آجکل ایران امریکہ تعلقات ہر
محفل کا موضوع بحث بنے ہوئے ہیں۔کیا صرف مذاکرات یا امریکہ کیساتھ مذاکرات
سے ایرانی معیشت کی مشکلات حل ہوسکیں گی؟اور بعض رفقاء یہ کہہ رہے ہیں کہ
یہ مشکلات صرف اسءی صورت میں حل ہوسکتی ہیں جب ایران کا جوہری پروگرام کا
تنازعہ حل ہوجائے اور وہ بھی صرف اور صرف ایران امریکہ براہ راست مذاکرات
اقتصادی پابندیوں کے خاتمے سے ہی ممکن ہے۔اور ان دونوں راہ حل کا نتیجہ یہ
نکلے گا کہ امریکہ کے مطالبات تسلیم کرلیے جائیں۔یہ راہ حل ایران کی
اقتصادی ترقی میں کس حد تک معاون ثابت ہوگا؟
جبکہ تاریخ بتاتی ہے کہ امریکہ نے دنیا کے دوسرے ممالک میں اپنے مطالبات
منوانے کیلئے سیاسی،فوجی اور اقتصادی جیسےمختلف طریقوں سے استفادہ کرتا رہا
ہے۔دوسری عالمی جنگ سے جب دنیا میں دو جانبہ نظام کے قائم ہونے اور سرد جنگ
کی وجہ سے امریکہ مجبور ہوگیا کہ اپنے مخالفین کیخلاف خفیہ اور غیر فوجی
طریقوں پر عمل پیرا ہو اور اس مقصد کیلئے اس نے ان مخالف ممالک کیخلاف
تجارتی اور اقتصادی پابندیوں کا طریقہ کار اپنایا۔
امریکی صدر جان ایف کینیڈی نے 1962 میں کیوبا پر دباؤ بڑھانے کی خاطر اس
کیخلاف اقتصادی پابندیاں لگائیں اور اسی طرح شمالی کوریا اور دوسرے ملکوں
کیخلاف بھی یہی روش جاری رکھی آخر کار آہستہ آہستہ یہ روش امریکی خارجہ
سیاست کا حصہ بن گئی۔لبنان،لیبیا ،سوڈان،شام ،میانمار ،عراق اور اسی
طرح1979 میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد ایران کو بھی ان پابندیوں کا
سامنا کرنا پڑا۔
سلامتی کونسل نے امریکی دباؤ پر 1990 تا 2003 عراق پر پابندیاں لگائیں ایک
مکمل اور تباہ کنندہ پابندیاں تھیں ۔یہ پابندیاں ایک عالمی ادارے کی جانب
سے ایک ملک کیخلاف لگائیں گئیں۔joy gordon نے اپنی کتاب ( invisible war )میں
عراق کیخلاف امریکی کردار کے حوالے سے بحث کی ہے اور اس نے کوشش کی ہے کہ
مخصوص سختیوں کے متعلق جان سکے جیسا کہ امریکہ نے (دہرا استعمال)اور (بڑے
پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار)جیسی باتوں کے ذریعے عراق کو برامد کی
جانے والی مختلف اشیاء پر پابندی لگوا دی جن میں کپڑے دھونے کے سرف سے لیکر
بچوں کی ویکسین تک سب چیزیں شامل تھیں تا کہ عراق ان سے اسلحہ نہ بنا
لے۔مصنف نے مختلف خفیہ رپورٹوں ،انٹر ویوز اور انڈور ملاقاتوں کی بنا پر
تفصیل سے بیان کیا ہے کہ کس طرح امریکہ نے عراق کو بھیجی جانے والی انسان
دوستانہ مدد میں رکاوٹیں ڈالیں بلکہ عراقی رجیم کی اصلاح کیلئے ہونے والے
اقدامات کو ناکامی سے دوچار کیا اور آخر کار یو این او کے کیمیائی ہتھیاروں
کے ماہرین کے پیشہ وارانہ کام میں مداخلت کی اور انکی اکثریت کو فریب دیکر
سلامتی کونسل میں فیصلہ اپنے فائدے میں کروا لیا۔
اور آج جب عراق کیخلاف پابندیوں کے تمام تر امریکی بہانے ختم ہوچکے اور
صدام بھی پھانسی پر لٹکایا جاچکا لیکن ابھی تک عراقی حکومت اور عوام منتظر
ہیں کہ کب یہ پابندیاں ختم ہوتی ہیں ؟امریکی قبضے کو 10 سال گذر چکے لیکن
لگتا ہے کہ امریکہ اپنا کام نکال کر عراقی عوام کو بھول گیا ہے ۔جو ملک
عراق پر پابندیاں لگوانے میں پیش پیش تھا آج وہ ان پابندیوں کے خاتمے میں
مؤثر واقع نہیں ہو رہا۔
ان پابندیوں کا دوسرا نمونہ سوڈان ہے جسے کہا گیا کہ ڈارفر کے مسئلے کے پیش
نظر سوڈان دوحصوں میں تقسیم ہو اور ریفرنڈم کرایا جائے اور شمالی سوڈان
جنوبی سوڈان کو تسلیم کرے تو اسے دہشتگردی کے حامی ممالک کی فہرست سے نکال
دیا جائے گا اور اس کیخلاف تمام پابندیاں ختم کردی جائیں گی لیکن سب کچھ
ہونے کے باوجوداب تک امریکہ کا وعدہ ایفاء نہیں ہوا۔لیکن اس کے برعکس
امریکی مطالبات میں اضافہ ہوتا گیا۔
اسی طرح دوسرے بھی چند ایک ملک ہیں جنہوں نے امریکی مطالبات تسلیم کیے لیکن
پابندیاں ختم نہ ہوسکیں۔
امریکہ کا پابندیوں کے برخلاف ایک دوسرا حربہ جسے بیرونی امداد کا نام دیتا
ہے اس حربے سے بھی اس نے کئی ایک ممالک کو گھیرا ہوا ہے جن میں سے ایک
ہمارا کشور حسین شاد باد پاکستان اور مصر ہے جو اس بیرونی امداد سے فائدہ
اٹھا رہے ہیں۔ لیکن سب تجزیہ نگار متفق ہیں کہ اس امداد نے نا صرف ان ملکوں
کو ئی فائدہ نہیں پہنچایا بلکہ انہیں پتھر کے دور میں لیجانے کا باعث بنی
ہیں۔
ان تمام مثالوں کو مدنظر رکھتے ہوئے سمجھا جا سکتا ہے کہ یہ پابندیوں کا
لگنا یا انکا خاتمہ یا بیرونی امداد یا امریکی مقاصد اور اہداف کے مطابق
امریکہ سے تعلقاتسے کسی بھی ملک کو فائدہ نہیں پہنچا بلکہ اس ملک کی مزید
تباہی کا موجب بنی ہے۔لیکن ایران کے حوالے سے معاملہ تھوڑا مختلف ہے کیونکہ
اوبامہ کے پاس مختلف لابیوں کے پریشر کے باعث 31 پابندیوں میں سے صرف 8
پابندیاں ختم کرنے کا اختیار ہے۔
لیکن دوسرے کئی اقتصادی ماہرین کے مطابق ایران نے ۳۰ سال ان پابندیوں کا
ذائقہ چکھ لیا ہے اور اسکی اقتصادی مشکلات کی وجہ اندرونی طریقہ کار ہے جس
کیلئے ایک بڑے اور منظم پروگرام کی ضرورت ہے تاکہ اقتصادی ترقی کی رفتار کو
بڑھایا جا سکے اور اس کے ذریعے معاشی مشکلات پر پایا جا سکے گا۔ |