پْلِ صراط پر کھڑے لوگ

سیاسی مو ضو عات اور ملک کے سلگتے مسائل پرلکھ لکھ کر آج قلم کے منہ کا ذائقہ بد لنے کے لئے زندگی کی ایک ایسی حقیقت کے بارے لکھنا چاہتا ہوں جو تجربات کی سنگلاخ وادیوں سے گزرنے کے بعد سمجھ میں آ ئی ہے۔کتابوں میں ہم جو ضرب ا لامثال، محاورات اور تمثیل وغیرہ پڑھتے ہیں ان کے پسِ پردہ کوئی نہ کوئی فلسفہ یا سوچ ضرور موجود ہوتی ہے مگر کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جو ان اصل مفہوم اور ان میں پو شیدہ گہرے فلسفہ کو سمجھنے کی کو شش کرتے ہوں ۔میں بھی انہی لو گوں میں سے ہوں ۔بچپن میں ایک تمثیل سنی تھی، اب ایک طویل عرصہ گزرنے کے بعد اس تمثیل کی گہرائی اور مطلب سمجھنے کے اہل ہوا ہوں جب اس کی عملی مثال دیکھی مگر آ ئیے ! پہلے تمثیل کو پڑھ لیجئے۔

یہ بات تو آ پ نے سنی ہو گی کہ جنت میں داخل ہو نے کے لئے پہلے پلِ صراط میں سے گزرنا پڑتا ہے۔کہتے ہیں ، اسی بات کی تشریح کرنے کے لئے ایک گا وٗں میں مو لوی صاحب بڑے پر جو ش انداز میں پلِ صراط کی تفصیل بتا تے ہو ئے کہ رہے تھے کہ پلِ صراط سر کے بال سے زیادہ باریک اور تلوار کی دھار سے زیادہ تیز ہوگا۔ایک دفعہ پلِ صراط کی تصویر کشی کے بعد جب مولوی صاحب نے اپنی تقریر میں زیادہ اثر پیدا کرنے کے لئے دوبارہ پلِ صراط کی کا نقشہ جذ باتی انداز میں کھینچا تو ایک سیدھا سادہ کسان اٹھ کر مو لوی صاحب سے مخاطب ہوا۔’’ مولوی صاحب ! سیدھی اور صاف بات کیوں نہیں کہتے کہ پلِ صراط سرے سے مو جو د ہی نہیں ‘‘ یہ بات میں نے بچپن میں سنی تھی مگر اب جبکہ زندگی کے 64بہاریں اور خزاں دیکھ چکا تو اس کی سمجھ آ ئی ہے کہ اس تمثیل کا مطلب یہ ہے کہ اسلامی اصولوں کے مطا بق زندگی گزارنا ہی دراصل پلِ صراط پر سے گزرنے کے مترادف ہے، فی زمانہ بدی کی کشش انسان کو قدم قدم پر اپنی طرف کھینچتی ہے خوفِ خدا کے سبب ہر بدی سے بچنا بالکل یوں ہی ہے جیسے انسان سمندر میں رہے اور اس کا دامن بھی نہ بھیگے-

آ ج جبکہ عمو ما یہ سمجھا جاتا ہے کہ وطنِ عزیز میں انسانی اقدار پست سطح کو چھو رہے ہیں ، ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو پلِ سراط پر کھڑے ہیں، ان کی ایک طرف جدید دور کی آ سا ئشیں ہیں،جھوٹا وقار اور معا شرتی رتبہ ہے، دولت اور آرام دہ زند گی ہے مگر دوسرے طرف فقط صبر اور دنیا کے آ لا ئشوں سے دامن بچا کر اﷲ تعالی کی خو شنودی اور اس کی مخلوق کی بہتری موجود ہے۔ ایسے ہی ایک شخص کو میں نے بڑے قریب سے دیکھا ہے، ذیادہ تفصیل بیان نہیں کرونگا، ورنہ قارئین اسے خو شامد کے زمرے میں شمار کر لیں گے صرف اتنا کہوں گا کہ اﷲ تعالیٰ کا دیا ہوا سب کچھ اس کے پاس ہے،صرف نام ہی گوہر زمان نہیں بلکہ گو ہرِ زمانہ ہے، علم کی روشنی پھیلانا اس کا پیشہ ہے۔ان کا تعلیمی ادارہ گورنر کے پی کے سے صوبہ خیبر پختونخواہ میں بہترین تعلیمی ادارے کا ایوارڈ حاصل کر چکا ہے ان کے خاکساری کا یہ عالم ہے کہ مو بائل فون پاس نہیں،ذاتی گا ڑی نہیں، ائیر کنڈیشنر کبھی استعمال نہیں کیا ، ان کا کہنا ہے کہ انسان مر جا تا ہے مگر اس کے کام باقی رہ جاتے ہیں ۔اس کے قریب کچھ عرصہ گزار کر میں نے پلِ صراط پر سے گزرنے کا مفہوم سمجھا ہے، یقینا متوازن زندگی بسر کرنا نہا یت کٹھن اور مشکل کام ہے۔اگر آپ با اختیا ر ہیں اور اپنے اختیارات کا غلط استعمال نہیں کرتے،اگر آپ دولت مند ہیں اور دولت کو نیکی پھیلانے کے لئے استعمال کرتے ہیں اور مواقع میسر ہونے کے باوجود غلط راستوں اور شیطانی لذٌتوں سے کنارہ کش رہتے ہیں۔اگر آپ تنگ دست ہیں لیکن مواقع میسر ہونے کے باوجود غلط ذرائع سے حا صل ہونے والی آمدنی قبول نہیں کرتے تو یقینا آپ پلِ صراط پر سے گزر رہے ہیں اور جس نے توازن بر قرار رکھا وہ پلِ صراط پر سے گزر گیا،وہ جنت میں داخل ہو گیا۔۔۔

وطنِ عزیز میں اب بھی بے شمار ایسے لو گ ہو نگے جو پلِ صراط پر کھڑے ہو کر زندگی گزار رہے ہونگے اِسی لئے تو ہزار خطروں کے باوجود پاکستان قائم و دائم ہے۔میں داد دیتا ہوں ایسی تمام شخصیات کو جنہوں نے اپنی نفسانی اور مادی خوا ہشات کو قربان کرتے ہو ئے نیکی کا راستہ اختیا ر کیا ہوا ہے، گویا بال سے زیادہ باریک اور تلوار سے زیادہ تیز پلِ صراط پر سے گزر رہے ہیں۔ ہم سب کو چاہیئے کہ زندگی کو پلِ صراط سمجھیں اور ہر شعبہ زندگی میں توازن بر قرار رکھیں کیو نکہ پلِ صراط کو کا میابی سے عبور کرنا ہی انسانی زندگی کا معراج ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔
roshan khattak
About the Author: roshan khattak Read More Articles by roshan khattak: 300 Articles with 324471 views I was born in distt Karak KPk village Deli Mela on 05 Apr 1949.Passed Matric from GHS Sabirabad Karak.then passed M A (Urdu) and B.Ed from University.. View More