندستان کی شمولیت سے اس افادیت میں غیر معمولی اضافہ ہوگا۔ ترکی اور ایران
کے ساتھ ہند کے رشتوں میں استواری اس لئے اہم ہے کہ ہندفطری طور پر
افغانستان سمیت پورے وسط ایشائی خطے کی تجارتی ،اقتصادی اور ترقیاتی
سرگرمیوں میں دلچسپی رکھتا ہے۔اس راہ کی بڑی رکاوٹ پاکستان کے ساتھ ہند کے
رشتوں میں ناہمواری ہے جس کا ذکر استنبول میں صدر مکھرجی اور ترک وزیراعظم
رجب طیب ادوغان کی ملاقات میں بھی آیا ۔ہند کی بڑی شکایت سرزمین پاکستان سے
جاری دہشت گردانہ سرگرمیوں کی رہی ہے، جس پر ترک وزیراعظم نے بجا طورسے
محسوس کیاکہ،’’بعض اوقات حکومتوں کے لئے اپنی سرزمین پر اس طرح کی سرگرمیوں
پر مکمل قابو ممکن نہیں ہوتا، لیکن مجھے امید ہے کہ پاکستان اس کے اثر کو
کم سے کم کرسکتا ہے۔‘ ‘ ترکی کا یہ اعتراف بجا ہے اور سفارتی نقطہ نظر سے
بڑا اہم ہے۔ اگر یہ نظر آنے لگے کہ حکومت پاکستان سنجیدگی سے اس وبا پر
قابو پانے کے لئے کوشاں ہے، تو ہند کی شکایت کا ایک حد تک ازالہ ہوسکتا ہے۔
ہندستان اس خطے میں ہرگز توسیع پسندانہ عزائم نہیں رکھتا ۔وہ بشمول پاکستان
پورے خطے میں امن اور استحکام خود ہند کے مفاد میں ہے اس لئے وہ اس کے لئے
کوشاں ہے۔سارک کا قیام اسی کوشش کا ایک حصہ ہے۔ اس خطے میں ہندستان کے جو
اقتصادی، تجارتی اور صنعتی مفادات ہیں، وہ ترکی ،ایران، افغانستان اور
پاکستان سمیت خطے کے تمام دیگرممالک کے بھی حق میں ہیں۔ ترکی کی قیادت نے
گزشتہ ۱۵ سالوں کے درمیان داخلی سیاست اور خارجی امور میں جس طرح کی سوجھ
بوجھ کا مظاہرہ کیا ہے اور علاقائی تنازعات کو سلجھانے میں معاونت کا رویہ
اختیار کیا ہے ، صدر جمہوریہ کا دورہ انقرہ و استنبول اس کا بھی بالواسطہ
اعتراف ہے اور اس کے ثمرات میں شریک ہونے اورترکی کے ساتھ تعاون کی ایک
تدبیر اور پہل ہے۔
مودی کا سچ
ہندتووا کے علمبردار نریندرمودی کی بڑی خوبی یہ ہے کہ ان کی زبان کبھی
پھسلتی نہیں ہے ۔دہلی میں طلباء سے خطاب میں اپنی ہندتوولیڈر کی شبیہ کو
سدھارنے کے فراق میں انہوں نے یہ کہہ کرکہ ’دیوالیوں سے زیادہ شوچالیہ اہم
ہیں‘ ، اپنے چاہنے والوں کو مشکل میں ڈال دیا۔ بھاجپا قیادت تواس بیان کو
پی گئی مگروی ایچ پی لیڈر پروین توگڑیا نے اس پر ناراضگی ظاہر کی اورمودی
پر ہندو جذبات کو مجروح کرنے کا الزام لگایا ہے۔ جذبات کتنے مجروح ہوئے، یہ
تو وہ جانیں جو عوام کے جذبات سے کھیلتے رہتے ہیں اورصرف مذہبی اشوز پر
سیاست کرتے ہیں ،تاہم حقیقت یہ ہے کہ مودی نے کچھ غلط نہیں کہا۔ البتہ
انہوں نے جو کچھ کہا اس پر خودان کو کتنا یقین ہے؟ کتنا عمل ہے؟ اگر وہ
واقعی عوام کی اس ضرورت کی اہمیت کے اس قدر قائل ہیں ،تو کیا مضائقہ ہے وہ
فنڈ جو انہوں نے ایک قومی لیڈر کا فلک بوس آہنی مجسمہ کھڑا کرنے کے لئے
قائم کیا ہے، گجرات میں بیت الخلاء تعمیرکرنے کے لئے وقف کردیں۔ آخر کسی
سیاسی لیڈر کی مورتی کی تنصیب ،دیوی دیوتاؤں کی مورتیوں کی استھاپنا سے بڑھ
کرتو اہم اور مقدس نہیں ہوسکتی ؟ حالیہ مردم شماری سے پتہ چلتا ہے گجرات کی
صرف ۳۴ فیصد دیہی آبادی کو محفوظ واش روم کی سہولت حاصل ہے، باقی سب کھلے
میں فارغ ہوتے ہیں۔
امت شاہ کے دعوے
۱۹؍اکتوبر کی نریندر مودی کی کانپور ریلی کی تیاری کے سلسلہ میں متھرا کے
ایک جلسہ میں یوپی میں ان کے خاص نمائندے امت شاہ نے دعوا کیا کہ گجرات کی
ہر تحصیل میں ٹروما سینٹر(حادثوں کے شکار افراد کے علاج کے مخصوص اسپتال)
موجود ہیں۔ حالانکہ وزیراعلانے چند ماہ پہلے ہی یہ خواہش ظاہر کی تھی کہ وہ
ہر ضلع میں ٹروما سنٹر قائم ہوں۔ دوسرا دعواامت شاہ نے یہ کیا کہ گجرات کے
دوداز علاقوں میں بھی فری ایمبولینس ۶۰ منٹ میں پہنچ جاتی ہے۔ یہ مستعدی
فروری ۲۰۰۲ء میں کہا ں گئی تھی جب پولیس اور پارٹی لیڈروں کی موجودگی میں
ہزاروں افراد کو ہلاک کردیا گیا تھا؟ ان کا پرسان حال تو آج تک بھی کوئی
نہیں۔
فیس بک پر ’نریندرمودی 4 پی ایم‘ پیچ پر امت کے دعوے کو مزید بڑھا چرھا کر
پیش کیا گیا اور ایمبولینس دروازے تک صر ۶ منٹ میں پہنچادی گئی۔ یہ دعوا
بھی کیا گیا کہ ایمبولینس کے لئے فون کال ۹۹ فیصد معاملوں میں گھنٹی بجتے
ہی رسیو کرلی جاتی ہے۔ یہ دعوے ایسے ہی ہیں جیسا کہ اتراکھنڈ میں تباہی
کیوقت کئے گئے کہ نریندر مودی ۶۰ کاریں لیکر اترکاشی پہنچے اور۸ گھنٹوں میں
۱۵ ہزار گجراتیوں کو نکا ل لائے، حالانکہ ہیلی کاپٹروں سے بھی سب متاثرین
کو نکالنے میں ہفتوں لگ گئے۔ امت نے ایک دعوا یہ کیا ہے گجرات میں زرعی
پیدوار میں ۱۹ فیصد سالانہ اضافہ ہورہا ہے، جب کہ خود مودی نے ایک حالیہ
تقریر میں یہ شرح ۱۱ فیصد ہونے کا دعوا کیا تھا۔ یوں تو بھاجپا کی پوری
انتخابی مہم ہی جھوٹ اور فریب کا پلندہ ہے مگر امت شاہ کے ان ہمالیائی
دعووں پر گوبلز کی روح بھی شرماتی ہوگی۔(ختم) |