الیکشن یا فکسڈ سیاسی میچ

یہ تو واقع ہی حقیقت ہے کہ ہمارے معاشرے کی ایک بہت بڑی بد بختی یہ بھی ہے کہ یہاں کوئی شخص شکست کھا کر بھی شکست تسلیم نہیں کرتا۔یہ جراثیم5 سال کے بچے سے لیکر 85سال کے بزرگ تک تقریباً تمام میں عام پائے جاتے ہیں۔مگر 2013کے انتخابات کے نتائج کی بات بالکل الگ ہے ۔ پچھلے دنوں انتخابات میں ایک بہت بڑا سیاسی میدان سجا کہ جہاں ہر کوئی سیاستدان دانتوں کے منجن بیچنے والے کی طرح روایتی دعویٰ بازی میں مشغول تھا جو کہ ہمارے بد نصیب سیاسی کلچر کا حصہ ہے مگر دوسری طرف کینڈا سے امپورٹ ہوئے جید مولوی صاحب نے ایک علیحدہ آگ لگا دی کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان غیر آئینی ہے اور یہ الیکٹرورل پروسیس اور ایکٹرورل سسٹم کرپٹ اور گندہ ہے جس سے گزر کر کوئی الیکشن صاف اور شفاف نہیں ہو سکتا۔جس پر ملک کے تقریباً تمام سیاسی شخصیات نے ان کا مذاق اڑایا اور اسے صرف ایک ڈرامہ قرار دے دیا۔مگر مولوی صاحب پرجوش اور شعلہ بیاں تقریروں کے ذریعے قوم کو سمجھاتے رہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان آئین کے آرٹیکل نمبر 213کی خلاف ورزی کے تحت تشکیل دیا گیا ہے۔اور غیر آئینی الیکشن کمیشن کسی بھی صورت ملک کو درست انتخابات نہیں دے سکتا۔اور اگر ایسے ہی انتخابات ہوئے تویہ غیرآئینی انتخابات ہوں گے اور قوم جلد مایوس ہو جائے گی اور پھر سیاسی جماعتیں میری اس بات کو تسلیم بھی کریں گی اور احتجاج بھی کریں گیں۔مگر طاہر القاردی صاحب کی اس بات پہ کسی نے کان نہ دھرنے کی کوشش بھی نہ کی۔ اور اسی الیکشن کمیشن اور اسی سسٹم کے ذریعے11مئی 2013ء کو ملک میں عام انتخابات کرائے گئے اور ابھی گنتی ہی شروع ہوئی تھی کہ پاکستان مسلم لیگ ن کے قائد میاں محمد نوازشریف اور میاں محمد شہباز شریف نے چند پارٹی رہنماؤں کے ہمراہ قوم سے خطاب کیا اورقوم کو ان پر اعتماد کرنے کا شکریہ ادا کیا اور مسلم لیگ ن کی فتح پر مبارک باد دی۔اور پھر اگلے دن نتیجہ آیا اور مسلم لیگ ن نے پورے پاکستان میں بھاری کامیابی حاصل کی۔مگر اس پورے سین میں آج تک یہ بات میرے پلے نہیں پڑی کہ کیا اس رات میاں صاحب کو کسی درویش نے خواب میں یہ نوید سنائی تھی یا ان پر کوئی الہام ہوا تھا یا کسی فرشتے نے آ کر انہیں بتا یا تھا کہ حضور اعلیٰ آپ صبح جیت رہے ہیں اور وہ بھی بھارے مینڈیٹ سے ،اور دوسری جانب بڑے بڑے جلسے کر چکی تحریک انصاف چند نشستیں ہی حاصل کر سکی اور نتائج ماننے سے ہی انکار کر دیا۔اور حامی احتجاج کرنے لگے اور پہلی دفعہ احتجاج کرنے والوں میں وہ تمام جماعتیں شامل تھیں جو پہلے حکومت میں تھیں۔اور عمران خاں نے کہا کہ پاکستان کی تاریخ کی سب سے بڑی دھاندلی ہوئی ہے اورہمارا مینڈیٹ چوری ہوگیا اور الیکشن کمیشن آف پاکستان ملک میں صاف شفاف الیکشن کرانے میں ناکام رہا۔اورتب ان کو ڈاکٹر صاحب اور ان کی باتیں یاد آئیں۔ عمران خان نے ووٹوں کی دوبارہ گنتی کرانے اور انگوٹھوں کے نشان چیک کرانے کا مطالبہ کیا جو کہ مسترد کردیا گیا،چند حلقوں میں ووٹوں کی گنتی ہوئی جو کہ بے معنی تھی کہ جب تک تھم امپریشن چیک نہ کیے جائیں۔عمران خاں نے مزید عدلیہ کے کردار کو شرمناک قرار دیااور پھر توہین عدالت کے کیس کا سامنا کرنا پڑا۔پہلی بات تو یہ تھی کہ الیکشن کمیشن غیر آئینی تھا جس کا اعتراف خورشید شاہ نے خود کیا تو پھر عدالت نے الیکشن کمیشن کی دوبارہ تشکیل کا حکم کیوں نہ دیا؟صرف عدالت یہی دیکھتی رہی کہ یہ شخص کینڈا کی شہریت رکھتا ہے تو کیا وہ پاکستان کا شہری نہیں اور مجھے کوئی قانون کا ایک آٹیکل دکھائے کہ جہاں درج ہو کہ عدالت میں دہری شہریت رکھنے والے شخص کی سماعت نہیں ہو سکتی۔تمام یہی دیکھتے رہے کہ یہ آدمی کون ہے کہاں سے آیا ہے؟ اس کا شور مچانے کا مقصد کیا ہے؟ مگر کسی نے یہ نہ سناکہ یہ آدمی کہہ کیا رہا ہے؟اور اب تاریخ میں لکھا جا چکا کہ پاکستان کے 2013ء کے انتخابات ایک غیرآئینی الیکشن کمیشن نے کرائے۔تو ایک غیرآئینی الیکشن کمیشن ملک میں آئینی الیکشن کیسے کروا سکتا ہے؟مختصر یہ کہ 2013ء کے انتخابات غیرآئینی تھے اور انہیں محض آئینی رنگ دے دیا گیا۔اور میں واضع کردوں کہ یہ دوسروں کے مینڈیٹ پر پہلا ڈاکا نہیں اصغر خاں کیس بھی بہتوں کو سمجھ آچکا۔چلو انتخابات ہو گئے اور مان لیا کہ دھاندلی نہیں ہوئی تو کسی کو بیلٹ پیپر ز کی تصدیق کرانے میں کیا تکلیف ہے؟اگر سیاسی جماعتیں اتنا ہی شور مچا رہی ہیں توچند حلقوں کے ووٹوں کی نادرا سے تصدیق کرا لی جائے تو سب واضع ہو جائے گا۔اور انگوٹھوں کی تصدیق سے سب دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا۔مگر تحریک انصاف سمیت کئی جماعتیں تین ماہ سے پیٹ رہی ہیں کہ خدا کا واسطہ ووٹوں کی تصدیق کرا لو!مگر ایسا نہ ہو سکا تو دال میں کچھ تو کالا ہے یا ساری دال ہی کالی ہے۔اسی دوران حامد میر سے لیکرمبشر لقمان تک کئی سینئر اینکرزبراہ راست میڈیا اسکرین پر دھاندلی کے ثبوت دیتے رہے اور جعلی ووٹ ڈالنے، انگوٹھے لگانے اور مسلم لیگ ن کے رہنماؤں کی گاڑیوں میں بیلٹ پیپرز لے جانے کی ویڈیوز دکھاتے رہے مگر پھر بھی الیکشن کمیشن تھم امپریشن چیک کرانے پر رضامند کیوں نہیں ہو سکا؟اور پھر ایسی صورت میں کہ جب تمام سیاسی جماعتیں اس کے اخراجات برداشت کرنے کے لیے تیار ہوں،اور پھر عمران خان نے جو سوال اٹھایا وہ غلط تھا کہ اگر انگوٹھوں کے نشان چیک نہیں کر سکتے تو یہ سسٹم رکھا ہی کیوں تھا؟اور نادرا تو ایک دن میں لاکھوں ووٹوں کی تصدیق کر سکتا ہے تو پھر کون تصدیق کرانانہیں چاہتا اور کیوں نہیں کرانا چاہتا؟سب کے سامنے ہے کہ صرف کراچی میں پی ٹی آئی کے زیبر خاں کی درخواست پر این اے 256کے تمام ووٹوں کی دوبارہ گنتی بمعہ انگوٹھاتصدیق ہوئی تو67پولنگ اسٹیشنز کے کل 88ہزار448ووٹوں میں سے77ہزار642ووٹ جعلی نکلے اور صرف 6ہزار 806ووٹوں کی تصدیق ہو سکی توکیا اس ایک نتیجہ نے سبظاہر نہیں کر دیا کہ الیکشن 2013میں کیا گیم کھیلی گئی ہے؟اور پہلی دفعہ مجھے مولانا کی بھی کوئی بات سچ لگ رہی ہے کہ’’ الیکشن میں دھاندلی نہیں بلکہ دھاندلا ہوا ہے‘‘ ۔اگرسپریم کورٹ عمران خاں کے ایک لفظ پر،سووموٹو لے سکتی ہے،توہین عدالت کے کیس چلا دیتی ہے توادھر مینڈیٹ چوری ہو گئے تمام پارٹیاں چانگڑیں مار رہی ہیں کہ دھاندلا ہو گیا تو اب ایکشن کیوں نہیں لیتی ،آخرکون رکاوٹ ہے ؟؟ایک مرتبہ پورے ملک کے نہیں تو چند بڑے حلقوں میں انگوٹھوں کی تصدیق کرا لو،ورنہ یہ بات تاریخ یاد رکھے گی !اور چودھری صاحب یاد رکھیے کہ بیشک اپنانام پیدا کرنے کے لیے ایک ہزار اچھے کام کرنے پڑھتے ہیں مگر اپنا امیج خراب کرنے کے لیے ایک ہی غلط کام یا فیصلہ کافی ہوتا ہے۔
Javed Askari
About the Author: Javed Askari Read More Articles by Javed Askari: 8 Articles with 7352 views Syndicated Columnist, Political Analyst, Poet and Author, writes "Neemtalh" column 2 to 3 times in a week published in more than 50 Newspapers of Paki.. View More