حج کی اصطلاحات ومقامات اور فضائل ومسائل

بسم اﷲ الرحمن الرحیم

حج کا لغوی معنی ہے: ارادہ کرنا، زیارت کرنا، غالب آنا وغیرہا۔ لیکن اسلام میں حج ایک مشہور عبادت ہے جو خانہ کعبہ کے طواف (چکر) اور مکہ مکرمہ شہر کے متعدد مقدس مقامات میں حاضر ہو کر کچھ آداب و اعمال بجالانے کا نام ہے۔ حج اسلام کے پانچ ارکان میں سے ایک رکن ہے، جس مسلمان میں اس کے فرض ہونے کی شرطیں پائی جائیں اس پر عمر میں ایک بار حج کرنا فرض ہے۔ وہ شرائط یہ ہیں:
1․ مسلمان ہونا۔ 2․ اگر کفار کے ملک میں ہو تو حج کے فرض ہونے کا علم ہونا۔ 3․ عقلمند ہونا یعنی پاگل نہ ہونا۔ 4․ بالغ ہونا۔ 5․ آزاد ہونا۔ 6․ تندرست ہونا کہ اعضاء سلامت ہوں۔ لیکن اگر پہلے تندرست تھا اور دیگر شرائط فرضیت حج پائے جانے کے بعد اپاہج ہو گیا تو کسی دوسرے مسلمان کو اپنی طرف سے حج کرانا ضروری ہے اور اسے حج بدل کہا جاتا ہے۔ 7․ مکہ مکرمہ پہنچنے کی طاقت ہونا۔ اور اس سے مراد یہ ہے کہ حاجت اصلیہ مثلاً رہائش کا مکان، سواری، استعمال کے کپڑے ، برتن و بستر اور اوزار وغیرہا کے علاوہ اس کے پاس سوار ہو کر سفر کے اخراجات و دیگر ضروریات خورد ونوش ورہائش کے علاوہ اپنی واپسی تک اپنے اہل وعیال جن کا خرچہ اس کے ذمے ہے، موجود ہو۔ 8․ ان شرائط بالا کا حج کے مہینوں شوال ، ذیقعد، اور ذوالحج میں موجود ہونا۔ جبکہ عورت کیلئے اگر اس کا گھر خانہ کعبہ سے 57میل 3فرلانگ (تقریبا 92کلومیٹر) کی مسافت پر یا اس سے زائد ہو تو واجب ہے کہ شوہر یا محرم کے ساتھ حج کیلئے روانہ ہو، ورنہ سخت گنہگار ہو گی۔ محرم سے مراد وہ رشتہ دار ہے جس کے ساتھ ہمیشہ ہمیشہ نکاح حرام ہے۔مثلاً باپ ، بیٹا وغیرہ اور محرم کا بالغ اور صالح ہونا بھی ضروری ہے۔

حج میں کچھ کام فرض ہیں جن کے بغیر حج ہوتا ہی نہیں، کچھ کام واجب ہیں جن میں سے کسی ایک کے رہ جانے سے عموعاً دم (قربانی) واجب ہو جاتا ہے، کچھ کام سنت ہیں جن کے رہ جانے سے ثواب و برکت میں کمی آتی ہے لیکن حج ہو جاتا ہے، اور کچھ کام منع ہیں جن کے کر لینے سے جرمانہ واجب ہوتا ہے اور بعض میں حج فاسد ہو جاتا ہے اور بعض میں صرف ثواب میں کمی آتی ہے۔

حج کے فرائض یہ ہیں:
1․ نیت حج یعنی دل میں حج کا ارادہ کرنا۔ 2․ احرام۔ 3․ وقوف عرفات، یعنی میدان عرفات میں 9ذوالحج کو دوپہر کے بعد کچھ وقت ٹھہرنا۔ وقوف عرفہ اگر دن کو نہ کر سکے تو آئندہ رات کو صبح صادق سے پہلے تک یہ فرض ادا کیا جا سکتا ہے۔ 4․ طواف زیارت۔ 5․ ان افعال میں ترتیب۔ ان فرائض میں سے ایک کے بھی رہ جانے سے حج نہیں ہوتا۔

حج کے ’’واجبات‘‘ درج ذیل ہیں:
1․ میقات سے باہر کے آنے والوں کیلئے میقات یا اس سے پہلے احرام باندھنا۔ 2․ سعی۔ 3․ سعی صفا سے شروع کرنا۔ 4․ اگر عذر نہ ہو تو سعی پیدل کرنا۔
5․ دن کو وقوف عرفہ کرنے والے کیلئے غروب آفتاب تک عرفات میں ٹھہرنا۔ 6․ سعی کا طواف کے کم ازکم چار چکروں کے بعد ہونا
7․ عرفات سے امام کے ساتھ مزدلفہ واپسی۔ 8․ مزدلفہ میں ٹھہرنا۔ 9․ مغرب و عشاء کی نماز عشاء کے وقت میں مزدلفہ میں ادا کرنا۔
10․ ۱۰ ذوالحج کو صرف پہلے جمرہ (ستون) کو سات کنکریاں اور گیارہ، بارہ ذوالحج کے روز تینوں جمروں کو کنکریاں مارنا۔
11․ ۱۰ ذوالحج کو رمی حلق سے پہلے کرنا۔ 12․ حلق یا تقصیر دس،گیارہ اور بارہ میں سے کسی روز حرم کی حدود کے اندر اندر کرنا۔
13․ عمرہ و حج دونوں کی سعادت حاصل کرنے والے کیلئے قربانی کرنا جو کہ ایام قربانی میں حدود حرم کے اندر ہو، نیز رمی کے بعد اور حلق وتقصیرسے پہلے ہو۔
14․ طواف زیارت کا اکثر حصہ ایام قربانی کے اندر ادا کرنا۔ 15․ طواف کا حطیم کعبہ سے باہر کرنا۔ 16․ دائیں طرف طواف کرنا۔ 17․ عذر نہ ہو تو پیدل طواف کرنا۔
18․ طواف باوضو کرنا۔ 19․ طواف کے وقت اپنا ’’ستر‘‘ ڈھانپنا۔ 20․ طواف کے بعد 2رکعت پڑھنا۔ 21․ رمی قربانی حلق تقصیر اور طواف زیارت میں ترتیب
22․ طواف صدر ان کیلئے جو میقات کے باہر سے آئے ہوں۔ 23․ وقوف عرفہ کے بعد حلق و تقصیر سے پہلے جماع نہ کرنا۔ 24․ احرام کی پابندیوں کا لحاظ رکھنا۔

جبکہ حج کی کی سنتیں یہ ہیں:
1․ طواف قدوم، یہ طواف صرف مفرد اور قارن حاجی کیلئے ہے اور اس کی وضاحت آگے آ رہی ہے۔ 2․ طواف کا ’’حجر اسود‘‘ سے شروع کرنا۔
3․ رمل۔ 4․ سعی میں دونوں سبز لائٹوں کے درمیان مرد کیلئے دوڑنا۔ 5․ امام کا سات ذوالحج کو خطبہ دینا۔
6․ ۹ ذوالحج کو عرفات میں خطبہ دینا۔ 7․ منیٰ میں 11ذوالحج کو خطبہ دینا۔ 8․ آٹھویں ذوالحج کو مکہ سے منیٰ پہنچ کر پانچ نمازیں پڑھنا۔ 9․ نویں رات منیٰ میں گزارنا۔
10․ ۱۰ ذوالحج کو طلوع آفتاب کے بعد منیٰ سے عرفات روانگی۔ 11․ وقوف عرفات کیلئے غسل کرنا۔ 12․ عرفات سے واپسی پر مزدلفہ میں رات گزارنا
13․ ۱۰ ذوالحج کو طلوع آفتاب سے پہلے مزدلفہ سے منیٰ روانہ ہونا۔ 14․ گیارہ اور بارہ ذوالحج کی راتیں منیٰ میں گزارنا۔
15․ ابطح خانہ کعبہ کے قریب ایک مقام ہے جسے وادی محصب بھی کہتے ہیں، منیٰ سے واپسی پر یہاں کچھ دیر ٹھہرنا۔

اب ہم حج کے بے شمار فضائل و برکات میں سے چند ایک درج کررہے ہیں جوکہ درج ذیل ہیں:
1۔ حاجی اﷲ تعالیٰ کی محبت میں سب کچھ چھوڑ کر اپنے رب تعالیٰ کی بارگاہ میں گناہوں کی بخشش کیلئے حاضر ہو جاتا ہے، اس لئے رحیم و کریم رب تعالیٰ اس کے تمام گزشتہ گناہ معاف کر دیتے ہیں۔ حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲﷺ نے فرمایا: ’’جو اﷲ کیلئے حج کرے اور حج کے دوران رفث (عورت سے ہمبستری اور اسکے متعلقات) اور نافرمانی نہ کرے۔ تو وہ حج سے (گناہوں سے پاک ہو کر) اس دن کی طرح لوٹے گا جس دن اسے ماں نے جنم دیا تھا۔‘‘ ایک حدیث میں ہے: حاجی کی مغفرت ہو جاتی ہے اور جس کیلئے حاجی استغفار کرے اس کی بھی۔ ایک اور حدیث میں ہے: حاجی 400 افراد کی شفاعت کرے گا۔
2۔ حج کے دوران حاجی پر سخت پابندیاں لگا دی جاتی ہیں اور لاکھوں افراد کے سخت ہجوم میں افعال حج انجام دیے جاتے ہیں، لمبے سفر کی مشقت اور بے پناہ ہجوم و گرمی کے باوجود حاجی کو اپنے ساتھیوں اور دیگر حجاج کے ساتھ نرمی و ملاطفت اور نیکی و ایثار کا حکم دیا گیا ہے۔ اس طرح حج تقویٰ اور بلندی اخلاق کا ذریعہ ہے اور ایک عسکری تربیت بھی ۔
3۔ دنیا بھر سے مسلمان فضائی بری اور بحری راستوں سے کائنات ارضی کا مطالعہ کرتے ہوئے خانہ کعبہ پہنچتے ہیں، جہاں مختلف رنگوں نسلوں، علاقوں اور تہذیبوں کے لوگوں سے ملاقات کر کے قسم قسم کی معلومات حاصل کرتے ہیں۔ گویا حج ایک عبادت کے ساتھ ساتھ ایک عالمگیر مطالعاتی و معلوماتی سفر بھی ہے۔
4۔ حج کے موقع پر دنیا بھر کے علماء، محققین، سائنسدان، سیاست دان، تاجر، قانون دان، اور دیگر شعبہ ہائے زندگی کے لوگ جمع ہوتے ہیں تو وہ حج کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ اپنے ملکی اور عالمی پیچیدہ مسائل پر افہام و تفہیم کر کے ملت اسلامیہ کے لئے بہتر لائحہ عمل تجویز کر سکتے ہیں۔ اس طرح حج ایک عالمی اسلامی کانفرنس بھی ہے۔
5۔ حج کے مقامات، انبیاء کرام اور محبوبان خدا کی یادگاریں ہیں، جن کی زیارت سے برکت کے حصول کے علاوہ انبیائے کرام اور دیگر محبوبان خدا کے عظیم واقعات کا علم حاصل ہوتا ہے اور ان کی اتباع کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔

اب ہم حج وعمرہ کے مقامات اور اصطلاحات کی وضاحت مختصرا درج کررہے ہیں جو کہ یہ ہیں:

احرام:
اس سے مراد مرد کا بغیر سلا تہبند باندھنا اور بغیر سلی چادر اوڑھنا ہے۔ احرام کی حالت میں بہت سی پابندیاں عائد ہو جاتی ہیں۔ مثلا:
’’عورت سے ہمبستری اور اس کے متعلقات ، شکار کرنا، اور شکار کا گوشت کھانا، خوشبو لگانا، حجامت بنوانا، جوں مارنا، سر اور چہرے کو کپڑے سے ڈھانپنا، جرابیں یا موزے پہننا وغیرہ۔ البتہ عورت سلے کپڑے پہن سکتی ہے اور اجنبی لوگوں کے سامنے اور نماز میں سر کو ڈھانپنا بھی اس کیلئے ضروری ہے، لیکن چہرے کو کپڑے سے نہیں ڈھانپ سکتی اور نہ ہی برقعہ پہن سکتی ہے۔ البتہ پنکھا وغیرہ کسی چیز کو چہرے سے دور رکھ کر غیر محرم سے منہ چھپا سکتی ہے۔

میقات:
اس سے مراد وہ پانچ مقامات ہیں کہ جو بھی باہر سے حرم کعبہ میں عمرہ یا حج یا اور کسی غرض سے داخل ہونے کے لئے آئے تو اس پر واجب ہے کہ احرام باندھ کر ان مقامات سے آگے بڑھے وگرنہ اس پر اس جرم کی وجہ سے ایک دم (قربانی) واجب ہے۔ اہل مدینہ کیلئے ’’ذوالحلیفہ‘‘، عراق والوں کیلئے ’’ذات عرق‘‘، مصر و شام والوں کیلئے ’’جحفہ‘‘، نجد والوں کیلئے ’’قرن‘‘ اور پاکستان، ہندوستان اور یمن والوں کے لئے ’’یلملم‘‘ میقات ہے۔
حل وحرم:
حرم سے مراد خانہ کعبہ کے ارد گرد کئی کئی میل تک کا معین علاقہ ہے۔ مسجد عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا، میدان عرفات اور مسجد جعرانہ حرم سے باہر ہے۔ اور مزدلفہ حرم میں داخل ہے۔

حدود حرم میں ہمیشہ جنگلی جانور کا شکار اور خود رودرختوں و گھاس کا کاٹنا حرام ہے۔ صرف اذخر گھاس کاٹنے کی اجازت ہے۔ حرم کی حدود کے اندر رہنے والوں یا وہاں پہنچ جانے والوں کیلئے حکم ہے کہ وہ عمرہ کا احرام حرم سے باہر نکل کر باندھیں اور حج کا احرام حرم کے اندر رہ کر باندھیں۔ ’’حل‘‘ سے مراد حرم اور پانچ میقاتوں کا درمیانی علاقہ ہے۔ حل میں رہنے والوں کیلئے حکم ہے کہ حج و عمرہ کا احرام ’’حل‘‘ ہی سے باندھیں۔

لبیک یا تلبیہ اور دعائیں:
تلبیہ سے مراد ہے: ’’لَبَّیْکَ اللّٰھُمَّ لَبَّیْکْ لَبَّیْکَ لاَشَرِیْکَ لَکَ لَبَّیْکْ اِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَۃَ لَکَ وَالْمُلْکَ لاَشَرِیْکَ لَکْ۔‘‘
عمرہ یا حج کا احرام باندھنے کے بعد جب عمرہ یا حج یا دونوں کی نیت کرتے ہیں تو تلبیہ کہنا ضروری ہے۔ نیز عمرہ و حج کے سفر میں تلبیہ کی کثرت مسنون ہے۔ تلبیہ کے علاوہ مختلف مقامات پر نبی علیہ السلام و بزرگان دین نے دعائیں کی ہیں، ان دعاؤں میں سے جس قدر پڑھ سکے پڑھے۔ اور دعاؤں کی جگہ صرف درود شریف پڑھتا رہے تو زیادہ بہتر ہے۔

طواف:
اس سے مراد خانہ کعبہ کے گرد سات چکر لگانا ہے، ہر چکر کا آغاز حجر اسود والے کونے سے ذرا پہلے سے ہوتا ہے۔ عمرہ میں ایک طواف فرض ہے اور حج میں تین طواف ہیں۔

پہلا طواف جسے ’’طواف قدوم‘‘ کہتے ہیں سنت ہے۔

دوسرا طواف جسے ’’طواف زیارت‘‘ یا ’’طواف افاضہ‘‘ یا ’’طواف فرض‘‘ کہتے ہیں حج کا رکن اور فرض ہے، یہ طواف دس گیارہ اور بارہ ذوالحج میں سے کسی روز کرنا ضروری ہے، البتہ اگر عورت حیض و نفاس کی حالت میں ہو تو اس حالت میں مسجد کی حدود میں داخل نہ ہو سکنے کی وجہ سے ان ایام کے بعد بھی طواف کر سکتی ہے۔

تیسرا طواف جسے ’’طواف وداع‘‘ یا ’’صدر‘‘ کہتے ہیں واجب ہے، یہ حج سے واپسی کے وقت کیا جاتا ہے۔ اگر عورت حیض و نفاس میں ہو تو اس کیلئے یہ معاف ہو جاتا ہے۔

مطاف: خانہ کعبہ کے ارد گرد وہ وسیع احاطہ جہاں طواف کیا جاتا ہے ۔ ’’مطاف‘‘ کہلاتا ہے۔

مسجد حرام: خانہ کعبہ کے چاروں طرف جو شاندار مسجد ہے اس کا نام ’’مسجد حرام‘‘ ہے۔ اس میں ایک نماز پر لاکھ نماز کا ثواب ملتا ہے۔

چار رکن: خانہ کعبہ کے چاروں بیرونی کونوں کو ’’رکن‘‘ کہا جاتا ہے۔ شرقی و جنوبی کونہ جس میں حجرہ اسود (سیاہ پتھر) نصب ہے کو ’’رکن اسود‘‘ کہا جاتا ہے، جنوبی غربی کونے کو ’’رکن یمانی‘‘ کہا جاتا ہے، شمالی جنوبی کونے کو ’’رکن شامی‘‘ کہا جاتا ہے، اور شمالی شرقی کونے کو ’’رکن عراقی‘‘ کہتے ہیں۔

استلام:
اس سے مراد طواف کے ہر چکر کے شروع میں ’’حجر اسود‘‘ کو چومنا ہے۔ اور اگر چومنا ممکن نہ ہو تو ہاتھ یا لاٹھی سے اشارہ کر کے اسے چوم لینا ہے۔

ملتزم:
خانہ کعبہ کی شرقی دیوار میں دروازہ ہے۔ دروازہ اور حجرہ اسود کے درمیان دیوار کے حصے کو ’’ملتزم‘‘ کہتے ہیں، اس حصہ سے لپٹنا اپنے رخسار سینہ وغیرہ اس کے ساتھ لگانا بڑی برکت کا باعث ہے۔ یہ عمل طواف کے بعد کرتے ہیں۔

مستجار:
ملتزم سے بالمقابل غربی دیوار کا بیرونی حصہ ’’مستجار‘‘ کہلاتا ہے۔

مستجاب:
خانہ کعبہ کی جنوبی دیوار ’’مستجاب‘‘ کہلاتی ہے، یہاں دعا کر نے پر ستر ہزار فرشتے آمین کہتے ہیں۔

حطیم:
خانہ کعبہ کے شمال میں قوسی شکل میں کچھ جگہ ہے یہ جگہ خانہ کعبہ کا حصہ ہے لیکن اس پر چھت نہیں۔ اسی جگہ میں خانہ کعبہ کاپرنالہ جسے میزاب رحمت کہتے ہیں گرتا ہے۔

رمل:
عمرہ کے طواف،حج کے طواف قدوم یا طواف فرض کے پہلے تین چکروں میں پہلوانوں کی طرح مرد حضرات کا شانے ہلا ہلا کر تیز اور چھوٹے قدموں کے ساتھ چلنا، بشرطیکہ کسی کو اذیت نہ پہنچے۔ یہ ’’رمل‘‘ کہلاتا۔

اضطباع:
طواف سے پہلے احرام کی چادر کا ایک پلہ بائیں کندھے پر آگے کی طرف ڈالنا اور دوسرا پلہ دائیں کندھے کے نیچے سے گزار کر بائیں کندھے کے اوپر سے پیچھے والی جانب ڈال دینا ’’اضطباع‘‘ کہلاتا ہے۔ یہ مردوں کیلئے ہے۔

سعی:
اس سے مراد صفا اور مروہ دو پہاڑیوں ( جو کہ خانہ کعبہ کے جنوب میں واقع ہیں) کے درمیان سات چکر لگانا ہے۔ صفا سے مروہ جانا ایک چکر ہے اور مروہ سے واپس صفا آنا دوسرا چکر ہے، اسی طرح سات چکر۔ ’’سعی‘‘ عمرہ و حج دونوں میں واجب ہے۔ سعی کے ہر چکر میں صفا و مروہ کے درمیان دو سبز لائٹوں والے مقامات کے درمیان مرد کے لئے دوڑنا واجب ہے۔

حلق و تقصیر:
’’حلق‘‘ کا معنی ہے: سر کے بال استرے وغیرہ سے مونڈنا۔ اور ’’تقصیر‘‘ کا معنی ہے: بال چھوٹے کرنا۔

عمرہ میں ’’سعی ‘‘مکمل کرنے کے بعد مرد کیلئے حلق یا تقصیر واجب ہے، لیکن عورت کیلئے ایک پورے کے برابر بال کاٹنا کافی ہے۔ جبکہ حج میں ۱۰ ذوالحج کو قربانی کے بعدحلق وتقصیر واجب ہے۔ حلق و تقصیر ہی سے احرام کی حالت ختم ہو تی ہے۔

منیٰ:
یہ مقام خانہ کعبہ سے مشرق کی جانب ساڑھے تین میل کے فاصلے پر ہے۔ یہ دو پہاڑیوں کے درمیان کھلا میدان ہے، اس مقام پر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے قربانی کی تھی۔ اس میدان میں شیطان نے انسانی صورت میں متشکل ہو کر حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بیٹے کی قربانی نہ کرنے کا مشورہ دیا تھا تو آپ نے اسے کنکر مارے چنانچہ یہاں تین جمرے (ستون) تعمیر کرا دیے گئے ہیں جنہیں حاجی کنکریاں مارتے ہیں۔ مشہور مسجد خیف بھی اسی میدان میں ہے اور مسجد خیف کے ساتھ والا جمرہ، جمرہ اولیٰ ہے۔ حاجیوں کے لئے آٹھ ذوالحج کو منیٰ میں پہنچ کر ظہر سے فجر تک پانچ نمازیں پڑھنا مسنون ہے اور دس ، گیارہ اور بارہ ذوالحج کو منیٰ میں ٹھہرنا بھی مسنون ہے۔

۱۰ ذوالحج کو منیٰ میں پہلے جمرے کو سات کنکریاں مارنا اور اس کے بعد قربانی اور اس کے بعد حلق و تقصیر کر کے حاجی احرام سے آزاد ہو جاتے ہیں۔ اور تما م پابندیاں ماسوائے عورت سے ہمبستری کے ختم ہو جاتی ہیں۔ اور عورت سے ہمبستری کی پابندی طواف زیارت کے بعد ختم ہو جاتی ہے۔

رمی:
رمی سے مراد تین جمروں (ستونوں) کو کنکریاں مارنا ہے۔ ۱۰ ذوالحج کے دن صرف پہلے جمرے کو سات کنکریاں ماری جاتی ہیں۔ جبکہ باقی دو یا تین ایام میں تین جمروں کو سات سات کنکریاں ماری جاتی ہیں ۔ پہلے روز کنکریاں زوال سے پہلے ماری جاتی ہیں اور باقی ایام میں زوال کے بعد۔

مزدلفہ:
یہ دو پہاڑوں کے درمیان ایک کشادہ میدان ہے جو کہ منیٰ سے تقریباً تین میل آگے ہے۔ اسی میدان میں حضرت آدم وحوا علیہا السلام کی توبہ قبول ہونے کے بعد ملاقات ہو ئی تھی، ۹ ذوالحج کو حجاج میدان عرفات سے غروب آفتاب کے بعد مزدلفہ آتے ہیں اور عشاء کے وقت میں نماز مغرب وعشاء جمع کر کے پڑھی جاتی ہیں اور نماز فجر اندھیرے میں پڑھ کر اس میدان میں کچھ وقت ٹھہرنا واجبات حج میں سے ہے۔

قزح؍مشعر حرام:
مزدلفہ کی دو پہاڑیوں کے درمیان خاص جگہ کا نام ’’مشعر حرام‘‘ اور ’’قزح‘‘ ہے۔ سارے مزدلفہ میدان کو بھی مشعر حرام کہا جاتا ہے۔

وادی محسر:
یہ وہ مقام ہے جہاں ابرہ یمن جب وہ خانہ کعبہ گرانے کے لئے ہاتھیوں کے ساتھ حملہ آور ہوا،ٹھہرا تھا۔ حکم ہے کہ حجاج یہاں نہ ٹھہریں اور اس منحوس جگہ سے تیزی سے گزر جائیں۔

عرفات اور جبل رحمت:
مزدلفہ سے مزید 3میل آگے جبل عرفہ کے دامن میں وسیع وعریض میدان کا نام ’’عرفات‘‘ ہے۔ اس میدان میں 9ذوالحج کے روز دوپہر کے بعد کچھ وقت ٹھہرنا حج کا رکن اعظم ہے۔ اس میدان میں حجاج نماز ظہر اور نماز عصر اکٹھی وقت ظہر میں باجماعت ادا کرتے ہیں۔ اسی مقام پر ایک پہاڑ ’’جبل رحمت‘‘ ہے، جہاں رسول اﷲﷺ نے وقوف فرمایا تھا۔ اسے ’’موقف اعظم‘‘ بھی کہا جاتا ہے، یہ پہاڑ سطح ارض سے تین سو فٹ اور سطح سمندر سے تین ہزار فٹ اونچا ہے، میدان عرفات کے ایک کنارے پر مشہور مسجد نمرہ بھی واقع ہے۔ یہ مسجد مشہور نالے عرنہ کے بھی کنارے پر ہے۔ اس نالے میں وقوف عرفہ ممنوع ہے۔

محصر:
محصر وہ شخص ہے جو احرام باندھ کر عمرہ یا حج کی نیت کر لینے کے بعد بیماری، دشمن یا حکومت کی پابندی لگا دینے وغیرہ کی وجہ سے مکہ مکرمہ نہ پہنچ سکے۔ اس کیلئے حکم یہ ہے کہ حرم میں کسی طریقہ سے ایک قربانی کروائے اور اس کے بعد احرام کھول کر حلق یا تقصیر کر کے احرام سے نکل جائے اور پھر رکاوٹ دور ہونے کے بعد قضا کرے۔

بدنہ:
اس سے مراد گائے یا اونٹ کی قربانی ہے۔ پورے بدنہ کی قربانی اس شخص پر فرض ہے جو وقوف عرفہ کے بعد حلق یا تقصیر سے پہلے بیوی سے ہمبستری کر لے اور حلق و تقصیر کے بعد اور طواف فرض سے پہلے ہمبستری کرے تو دم (ایک قربانی) واجب ہے۔ اور جو شخص وقوف عرفہ سے پہلے ہمبستری کرے اس کا حج فاسد ہو جاتا ہے، وہ دم بھی دے، یہ حج بھی پورا کرے اور قضا بھی کرے۔

دم:
دم سے مراد ایک بکری، یا گائے اونٹ کا 1/7حصہ ہے۔ کسی واجب کے چھوٹ جانے یا کسی حرام کے کر لینے سے عموعاً دم واجب ہو جاتا ہے۔ البتہ اگر کسی پابندی کی خلاف ورزی عذر کی وجہ سے ہو تو دم واجب ہونے کی صورت میں 6مسکینوں کو چھ صدقے بھی دے سکتا ہے۔ ایک صدقہ ’’صدقہ الفطر‘‘ کے برابر ہوتا ہے۔ اور چاہے تو ایک دم کی جگہ تین روزے رکھ لے۔ اور پابندی کی خلاف ورزی عذرکے بغیر ہو تو دم ہی دینا پڑے گا۔

احرام کی حالت میں کچھ کام ممنوع ہیں اور وہ یہ ہیں:
1․ عورت سے صحبت کرنا، بوسہ لینا، یا شہوت سے چھونا وغیرہ۔ 2․ عورت سے ہیجان انگیز باتیں کرنا۔ 3․ فحش کام اور فحش باتیں۔ 4․ دنیاوی جھگڑا۔ 5․ جنگلی جانور کا شکار یا شکاری کی مدد کرنا۔ 6․ پرندوں کے انڈے توڑنا، کھانا ، پکانا وغیرہ، اسی طرح کسی جنگلی جانور کو تکلیف پہنچانا یا اس کا دودھ دہنا۔ 7․ ناخن کترنا، حجامت بنوانا، بال اکھیڑنا، یا کاٹنا وغیرہ۔ 8․ منہ یا سر مرد کیلئے چھپانا، البتہ عورت اجنبی لوگوں کے سامنے اور نماز میں سر چھپائے۔ 9․ عمامہ باندھنا برقعہ یا دستانے پہنناموزے یا جرابیں وغیرہ جو پنڈلی اور قدم کے جوڑ کو چھپائے یا سلہ کپڑا پہننا، یونہی ٹوپی پہننا۔ 10․ جسم یا کپڑوں میں خوشبو لگانا۔ 11․ کسی خوشبودار چیز سے رنگے کپڑے پہننا،جبکہ ابھی خوشبو دے رہے ہوں۔ 12․ خالص خوشبو یا کوئی خوشبو دار چیز مثلاً الائچی زعفران، دارچینی وغیرہ کھانا یا آنچل میں باندھنا۔ 13․ کسی دوائی سے سر یا داڑھی دھونا تا کہ جوئیں مر جائیں۔ 14․ وسمہ اور مہندی وغیرہ کا استعمال۔ 15․گوند وغیرہ سے بال جمانا۔ 16․ زیتون اور تل کا تیل لگانا۔ 17․ کسی دوسرے کا سر مونڈنا۔ 18․ جوں مارنایا کسی کو اس کیلئے اشارہ کرنا۔ 19․ کپڑوں کو جوئیں مارنے کے لئے دھوپ میں رکھنا۔

جبکہ احرام کے مکروہات (یعنی وہ کام جن سے حج فاسد تو نہیں ہوتا اور نہ ہی دم (قربانی) واجب ہوتا ہے البتہ ثواب میں کمی آتی ہے۔)وہ درج ذیل ذیل ہیں:
1․ جسم کی میل دور کرنا۔ 2․ کنگی کرنا یا کھجانا،جس سے بال گریں یا جوئیں مریں۔ 3․ جان بوجھ کر خوشبو سونگھنا۔ 4․ سر یا منہ پر پٹی باندھنا، ناک یا منہ کا کچھ حصہ کپڑے سے چھپانا۔ 5․ غلاف کعبہ کے اندر اس طرح داخل ہونا، کہ سر یا منہ غلاف سے چھوئے۔ 6․ احرام کا بے سلہ کپڑا جو رفو کیا ہوا ہو یا پیوند لگا ہو۔ 7․ تکیہ پر منہ رکھ کر اوندھا لیٹنا۔ 8․ کوئی ایسی چیز کھانا پینا جس میں خوشبو ملائی گئی ہو اور اسے زائل نہ کیا گیا ہو اور پکایا نہ گیا ہو۔ 9․ مہکتی خوشبو (خشک) کو ہاتھ لگانا۔ 10․ بازو یا گلے پر تعویز باندھنا۔ 11․ سنگھار کرنا مثلاً آئینہ دیکھنا وغیرہ۔ 12․ تہبند کو رسی یا کمربند سے کسنا۔ 13․ تہبند دونوں کناروں میں گرا دینا۔ 14․ چادر کے آنچلوں میں گرہ دینا۔ 15․ بلاعذر بدن پر پٹی باندھنا۔ 16․ خوشبو کی دھونی دیا ہوا کپڑا کہ ابھی خوشبو دے رہا ہو پہننا یا اوڑھنا۔

حج کی تین قسمیں ہیں:
افراد: اس حاجی کو مفرد کہتے ہیں حج افراد یہ ہے کہ احرام باندھ کر صرف حج کیا جائے اور عمرہ نہ کیا جائے (عموما یہ حج اہل مکہ کیلئے ہے کیونکہ وہ سارا سال عمرہ کرتے رہتے ہیں لہذ ان کیلئے حج افراد کافی ہے)

حج قران: اس حاجی کو قارن کہتے ہیں۔ حج قران یہ ہے کہ عمرہ و حج کی اکٹھی نیت کر کے احرام باندھا جائے اور عمرہ (یعنی طواف وسعی) سے فارغ ہو کر احرام ختم نہ کیا جائے (یعنی حلق وتقصیرنہ کرائے) بلکہ اسی احرام سے حج کرے۔ یہ حج افضل ترین حج ہے، ’’حجتہ الوداع‘‘ میں حضور نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے حج قران ہی کیا تھا۔

حج تمتع: اس حاجی کو متمتع کہا جاتا ہے۔ حج تمتع یہ ہے کہ عمرہ کا احرام باندھ کر عمرہ کیا جائے اور حلق یا تقصیر کر کے احرام ختم کر دے۔ پھر حج کیلئے علیحدہ احرام باندھ کر حج کرے۔ بشرطیکہ قربانی کا جانور ساتھ لے کر نہ گیا ہو۔ اور اگر قربانی کا جانور ساتھ لے گیا ہو تو اسکا اور قارن کا حکم یکساں ہے۔

حج قران اور حج تمتع میں قربانی واجب ہے۔ یہ قربانی ایام نحر یعنی 10، 11، 12، ذوالحج میں سے کسی یوم میں، حدود حرم کے اندر کرنا واجب ہے۔

عمرہ کا طریقہ: عمرہ یہ ہے کہ حسب دستور احرام باندھ کر خانہ کعبہ کا طواف کرے، پھر صفا و مروہ کی سعی کر کے حلق یا تقصیر کرالے۔
حج کا مختصر طریقہ:
٭ حج مفرد کرنے والا طواف قدوم اور پھر صفا ومروہ کی سعی بجا لائے،
٭ حج قران کرنے والا عمرہ کے افعال ادا کرکے بغیر سر منڈوائے حج کیلئے طواف قدوم اور سعی ادا کرے،
٭ حج تمتع کرنے والا صرف عمرہ کے افعال ادا کرے پھر قربانی ساتھ نہ لایا ہو تو سرمنڈوا کر احرام کھول دے، ورنہ احرام میں ہی رہے۔

8ذوالحج کو ہر قسم کے حاجی صبح کے وقت مکہ مکرمہ سے منیٰ جائیں اور پانچ نمازیں وہاں پڑھیں اور

۹ ذوالحج کی صبح کو عرفات روانہ ہو جائیں۔ عرفات میں بعد دوپہر کچھ ٹھہریں اسے وقوف عرفہ کہتے ہیں اور یہ حج کا رکن اعظم ہے اور نماز ظہر و عصر دونوں وقت ظہر میں ادا کریں بشرطیکہ جماعت کے ساتھ پڑھیں وگرنہ اپنے اپنے اوقات میں پڑھیں۔ غروب آفتاب کے بعد امام الحج کے ساتھ مزدلفہ آئیں اور یہاں عشاء کے وقت میں مغرب اور عشاء کی نمازیں پڑھیں اور پھر اندھیرے میں نماز فجر پڑھ کر مزدلفہ میں مشعر حرام یا جہاں ممکن ہو کچھ ٹھہریں جو کہ واجب ہے اور پھر
10ذوالحج کو طلوع آفتاب سے پہلے مزدلفہ سے منیٰ آئیں اور پھر منیٰ میں کم از کم
12ذوالحج سہ پہر رمی کرنے تک ٹھہریں اور اگر
13ذوالحج کو بھی ٹھہریں جو کہ زیادہ بہتر ہے تو 13ذوالحج دن کو زوال کے بعد رمی کر کے مکہ مکرمہ واپس جائیں
10ذوالحج کو منیٰ میں پہلے جمرہ کو زوال سے پہلے سات کنکریاں ماریں پھر قارن اور متمتع قربانی کریں اور حلق یا تقصیر کریں اور اس کے بعد
10، 11، 12ذوالحج کے اندر مکہ مکرمہ پہنچ کر طواف فرض کریں۔ طواف فرض کے بعد متمتع حاجی سعی بھی کرے۔ اور مفرد و قارن حاجی جو طواف قدوم اور سعی پہلے کر چکے ہیں انہیں اب سعی کی ضرورت نہیں۔ عورت اگر حیض یا نفاس کی حالت میں ہو تو پاک ہو کر ان دنوں کے بعد طواف فرض ادا کرے ۔

11اور 12ذوالحج کو زوال کے بعد تینوں جمروں کو سات سات کنکریاں ماریں اور اگر 13ذوالحج کو ٹھہرے تو اس روز بھی زوال کے بعد تینوں جمروں کو رمی کریں۔ اس کے بعد مکہ مکرمہ آئے وادی محصب میں کچھ دیر ٹھہرے اور طواف صدر کرے۔ طواف صدر پر حج مکمل ہو گیا۔

حج بدل: جس شخص پر حج فرض ہو جائے اور وہ اس کے بعد کمزوری یا معذور ہونے کی وجہ سے خود حج پر روانہ نہ ہو سکے تو اس کیلئے ضروری ہے کہ کسی اور مسلمان کو اپنی جگہ حج پر بھیجے، جو اس کی طرف سے حج کرے۔ ایسے ہی وہ عورت جس پر حج فرض ہو گیا ہو، اگر اسے محرم یا شوہر کے ساتھ حج کیلئے جانا ممکن نہ ہو تو وہ حج بدل کیلئے کسی کو بھیجے۔ ایسے ہے اگر کوئی شخص وصیت کر گیا ہو، تو اس کے مال سے حج بدل کروا دیا جائے۔ اگر مال کے 1/3سے حج بدل ممکن ہو تو ورثاء پر وصیت پر عمل کرنا ضروری ہے۔
Pir Muhammad Afzal Qadri
About the Author: Pir Muhammad Afzal Qadri Read More Articles by Pir Muhammad Afzal Qadri: 5 Articles with 10411 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.