انتخابی نظام میں تبدیلی ناگزیر

انتخابی دھاندلی دنیا کے ان ممالک کی پہچان ہوتی ہے جہاں جمہوری روایات کی پاسداری نہیں کی جاتی اور جہاں سیاسی جماعتیں جمہوری روایات کی پاسداری پر کامل یقین نہیں رکھتیں ۔ وہ تمام ممالک جو ترقی کر رہے ہیں انکے رویوں میں جمہوریت رچ بس گئی ہے اور یہ تمام اصول انھوں نے اسلام کی تعلیمات سے اخذ کیے ہیں ۔ جمہوریت صرف ووٹوں کی اکثریت کے ذریعے حکومت حاصل کرلینے ہی کا نام نہیں بلکہ جمہوریت عوام کی مرضی اور خواہشات کو عملی جامہ پہنانے والے ایک ایسے نظام کا نام ہے جس میں مختلف الخیا ل لوگ ایک جامع پالیسی وضع کرنے کے بعد عوام کو اس پالیسی پر عملی جامہ پہنانے کے لیئے اپنے اپنے لیئے مدد طلب کر تے ہیں اب یہ عوام کا کام ہے کہ وہ کس کو اپنے لیئے منتخب کرتے ہیں ۔ جتنے با شعور عوام ہونگے انکے نمائندے انکی عکاسی کریں گے ۔ یہ ایک ایسا نظام ہے جہاں عوام کے پاس اختیا ر ہوتا ہے کہ وہ اپنی مرضی کے نمائندے اپنے لیئے چنے تاکہ وہ انکے اجتماعی مقاصد کے حصول کے لیئے کام کرے جو کہ نہ ہی بادشاہت میں ممکن ہے اور نہ ہی آمریت اور ملوکیت میں ممکن ہے۔ جمہوریت کی کامیابی کی کنجی آزاد اور منصفانہ انتخابی نظام پر ہے جتنا بہترین انتخابی نظام ہوگا اتنی ہی جموریت بھی کامیاب ہوگی اور عوام کا اعتماد بھی جمہوریت اور جمہوری روایات پر پختہ ہوگا۔ برصغیر پاک و ہند کی تقسیم کے بعد دو خود مختا ر ریاستیں وجود میں آئیں جو بعد میں ہماری نالائقی اور جموری روایات نہ ہونے کی وجہ سے تین ہو گئیں ۔ ہم اپنے انتخابی نظام کا موازنہ بھارت کے نظام سے کرتے ہیں ۔ بھارت میں کبھی اتنے بڑے پیمانے پر دھاندلی نہیں ہوئی جتنی ہمارے ہاں ہوتی ہے بلکہ یہ کہنا بجا ہوگا کہ اسکے عشر عشیر بھی نہیں ہوئی ۔ وہاں انتخابات کے لیئے نگران حکومتیں نہیں بنتیں ۔ وہاں کا الیکشن کمیشن اس قدر با اختیار ہے کہ کوئی اس کے معاملات میں دخل اندازی کا سوچ بھی نہیں سکتا ۔ وہاں الیکٹرانک ووٹنگ ہوتی ہے ۔ انتخابی شفافیت پر سوال اٹھانا کسی کے بس میں نہیں اور اگر ایسا کوئی بغیر ثبوت کے کرے تو شاید نا اہل کر دیا جائے۔اسی انتخابی نظام میں شفافیت ہونے کی وجہ سے آج بھارت میں پچھلے دس سالوں میں بیس کروڑ سے زائد لوگ غربت سے نکل کر متوسط طبقے میں شامل ہوئے ہیں ۔ اسکے برعکس ہماے ہاں تمام انتخابات میں دھاندلی کے الزامات لگے ۔ ان الزامات کو کسی نے نہ تو صحیح طریقے سے پرکھنے کی کوشش کی اور نہ ہی انتخابی نظام میں موجود خامیوں اور نقائص کو دور کرنے کی کوشش کی گئی جسکے نتیجے میں ہر آنے والے الیکشن میں جس نے جتنے بڑے پیمانے پر دھاندلی کی اتنے ہی مرضی کے نتائج لیئے اس سب میں قصور وار صرف سیاسی جماعتیں ہی نہیں ہیں بلکہ ہر وہ ادارہ قصور وار ہے جسکی اس دھاندلی کو روکنے کی ذمہ داری تھی ۔ میں یہاں صرف قومی اسمبلی کے حلقے 256کی بات کروں گا جسکی الیکشن ٹریبونل میں سماعت ہو رہی ہے ۔ اس حلقے میں’’ کامیاب‘‘ ہونے والے امیدوار کی’’ کامیابی ‘‘کو مخالف امیدوار نے چیلنج کیا اور اس حلقے کے 67پولنگ سٹیشنوں پر انگوٹھوں کے نشات کی تصدیق کے لیئے نادرا سے درخواست کی ، نادرا کی پیش کی جانے والی رپورٹ نے مجھے ہلا کر رکھ دیا ایک شخص 35 دفعہ ووٹ ڈالتا ہے اور ہمارے ہاں کوئی ایسا نظام نہیں کہ ہم اسے اسی وقت پکڑ سکیں اور اسے قرار واقعی سزا دے سکیں۔ اس حلقے میں تقریبا گیارہ ہزار ووٹوں کی تو یقینی طور پر دھاندلی ہوئی ہے باقی ماندہ ستاون ہزار سے زائد انگوٹھوں کے نشانات کو میچ کرنا نادرا کے بس کی بات نہیں اس نے تو میرے پاؤں کے نیچے سے زمین کھینچ لی کیونکہ میں یہ سمجھتا تھا کہ جس شخص نے بھی نادرا سے شناختی کارڈ یا ب فارم بنوایا ہے اسکے کسی چائے کے کپ یا پینے کے گلاس کے اوپر ملنے والے فنگر پرنٹس سے بھی نادرا کے ذریعے اسکی شناخت ہو سکے گی مگر ایک حلقے میں ستاون ہزار سے زائد لوگ انکا ہمارے ملک کے سب سے بڑے بہترین آئی ٹی کے ادارے کے پاس ریکارڈ نہ ہونا کتنا بڑا سیکورٹی رسک ہے اسکے بارے میں اندازہ لگانا مشکل نہیں اور یہ صرف 67 پولنگ سٹیشنوں کی بات ہے باقی نہ جانے پورے ملک میں کیا حال ہوگا اپنے مستقبل کے خطرات اور ہماری تیاریوں کے بارے میں سوچ کر ہی میری نیند ہوا ہو گئی ہے ۔ ایک اور چیز جو ہمارے انتخابی نظام کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے وہ انگوٹھوں کے نشانات کی تصدیق کے لیئے امیدوار کا پیسے دینا بھی شامل ہے یعنی اب ایک عام آدمی کے پاس انتخابات میں حصہ لینا صرف خواب ہی ہو کر رہ گیا ہے کیونکہ جس بڑے پیمانے پر دھاندلی ہوتی ہے اسکے لیئے تو پول ہونے والے ہر ووٹ کی تصدیق لازمی ہے زبیر خان تو ایک سیاسی جماعت کا امیدوار تھا جسکی وجہ سے اسکے پاس اس مقصد کے لیئے چندہ بھی اکٹھا ہو گیا اور انھوں نے مبلغ 9لاکھ روپے ادا کیے اگر باقی حلقے میں بھی کروائے تو شاید اتنے ہی اور بھی دینے پڑیں مگر کیا کوئی آزاد امیدوار جو کہ ملک اور اپنے حلقے کی بھلائی کے لیئے میدان میں آنا چاہے کیا وہ کروڑوں روپے لگا سکے گا ؟ یقینا یہ ہمارے انتخابی نظام کی بہت بڑی خامی ہے ، ایک اور خامی جو کہ ہمارے انتخابی نظام میں ہے وہ بیرون ملک پاکستانیوں کو ووٹ کا حق نہ دینے کا ہے اور سیاست کے طالب علم یہ بات جانتے ہونگے کہ حق رائے دہی سے صرف انہی لوگوں کو محروم رکھا جاتا ہے جو اس ملک کے شہری نہیں ہوتے کتنے دکھ اور افسوس کی بات ہے کہ ہم اپنے ان بھائیوں کو جو اپنا دن رات ایک کر کے ہمارے بہتر مستقبل کی فکر و جستجو میں ہیں اور جنکی کمائی سے یہ ملک چل رہا ہے انکے ساتھ ہم امتیازی سلوک کر رہے ہیں ۔

اب وقت آگیا ہے کہ ہم اس انتخابی نظام کو بدلیں تاکہ صحیح عوامی رائے سامنے آسکے ۔ ہمیں فی الفور بیلٹ پیپر کے اس فرسودہ نظام سے جان چھڑانا ہوگی اور الیکٹرانک ووٹنگ مشینیں خریدنا ہونگی اور اسکے لیئے بھارت ہمارے پاس بہترین چوائس ہے اگر ہمارے پاس پیسے نہ ہوں تو اقوام متحدہ بھی اس کے لیئے ہمارے ساتھ تعاون کرنے کو تیا رہوگا کیونکہ ہمارے ملک میں فی الحال ایسا سٹرکچر نہیں کہ ہم اپنے ملک میں اتنے بڑے پیمانے پر ایسی مشینیں تیا ر کر سکیں ۔ اور یہی توانائیاں جو ہم اس سوفٹ وئر کو تیا ر کرنے میں صرف کریں گے وہی تمام لوگوں کا ریکارڈ کمپیوٹرائزڈ کرنے میں بھی صرف کی جا سکتی ہیں تا کہ آئندہ کوئی بھی مجرم ہمارے پاس ریکارڈ ہونے کی وجہ سے قانون کے ہاتھوں سے نہ بچ سکے ۔ ایسے تمام اشخاص جنہوں نے انتخابات میں دھاندلی کی یا دھاندلی میں ملوث رہے ہوں انکو آئندہ 10 سال کے لیئے حق رائے دہی اور حق انتخاب سے محروم کر دیا جائے تاکہ آئندہ کسی کو بھی اس طرح کی حرکت کرنے کی جرآت نہ ہو ۔ ایک آزاد اور خود مختار الیکشن کمیشن کی تشکیل کی بھی ضرورت ہے جو ذمہ داری محسوس کریں وہ مضبوط کردار کے ساتھ مضبوط اعصاب اور مضبوط ارادوں کے بھی مالک ہوں نہ کہ فخرو بھائی کی طرح استعفی دے کر گھر چلے جائیں اور اپنی ساری زندگی کی ایماندارانہ و پیشہ ورانہ خدمات کا صلہ طعنوں کہ صورت میں پائیں ۔ انتخابی نظام میں تبدیلی اب ناگزیر ہے ۔ قوی امید کرتا ہوں کہ یہ آواز میرے اکیلے کی آواز نہیں ہوگی ۔

Zahid Mehmood
About the Author: Zahid Mehmood Read More Articles by Zahid Mehmood: 57 Articles with 75854 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.