محترم قارئین !جب یہ تحریر آپ کے
ہاتھوں میں پہنچے گی آپ سبھی لوگ عید قرباں کی تیاری میں منہمک ہوں گے اور
قربانی کے لیے جانوروں کی خرید وفروخت کررہے ہوں گے۔ یہ واقعی ایک نیک عمل
ہے لیکن کبھی آپ نے سوچا بھی ہے کہ جس واجب عمل کی ادائیگی کے لیے آپ اپنی
گاڑھی کمائی خرچ کررہے ہیں اس سے کچھ مقصد حاصل ہوبھی رہا ہے یا نہیں۔
آج قربانی کے سلسلے میں جو ہماراحال ہے وہ قابل رحم ہے۔ایک تو ہم جو قربانی
کرتے ہیں وہ نہ تو سنت ابراہیمی کے مطابق ہوپاتی ہے اور نہ ہی اس قربانی
سیہم کورضائے الٰہی حاصل ہوتی ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم یا تو نام ونمود کی
خاطر قربانی کرتے ہیں یا پھر گوشت کھانے کے لیے اور یہ دونوں عمل قربانی کی
روحانیت کے منافی ہے۔ایسا بارہا دیکھا جاتاہے کہ بڑے جانور کی قربانی ہونے
کے بعد جب گوشت کی تقسیم کا مرحلہ آتاہے تو کوئی ’’سری‘‘کیلیے ناک بھوں
چڑھاتاہے تو کوئی ’’پائے‘‘لینے کے لیے الجھ بیٹھتاہے ،گویا اْسے ثواب سے
کوئی غرض نہیں،بلکہ وہ تو محض ’’سری‘‘ اور ’’پائے‘‘ حاصل کرنے کے لیے
قربانی کرتے ہیں۔کچھ لوگ تو مہینوں قربانی کا گوشت مزے لے لے کر کھاتے ہیں
یہ اور بات ہے کہ اْس کا غریب پڑوسی قربانی کا گوشت کھانے کیلیے ترس جاتاہے؛
لیکن قربانی کرنے والے امیر کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔
اس میں کوئی دورائے نہیں ہے کہ ہم قربانی اسی لیے کرتے ہیں کہ یہ اﷲ تعالیٰ
کے خلیل حضرت ابراہیم علیہ الصلاۃ والسلام کی سنت اور ان کی یادگارہے۔لیکن
قربانی میں جو روحانیت ہے اس سیہم کوسوں دورہوتے ہیں،کیوں کہ براہیمی جذبے
کاذرہ برابر حصہ بھی ہمارے اندرموجود نہیں ہے۔اس کے لیے ضروری ہے کہ پہلے
ہم یہ جانیں کہ حضرت ابراہیم نے پہلے سو اونٹوں کی ،پھردوسو اونٹوں کی
اوراخیرمیں تین سواونٹوں کی قربانی کیوں کی اورپھرایک دن آنکھوں کا
تارا،جان سے عزیز اورضعیفی کا سہاراحضرت اسمٰعیل جیساپیارا بیٹا بھی قربان
کرنے کے لییکیوں نکل پڑے؟تو اس کا ایک ہی جواب ہے اور وہ یہ ہے کہ جس کی
طلب صرف اور صرف رضائے الٰہی ہو ،اس کی نظر میں بھلادنیاوی رشتے کیا معنی
رکھتے ہیں اوروہ اپنا بیٹا ہی کیا بلکہ اپنی جان بھی اﷲ تعالیٰ کی رضا کی
خاطر قربان کرنے کے لیے ہمیشہ تیار رہتاہے۔
اِدھرابلیس نے جب یہ دیکھاتو اْس کے سینیپر سانپ لوٹنے لگا،آخر وہ یہ کیسے
برداشت کرسکتاتھاکہ کوئی اﷲ کا خلیل اور عزیز ہوجائے۔چنانچہ وہ سب سے پہلے
حضرت ہاجرہ کے پاس پہنچااور اْنھیں ورغلانے کی کوشش کی،پھر حضرت ابراہیم
اور پھر حضرت اسمعیل کو ایک ایک کرکے راہ حق سے بہکانے کی کوشش کی مگرجب
تینوں افراد کایہ جواب سناکہ اگر اﷲ تعالیٰ کے نام پراور اس کی رضا کے لیے
قربان ہونے کی بات ہے تو اس سے بڑی خوش بختی اور اس سعادت سے بڑھ کر ایک
بندے کے لیے اورکیابات ہوسکتی ہے ،لہٰذا شیطان اپنا سا منھ لے کر رہ گیا
اور اﷲ تعالیٰ کے نیک بندوں کو طاعت الٰہی سے نہ روک سکا۔
گویاحضرت ابراہیم،حضرت ہاجرہ اور حضرت اسمٰعیل علیہم الصلاۃ والسلام نے اﷲ
تعالیٰ کے اس فرمان کو سچ کردکھایا کہ :
شیطان کا بس میرے مخلص بندوں پر چلنے والا نہیں ہے۔
ابلیس نے مردودِ بارگاہ ہوتے وقت یہ کہاتھا کہ :
یااﷲ!مجھے یہ طاقت دے کہ قیامت تک تیرے بندوں کو راہ حق سے بھٹکاتارہوں۔
تو اﷲ تعالیٰ نے فرمایاکہ :
جا!تجھے اجازت دی،لیکن یہ یادرکھناکہ جو بھی میرا نیک بندہ ہوگاوہ کبھی بھی
تیرے بہکاوے میں نہیں آئے گا۔
مذکورہ باتوں پرغور کریں تو یہ حقیقت سامنے آجاتی ہے کہ حضرت ابراہیم کی
قربانی کا مقصد نہ تو کثرت سے اونٹوں کی قربانی کرناتھا اور نہ ہی گوشت
کھانامقصدتھا ،بلکہ بات یہ تھی کہ اﷲ تعالیٰ کیسے راضی ہوجائے اور اس کی
رضا کیسے حاصل ہو۔ لہٰذاآئینیکی طرح یہ بات صاف ہوگئی کہ قربانی کا اصل
مقصد نہ توکثرت سے اونٹوں(یا دوسریحلال جانوروں)کی قربانی کرناہے اور نہ
گوشت کھاناہے،بلکہ اس کا ایک ہی مقصدہے اور وہ ہے اﷲ کی رضا کا حصول۔اب اگر
ہم لاکھوں لاکھ کی قربانی کریں اورایک نہیں بے شمار جانوروں کی قربانی کریں
، مگر اس کا مقصد صرف گوشت کھاناہو،اس سیاﷲ کی رضا کا حصول نہ ہوتو پھریہ
قربانی ،قربانی نہیں ،بلکہ یہ ایک عام ذبیحہ ہے،جس سے گوشت تو حاصل
ہوسکتاہے ثواب نہیں،کیوں کہ اﷲ تعالیٰ کی بارگاہ میں ایسی قربانی مقبول ہے
جونام ونمود اور دکھاوے سے پاک ہو۔ارشادباری تعالیٰ ہے:
ترجمہ:اﷲ تعالیٰ کو نہ تو قربانی کا گوشت پہنچتاہے اورنہ اس کا خون ؛لیکن
اﷲ کی بارگاہ میں تمہاراتقویٰ پہنچتاہے۔
اس لیے ہمیں چاہیے کہ قربانی کرتے وقت نہ تو نام ونمود کی خواہش رکھیں،نہ
گوشت کھانے کی تمنارکھیں اور نہ ہی کثرت سے جانوروں کی قربانی کو اصل
جانیں،بلکہ قربانی کی اصل روح کو پہچانیں اور وہ یہ ہیکہ اﷲ تعالیٰ کے حکم
پر آمناوصدقناکہتے ہوئے عمل کریں،جیساکہ حضرت ابراہیم نے عمل کیاکہ اْنھوں
نے اﷲ کی مشیت اور مرضی میں اپنی خواہش اور مرضی کوگم کردیا، فناکریا، کیوں
کہ ہمارا جینااورمرنا اﷲ تعالیٰ ہی کے لیے تو ہے:
ترجمہ:واقعی میری نماز،میری قربانی،میراجینا اورمیرا مرنا اﷲ تعالیٰ ہی کے
لیے ہے:
اندازِ بیاں گرچہ بہت شوخ نہیں ہے
شاید کہ اترجائے ترے دل میں مری بات |