کسوۃ الکعبہ-بیت اﷲ کی عظمت وجلالت کاعظیم مظہر

باسمہ تعالیٰ

کعبۃ اﷲ زادہااﷲ شرفاًوعظمۃً کی بہت ساری اہم خصوصیتوں میں سے ایک خصوصیت اس کاغلاف بھی ہے جسے عربی میں’’کسوہ‘‘کہاجاتاہے۔ہرسال ۹؍ذی الحجہ کوکعبۃ اﷲ پر نیا غلاف ڈالاجاتاہے۔کعبۃ اﷲ پرغلاف ڈالنے کاسلسلہ سب سے پہلے یمن کے ایک بادشاہ تبع حمیری نے کیاتھا۔بعض نے اسے اسلام سے نوسوبرس پہلے کاواقعہ بتایاہے اوربعض نے ۲۲۰؍برس قبل۔اسلام کی آمدکے بعدسب سے پہلے اﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے بعد۸ھ میں کعبۃ اﷲ پرغلاف ڈالاتب سے یہ سلسلہ ہنوزجاری ہے۔

کسوۃ الکعبہ حدیث میں:
امام بخاریؒ نے اپنی صحیح میں کتاب الحج کے تحت’’ باب کسوۃ الکعبہ‘‘ کے عنوان سے ایک مستقل باب قائم کیاہے،لیکن اس کے تحت انہوں نے کسوۃ الکعبہ کے عنوان سے کوئی حدیث نہیں بیان کی ہے۔بلکہ حدیث میں کعبہ کے اندرکے سوناچاندی کی تقسیم کی روایت کوبیان کیاہے۔حدیث ملاحظہ فرمائیں:’’قبیصہ اورسفیان نے واصل کے حوالہ سے بیان کیاہے کہ ان سے ابووائل نے بیان کیاکہ میں شیبہ کے ساتھ کعبہ میں کرسی پربیٹھاہواتھاتوشیبہ نے فرمایاکہ اسی جگہ بیٹھ کرحضرت عمررضی اﷲ عنہ نے (ایک مرتبہ)فرمایاکہ میراارادہ یہ ہوتا ہے کہ کعبہ کے اندرجتناسوناچاندی ہے اسے نہ چھوڑوں(جسے زمانۂ جاہلیت میں کفارنے جمع کیاتھا)بلکہ سب کونکال کر(مسلمانوں میں)تقسیم کردوں۔میں نے عرض کیاکہ آپ کے ساتھیوں( حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم اورحضرت ابوبکرؓ)نے توایسانہیں کیا۔انہوں نے فرمایاکہ میں بھی ان ہی کی پیروی کررہاہوں(اسی لیے میں نے اسے ہاتھ نہیں لگایا)

فتح الباری میں علامہ ابن حجرؒ نے مذکورہ حدیث سے متعلق مختلف شارحین حدیث کے اقوال کو ذکرکیاہے اوریہ ثابت کیاہے کہ امام بخاریؒ کاکسوۃ الکعبہ کوترجمۃ الباب بنانااس وجہ سے ہے کہ جس طرح کسوہ کے پراناہوجانے پراسے حاجیوں میں تقسیم کردیاجاتاتھا،حضرت عمررضی اﷲ عنہ کی کعبۃ اﷲ میں رکھے سونے چاندی کے بارے میں بھی یہی رائے تھی کہ اسے بھی ضرورت مندمسلمانوں میں تقسیم کردیاجائے،لیکن انہوں نے اپنے اس خیال کوصرف اس لیے عملی جامہ نہیں پہنایاکیوں کہ اﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم اورخلیفہ اول حضرت ابوبکرصدیق رضی اﷲ عنہ نے اسے ہاتھ نہیں لگایاتھااسی لیے حضرت عمررضی اﷲ عنہ نے بھی اسے ہاتھ لگانامناسب نہیں سمجھا،اسی مناسبت کی بناء پرامام بخاریؒ نے ’’کسوۃ الکعبہ ‘‘ کو ترجمۃ الباب کی حیثیت سے ذکرکیااوراس کے ضمن میں مذکورہ حدیث کوبیان کیا۔

’’کسوہ ‘‘غلاف کعبہ کی مختصرتاریخ:
جیساکہ اوپرمذکورہواکہ کعبۃ اﷲ شریف پرغلاف ڈالنے کاسلسلہ زمانۂ قدیم سے ہے جس کی ابتداء یمن کے بادشاہ تبع حمیری نے کیا۔جب ۸ھ میں مکہ فتح ہواتواﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم نے کعبہ کے غلاف کوتبدیل نہیں کیا،بلکہ کچھ دنوں کے بعدایساہواکہ ایک عورت خانہ کعبہ کوعودکی دھونی دے رہی تھی کہ ایک چنگاری غلاف کعبہ سے جالگی جس سے غلاف کعبہ جل گیا،اس کے بعداﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم نے یمنی کپڑے کاغلاف ڈالنے کاحکم فرمایا۔اسلام سے قبل قریش کایہ دستورتھاکہ وہ ہرسال عوام الناس کے چندہ سے نیاغلاف تیارکراکرڈالاکرتے تھے ،اس کے بعدابوربیعہ بن مغیرہ مخزومی کادورآیاجوقریش میں بہت ہی رئیس اورسخی آدمی تھااس نے کہاکہ اب ایک سال عام چندہ سے غلاف تیار ہوگااورایک سال میں اپنے ذاتی صرفہ سے غلاف بنواکرڈالوں گا۔حضرت عباس رضی اﷲ عنہ کابھائی خوارگم ہوگیاتوان کی والدہ نبیلہ نے منت مانی کہ اگرمیرابیٹامل گیاتومیں خانہ کعبہ کوغلاف پہناؤں گی،چناں چہ بیٹاملنے کے بعدانہوں نے کعبۃ اﷲ پرغلاف ڈال کراپنی منت پوری کی۔اﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعدخلیفہ ثانی حضرت ابوبکرصدیق رضی اﷲ عنہ نے غلاف ڈالا۔حضرت عمرفاروق رضی اﷲ عنہ کے عہدمیں جب مصرفتح ہوگیاتوآپ نے قباطی مصری کاجوکہ بیش قیمت کپڑاہے بیت اﷲ پرغلاف ڈالااوریہ سلسلہ ہر سال جاری رہاتاآں کہ حضرت عمرفاروق رضی اﷲ عنہ اس دارفانی سے رخصت ہوگئے۔حضرت عمرفاروق رضی اﷲ عنہ کادستورتھاکہ پراناغلاف حاجیوں میں تقسیم کردیتے اور نیا غلاف ڈال دیتے اوریہی سلسلہ حضرت عثمان غنیؓ تک جاری رہا۔ایک دفعہ آپ نے غلاف کعبہ کاکپڑاکسی حائضہ عورت کوپہنے ہوئے دیکھاتوتقسیم کی عادت بدل دی اورقدیم غلاف دفن کیاجانے لگا۔پھرام المومنین حضرت عائشہؓ نے مشورہ دیاکہ یہ اضاعت مال ہے،اس لیے بہترہے کہ پراناغلاف فروخت کردیاجائے اوراس کی قیمت غریبوں میں تقسیم کردی جائے،رفتہ رفتہ بنوشیبہ بلاشرکت غیرے اس کے مالک ہوگئے۔

اکثرسلاطین اسلام کعبۃ اﷲ شریف پرغلاف ڈالنے کواپنے لیے باعث فخرسمجھتے رہے اورقسم قسم کے قیمتی غلاف ہرسال کعبۃ اﷲ پرڈالتے رہے ہیں۔حضرت امیرمعاویہ رضی اﷲ عنہ کی طرف سے ایک غلاف دیباکا۱۰؍محرم کواوردوسراقباطی کا۲۹؍رمضان کوڈالاگیاتھا۔خلیفہ مامون رشیدنے اپنے عہدخلافت میں بجائے ایک کے تین غلاف بھیجے،جن میں ایک مصری کپڑے کاتھا،دوسراسفیداورتیسراسرخ دیباکاتھا،تاکہ پہلایکم رجب کو،دوسرا۲۷؍رمضان کواورتیسراآٹھویں ذی الحجہ کوبیت اﷲ پرڈالاجائے۔خلفائے عباسیہ کواس کابہت زیادہ اہتمام تھااورسیاہ کپڑاان کاشعارتھا،اس لیے اکثرسیاہ ریشم ہی کاغلاف کعبہ کے لیے تیار ہوتا تھا۔بادشاہان کے علاوہ دیگرامراء واہل ثروت بھی اس خدمت میں حصہ لیتے تھے اورہرشخص چاہتاتھاکہ میراغلاف تادیرملبوس رہے۔اس لیے اوپرنیچے بہت سے غلاف بیت اﷲ شریف پرجمع ہوگئے۔

۱۶۰ھ میں سلطان مہدی عباسی جب حج کے لیے آئے توخدام کعبہ نے کہاکہ بیت اﷲ پراتنے غلاف جمع ہوگئے ہیں کہ بنیادوں کوان کے بوجھ کاتحمل دشوارہے۔سلطان نے حکم دیاکہ تمام غلاف اتاردیے جائیں اورآئندہ ایک سے زیادہ غلاف نہ چڑھایاجائے۔عباسی حکومت جب ختم ہوگئی تو۶۵۹ھ میں شاہ یمن ملک مظفرنے اس خدمت کوانجام دیا۔اس کے بعدمدت تک خالص یمن سے غلاف آتارہااورکبھی شاہان مصرکی شرکت میں مشترکہ۔خلافت عباسیہ کے بعدشاہان مصرمیں سب سے پہلے اس خدمت کافخرملک ظاہرکونصیب ہوا،پھرشاہان مصرنے مستقل طورپراس کے اوقاف کردیے اورغلاف کعبہ سالانہ مصرسے آنے لگا۔۷۵۱ھ میں ملک مجاہدنے چاہاکہ مصری غلاف اتاردیاجائے اورمیرے نام کاغلاف ڈالاجائے مگرشریف مکہ کے ذریعہ جب یہ خبرشاہ مصرکوپہونچی توملک مجاہدکوگرفتارکرلیاگیا۔

کعبۃ اﷲ شریف پربیرونی غلاف ڈالنے کادستورتوزمانہ قدیم سے چلاآتاہے مگراندرونی غلاف کے متعلق تقی الدین فارسی کے بیان سے معلوم ہوتاہے کہ سب سے پہلے ملک ناصر حسن چرکسی نے ۷۶۱ھ میں کعبۃ اﷲ شریف کااندرونی غلاف روانہ کیاتھاجوتقریبا۸۱۷ھ تک کعبہ کے اندرونی دیواروں پرلٹکارہا۔اس کے بعدملک الاشرف ابونصرسیف الدین سلطان مصرنے ۸۲۵ھ میں سرخ رنگ کااندرونی غلاف کعبۃ اﷲ کے لیے روانہ کیا۔آج کل یہ غلاف خودحکومت سعودیہ عربیہ کے زیراہتمام تیارکرایاجاتاہے۔ابتداء غلاف کعبہ کے لیے کوئی مخصوص رنگ نہیں تھا،مختلف زمانے میں مختلف رنگ کے غلاف کے استعمال کی تاریخ ملتی ہے،لیکن اب مستقل طورپرغلاف کعبہ کے لیے سیاہ رنگ کوپسندکیاگیاہے۔

غلاف کعبہ کی تیاری اوراس میں استعمال ہونے والے دھات:
شروع شروع میں غلاف کعبہ مصرمیں تیارہوتاتھا،اوربڑی شان وشوکت کے ساتھ اسے مصرسے ایک بڑے قافلہ کے ہمراہ سعودی عرب بھیجاجاتاتھا۔یہ قافلہ اپنے آپ میں خاص اہمیت کاحامل ہوتاتھا۔اسے قاہرہ سے پرشکوہ کارواں کے ساتھ جلوس کی شکل میں مکہ لایاجاتاتھا۔یہ کارواں نہایت تزک واحتشام کے ساتھ عظیم الشان کسوہ کولے کرصحرائے سینا اور مغربی عرب کے دشوارگذارریگستانوں سے گذرتاہواچالیس روزمیں مکہ پہنچتاتھا۔اس سفرمیں گوناگوں دشواریاں ہوتی تھیں۔ہرسال مکہ پہونچنے والے تین اہم اوربڑے قافلوں میں سب سے زیادہ اہمیت کاحامل یہی قافلہ ہواکرتاتھا۔دوسرے دوبڑے تجارتی قافلے دمشق اوربغدادسے آیاکرتے تھے۔اس مبارک کسوہ بردارقافلے میں شرکت کا اعزاز حاصل کرنے کے لیے دوردورسے زائرین ریگستان کی کوفت اورتکلیف برداشت کرکے آیاکرتے تھے،یہ کارواں انتہائی منظم ہوتاتھااورفوج کی زبردست حفاظت میں مکہ جاتاتھا۔

حرمین شریفین کی خدمت کے ساتھ خصوصی دلچسپی کے پیش نظرسعودی حکومت کے بانی جلالۃ الملک عبدالعزیزآل سعودرحمۃ اﷲ علیہ نے خاص ’’کسوہ‘‘یعنی غلاف کعبہ کی تیاری کے لیے مکہ سے ۷۰؍کلومیٹردورجدہ روڈپر۱۳۵۷ھ مطابق ۱۹۳۸ء میں ایک کارخانہ کی بنیادڈالی جس میں کام کرنے والے تمام ماہرین اورکارکن سعودی تھے۔پھرخادم حرمین شریفین شاہ فیصل کی خصوصی دلچسپی کی وجہ سے ۱۳۹۵ھ مطابق۱۹۷۵ء میں ایک جدیدکارخانہ کاافتتاح کیاگیا،اس طرح یہ کارخانہ اب بنائی اوررنگائی کے جدیدترین آلات اورمشینوں سے مزین ہے۔کسوہ کی تیاری میں مشینوں کے ساتھ ساتھ ہاتھوں کی محنت سے بھی کام لیاجاتاہے اس لیے کہ ہاتھ کی کاریگری کو انسانی کمال اورفنی ورثہ تصورکیاجاتاہے ،علاوہ ازیں اس طرح ماضی کی شاندارروایات کوبھی برقراررکھاجاتاہے۔

جدیدطرزکے موجودہ کارخانہ میں کعبہ کے بیرونی غلاف کے علاوہ باب کعبہ کااندرونی پردہ بھی ہاتھ سے تیارکیاجاتاہے۔نیزاسی کارخانہ میں حجرۂ نبوی شریف صلی اﷲ علیہ وسلم کا سبز غلاف بھی تیارکیاجاتاہے۔ڈھائی سوسے زائدیکتائے روزگاراورماہرفن زردوزاورآرٹسٹ،سال بھر کی محنت اورنفیس کاریگری کے بعدکسوہ تیارکرتے ہیں۔غلاف کعبہ جس نوعیت کے کپڑے سے تیارکیاجاتاہے اس میں دیباج(ریشم)نمارق(ریشم اوراون سے تیارکردہ)اورقباطی مشہورہیں۔خاص طورپربنائے ہوئے کپڑے کوچوبی فریموں پرتان کرسونے اورچاندی کے دھاگوں سے قرآنی آیات کی خطاطی اورکشیدہ کاری کی جاتی ہے۔کسوہ کی بناوٹ ۶۷۰؍کیلوخالص سفیدریشم سے ہوتی ہے جسے بعدمیں رنگ کرکے سیاہ کردیا جاتا ہے۔غلاف کی ر نگائی میں۷۲۰؍کلوگرام رنگ استعمال ہوتاہے ۔کسوہ کامجموعی سائز۶۵۸میٹرہے۔اس پر۱۵۰کیلوچاندی اورسونے کے دھاگوں سے قرآنی آیات وغیرہ کی زردوزی کی جاتی ہے،جس میں خالص سونے کے تاروں کاوزن ۱۵؍کیلوہوتاہے۔غلاف کی اونچائی ۱۴؍میٹرہوتی ہے۔اوپروالے ایک تہائی حصہ میں غلاف کوباندھنے والی ڈوری ہوتی ہے۔پوراغلاف ۴۷؍ٹکڑوں پرمشتمل ہوتاہے۔ڈوری والے حصہ کے ذرانیچے اسلامی خطاطی میں سورۂ اخلاص اورچھ قرآنی آیات الگ الگ مربع شکل میں لکھی جاتی ہیں۔بیچ والے حصہ میں چنداسلامی عبارتیں درج ہوتی ہیں۔یہ آیات خط ثلث میں لکھی جاتی ہیں جوعربی میں سب سے زیادہ خوبصورت خط ہے۔کسوہ کی تکمیل کے بعداس کاوزن دوٹن سے بھی زائداورلاگت ۵۰؍کروڑروپے ہوتی ہے۔ہرسال۹؍ذی الحجہ کوخانہ کعبہ کونیاغلاف پہنایاجاتاہے۔یکم ذی الحجہ کوصرف خانہ کعبہ کوغسل دیاجاتاہے۔

کعبۃ اﷲ شریف کے دروازے کاغلاف جسے’’برقع‘‘کے نام سے بھی جاناجاتاہے،مطاف کے فرش سے سوادومیٹراونچارہتاہے اورعمدہ اورنفیس قسم کے سیاہ ریشم سے بنایا جاتا ہے۔ پوراغلاف بھی اسی رنگ کاہوتاہے لیکن اس کی عمدہ اورجاذب نظرترتیب وکتابت اسے دوسرے حصوں سے ممتازبنادیتی ہے۔ان آیات کے نیچے اسی خط اوراسی اندازمیں یہ عبارت درج ہوتی ہے۔:’’یہ غلاف مکہ مکرمہ میں تیارہوااورخادم الحرمین والشریفین کی طرف سے کعبۃ اﷲ کوبطورتحفہ پیش کیاگیا۔اﷲ تعالیٰ اس کوقبول فرمائے۔‘‘کسوہ کاایک حصہ خوبصورت فریم میں مزین کرکے اقوام متحدہ کے ہال میں بھی آویزاں کیاگیاہے تاکہ اسلامی شان وشوکت اوراحترام میں اضافہ ہو،اوربالخصوص اقوام عالم کے لیے سرزمین اسلام کی یہ علامت دنیاکوحقیقی اورابدی امن کاپیغام دیتی رہے۔ہربرس پرانے غلاف کے پارچے مسلم ممالک کی اہم اوربزرگ ونامورمسلم شخصیات کو ہدیہ کیے جاتے ہیں۔

ہرسال کی طرح اس سال بھی کعبۃ اﷲ پرڈالنے کے لیے نیاغلاف’’کسوہ‘‘ تیارہوچکاہے جسے گذشتہ اتوار۶؍اکتوبرکوحرمین شریفین پریزیڈینسی کے سربراہ شیخ السدیس نے کعبہ کے کلیدبردارشیح عبدالقادرالشیبی کے حوالہ کیاجسے ۹؍ذی الحجہ کوکعبۃ اﷲ پرڈالاجائے گا۔شیخ عبدالقادرالشیبی کاخاندان گذشتہ پندرہ سوسالوں سے کعبہ کی کلیدبرداری کے فرائض انجام دے رہاہے۔فتخ مکہ کے دن اﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم نے خوداپنے ہاتھوں سے شیبہ خاندان کوکعبہ کی کلیدسونپی تھی تب سے کلیدبرداری کی خدمت اسی خاندان کے ذمہ ہے۔اس سال کسوہ کی تیاری پرآنے والاخرچ ۲۰؍ملین سعودی ریال ہے۔٭٭٭
Ghufran Sajid Qasmi
About the Author: Ghufran Sajid Qasmi Read More Articles by Ghufran Sajid Qasmi: 61 Articles with 50684 views I am Ghufran Sajid Qasmi from Madhubani Bihar, India and I am freelance Journalist, writing on various topic of Society, Culture and Politics... View More