مئی۲۰۱۳ کے انتخابات میں پی پی
پی کا جو حشر ہوا تھا وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔پی پی پی کو اس حال تک
پہنچانے والے کوئی اور نہیں اس کے اپنے ہی ناخدا ہیں۔وہ جماعت جسے ڈکٹیٹر
اپنے بے پناہ جبر اور سازشوں کے باوجود ختم کرنے سے قاصر رہے اسی جماعت کا
اپنے قائدین کے ہاتھوں دفن کیا جانا بڑا نوکھا،حیرت انگیز اور عبرت انگیز
واقعہ ہے۔میں نے اس موضوع پر کئی کالم لکھے تھے لیکن کسی کے کانوں پر کوئی
جوں تک نہ رینگی تھی کیونکہ خود ساختہ ناخدا اپنے تئیں یہی سمجھ رہے تھے کہ
عام انتخابات میں پی پی پی ذولفقارعلی بھٹو کے نام کی وجہ سے ایک دفعہ پھر
انتخابات جیت جائیگی اور یوں ان کی پانچوں انگلیاں گھی میں اور سر کڑاہی
میں ہو گا لیکن الٹی ہو گئیں سب تدبیریں دل نے کچھ نہ کام کیا کے مصداق ۱۱مئی
۲۰۱۱ کی انتخابی شکست پی پی پی کی زندگی کی سب سے بری شکست بن گئی اور اس
شکست سے پی پی پی کا پنجاب سے صفایا ہو گیا۔ فیصل آباد میں حالیہ ضمنی
انتخاب میں پی پی پی کو چند سو ووٹ ملے ہیں جو اس بات کے غماز ہیں کہ عوام
اب پی پی پی میں دلچسپی نہیں رکھتے لیکن اس کے معنی کہیں پر بھی یہ نہیں
ہیں کہ عوام نے ذولفقار علی بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو کی محبت کو
فراموش کر دیا ہے۔عوام کے دلوں میں اب بھی ذولفقار علی بھٹو کی محبت اور
محترمہ بے نظیر بھٹو کاراج ہے لیکن عوام ان دونوں ہستیوں کے نام پر بیوقوف
بننے کیلئے تیار نہیں ہیں کیونکہ یہ دونو ں ہستیاں تو اس دنیا سے ر خصت
ہوچکی ہیں اور دنیا داری کے دھندوں اور موزِ مملکت چلانے سے بالاتر ہو چکی
ہیں لیکن وہ جھنیں پارٹی کے کرتا دھرتا بنا کر گئے تھے یہ ان کا فرض تھا کہ
وہ ان کی فلاسفی کو آگے بڑھاتے اور ان کے نظریات کا پالن کرتے لیکن انھوں
نے پارٹی کو جس طرح چلایا س نے پارٹی کی ساری ساکھ کو تبا ہ و برباد کر کے
رکھ دیا ۔پی پی پی کے جیالے اب ایسے نام نہاد قائدین پر کسی بھی قسم کا
اعتماد کرنے کے موڈ میں نہیں ہیں کیونکہ وہ بھٹو کی فلافی سے بے وفائی کے
مرتکب ہوئے ہیں۔ایسے قائدین نے اب پی پی پی کے جیالوں کو اپنے جال میں
پھانسنے کا ایک نیا طریقہ ایجاد کیا گیا ہے اور وہ طریقہ یہ ہے کہ پی پی پی
کے کارکنوں سے معافی مانگو اور انھیں ایک دفعہ پھر بیوقوف بنانے کی کوشش
کرو۔انھیں باور کراؤ کہ ہم سے کوتاہی ہوئی تھی اور ہم سے غلطی ہوئی تھی
لہذا ہمیں معافی دے کر ایک دفعہ پھر ہمارے لئے سیڑھی بن جاؤ۔ہمیں انتخابات
میں جتوا کر اسمبلی میں پہنچاؤ تا کہ ہمیں پھر موج مستی کرنے کے مواقع میسر
آجائیں لیکن جیالوں نے اس طرح کی کسی بھی بات پر یقین کرنا چھوڑ دیا
ہے۔انھیں خبر ہے کہ ایسے قائدین ہمیں بیوقوف بنا کر اپنا الو سیدھا کرنا چا
ہتے ہیں لہذا وہ ان کے جھانسے میں نہیں آرہے ۔ایسے قائدین اسی طرح ترلے
منتیں کرتے رہیں گئے اور جیالے ان کے دام میں نہیں آئیں گئے کیونکہ انھیں
علم ہے کہ یسے قائدین کے ظاہرو باطن میں فرق ہے اور ان کا وا حد مقصد اپنے
مفادات کا حصول ہے ۔ایسے قائدین کو کارکنوں سے نہ کل دلچسپی تھی اور نہ آج
دلچسپی ہے،انھیں اپنے مفادات سے سروکار تھا اور ذاتی مفادات کا یہ ایجنڈا
ان کی ترجیحات میں آج بھی سرِ فہرست ہیے ۔دلچسپ بات یہ ہے کہ جیا لوں نے ان
کے مفادات کے حصول میں ان کی دم چھلا بننے سے انکار کر دیا ہے ۔کسی بھی جما
عت کی قوت اس کے کارکن ہو تے ہیں۔ دوسروں لفظوں میں کارکن کسی بھی جما عت
کیلئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ پی پی پی چو نکہ ایک نظریا تی اور
ترقی پسند جما عت ہے لہذا اس کے کارکنوں کے اندر جوش، جذبہ ، جدو جہد اور
قربا نی کا عنصر دوسری سیا سی جما عتو ں کی نسبت زیا دہ ہے کیونکہ انھوں نے
آمریت کے خلاف شاندار جدو جہد سے جمہوریت کے چہرے کو نکھارا ہوا ہے ۔ اسے
پی پی پی کی خوش قسمتی کہہ لیجئے کہ اس کے بانی چیر مین ذولفقار علی بھٹونے
اپنی طلسماتی شخصیت سے اس پارٹی کی مقبولیت میں بڑا کلیدی کردار ادا کیا
تھا۔ جمہو ریت کی خا طر آمریت کے سامنے ڈٹ جانے کی اس کی ادائے ناز نے اسے
افسانوی رنگ میں رنگ دے دیاتھا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کی جرات نے اس جماعت
کی مقبولیت میں بڑا اہم رول ادا کیا اور اس کی شہا دت نے فروری ۲۰۰۸ کے
انتخابات میں جما عت کی فتح میں اپنے لہو سے رنگ بھر کر پی پی پی کو اقتدار
کے ایوانوں میں پہنچایا تھا لیکن پی پی پی نے اپنی ہی قائد ین کے لہو سے بے
وفائی کر کے ان کے قاتلوں سے چشم پوشی کر لی۔ایسی طوطا چشمی کی مثال شائد
ہی سیاسی تاریخ میں کہیں دیکھنے کو ملے کہ جس قائد کے لہو کے صدقے میں کوئی
جماعت اقتدار کے سنگھاسن پر بیٹھے وہ جماعت اپنے پانچ سالہ اقتدار کی خا طر
اپنے ہی قائد کے لہو کو قربان کر ڈالے۔۔
فیصل آباد ایسا شہر ہے جو پی پی پی کا قلعہ ہوا کرتا تھا۔یہ مزدوروں اور
کسانوں کا شہر ہے جس کی وجہ سے پی پی پی یہاں کی مقبول تر ین جماعت ہوا
کرتی تھی۔ پی پی پی انہی محروم طبقات کی نمائندہ جماعت تھی اور پسے ہوئے
یہی طبقے پی پی پی کی اصل قوت تھے۔یہ طبقے پی پی پی کو اپنا محافظ تصور
کرتے تھے لیکن آج اسی شہر سے پی پی پی کو بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے
تو اس کے اسباب بھی بڑے واضح ہیں۔پی پی پی کے پچھلے دورِ حکومت میں کار
کنوں اور قیادت کے درمیان رابطے انتہائی کمزور ہو گئے تھے جس کی وجہ سے
جیالوں نے اپنی جماعت سے دوری اختیار کر لی تھی۔ سچ تو یہ ہے کہ یہ کارکن
ہی ہو تے ہیں جو اپنی جما عتوں کے لئے نعرے لگا تے، جھنڈے اٹھا تے، جلسے
کرتے ، جلوس نکا تے، آنسو گیس کا مقابلہ کرتے اور پو یس کی غنڈہ گردی کو
برداشت کرتے ہیں ۔ الیکشن ہمیشہ کارکنوں کی قوت پر لڑے جا تے ہیں کیونکہ وہ
اپنی جراتوں سے جما عتوں کو فعال بناتے ہیں لیکن اگر قیادت ہی اپنے کارکنوں
سے طوطا چشمی کا مظاہرہ کرنے لگ جائے گی تو پھر کارکن کہاں جائیں
گئے؟کارکنوں کے بغیر جمہوریت کا کہیں بھی کوئی تصور نہیں ہوتا ۔ جمہوریت
درحقیقت کارکنو ں کی جراتوں اور جدو جہد سے ہی اپنا وجود منواتی ہے لیکن پی
پی پی نے اپنے ہی کارکنوں سے جسطرح کا ہتک امیز سلوک روا رکھا اس نے پی پی
پی کے و جود پر سوالیہ نشان ڈال دئے ہیں۔ فیصل آباد سے تحریکِ انصاف کے
امیدوار کی جیت وقت بدل جانے کا اشارہ دے رہی ہے۔ذولفقار علی بھٹو کہا کرتے
تھے کہ خدا کی جنت ماں کے قدموں تلے ہے لیکن سیاست کی جنت عوام کے قدموں
تلے ہے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو بھی اسی فلسفے کی داعی تھیں تبھی تو کارکنوں
کے ساتھ ان کے روابط بڑے مضبوط تھے۔نئی قیادت نے اس فلسفے سے خود کو علیحدہ
کر لیا تو پی پی پی کی پہچان بھی گہنانے لگی ۔عمران خان عوامی حاکمیت کے
اسی نعرے کے ساتھ میدان میں نکلے جو ذولفقارعلی بھٹو کا نعرہ ہوا کرتا تھا
تو عوام کی اغلب اکثریت نے ان کی سیاست کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا۔پی پی پی
پسِ پردہ جانے لگی اور تحریکِ انصاف نے مقبولیت کی جانب اپنا سفر شروع کیا
تو دیکھتے ہی دیکھتے جیالوں کی ایک بڑی تعداد تحریکِ انصاف کی جانب متوجہ
ہوگئی کیونکہ انھیں عمران خان کی صورت میں ایک ایسا قائد نظر آرہا تھا جو
پاکستان سے کرپشن کا خاتمہ کر کے انصاف کا بول بالا کر سکتا ہے۔عمران خان
کو یہ اعزاز حا صل ہے کہ اس کا دامن ہر قسم کی آلودگیوں سے پاک ہے اور اس
کی پہچان ایک کھرے اور سچے قائد کی ہے۔ پی پی پی وفاق کی مضبوط ترین جما عت
ہے۔ اس کی مضبو طی وفاقِ پاکستان کی مضبو طی کے مترادف ہے لہذاپی پی پی کا
متحد اور یکجا رہنا پاکستان کے وفاق کیلئے لاز م و ملزو م کی حیثیت رکھتا
ہے لیکن اس جماعت کے ساتھ اس کے قائدین نے جو کچھ کیا ہے اس نے اس وفاقی
جماعت کو علاقائی جماعت میں بدل دیا ہے۔ پی پی پی کی قیادت کو اپنے رویوں
پر نظر ثانی کر کے کارکنوں کو ان کا اصلی مقام دینا ہو گا۔ کار کنوں کو پی
پی پی میں ذولفقار علی بھٹو اورمحترمہ بے نظیر بھٹو جیسی شفقت ، محبت اور
احترام ملنا تو نا ممکن ہے لیکن پھر بھی محبت اور احتر ام کی نئی بنیادیں
رکھی جا سکتی ہیں تا کہ پاکستان میں جمہو ریت کا پودا مضبوط ہو سکے اور
عوامی حا کمیت کا سورج ہر سو اپنی روشنی بکھیر سکے۔۔
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،، |