اﷲ تعالیٰ کے پیارے حضرت ابراہیم
علیہ السلام ،سیدہ ہاجرہ سلام اﷲ علیہا اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کی
اطاعت الہٰی ،ایثار و قربانی اور بے لوث وفاداری کی ادائیں اﷲ تعالیٰ کو اس
قدر پسند آئیں کہ اُن کو قیامت تک کے لئے اہل ایمان کے لئے دہرانا اور
نبھائے چلے جانا ،لازم قرار پایا ۔ وفا کی انہی اداؤں کی پیروی کا نام ’’حج
‘‘رکھا گیا ۔حج کے لغوی معنی قصد کرنے ،گرد گھومنے ،بار بار لوٹ کر آنے کے
ہیں ۔حج کے ایام ہر سال آتے ہیں اور حجاجِ کرام دنیا کے گوشے گوشے سے جوق
در جوق ،صف بہ صف، قطاراندر قطار ،زمین ،ہوا اور پانیوں کے راستوں سے کعبۃ
اﷲ کی جانب یوں کھینچے چلے آتے ہیں جیسے لوہے کے ٹکڑے مقنا طیس کی جانب
کھینچے آتے ہیں ۔حج کے مقدس اور با وقار موقعے پر لگ بھگ تیس لاکھ
مسلمانانِ عالم اسلام کا عظیم اجتماع دنیا کے کسی بھی ایک مقام پر ،ایک خاص
وقت میں ،انسانوں کا سب سے بڑا ،سب سے شاندار اور سب سے منفرد اجتماع ہے ۔
یہ ایک بے ہنگم ہجوم نہیں جو بلا مقصد ،بلا وجہ ،بے سمت ،کہیں بھی ،منہ
اٹھائے چلا جا رہا ہو ۔ بلکہ ایک ایسا منظم ،منضبط ، با مقصدلشکر ہوتا ہے
جو فقط رضائے الہٰی کی خاطر ،اپنے گھر بار ،اپنے دیس و وطن ، اپنے پیاروں
کو چھوڑ کر ،سفر کی مشقتیں اٹھا کر ،پردیس اور اجنبیت کی سرحدیں عبور کر کے
،رنگ و نسل اور زبان کے اختلافات کو پسِ پشت ڈال کر ،دیوانہ وار، پروانہ
وار ،نذرانۂ جان و تن و قلب و روح کو خالق اکبر کے حضور پیش کرنے کے لئے
ایک مرکز ،ایک مقام پر جمع ہو جاتا ہے ۔ایک علامت ،ایک گھر کا طواف کیا
جاتا ہے ۔اُس کے والہانہ پھیرے لیے جاتے ہیں ۔ایک عالم ذوق و شوق ،جوشِ
مستی و سرشاری کی کیفیت طار ی ہوتی ہے ۔آنکھوں سے بہتے اشکوں میں درد دل کی
تڑپ مچلتی ہے ،سوزِ قلب احساس و اضطراب کی موجوں میں ڈھل جاتا ہے ۔جبینیں
سجدہ ریز ہوتی ہیں ۔سر جھکتے ہیں ،دل جھکتے ہیں ،عجز و نیاز کی کیفیات طاری
ہوتی ہیں ۔
اک طرف اپنے گناہوں پہ نظر جاتی ہے
اک طرف رحمت یزداں کا خیال آتا ہے
اس جوش عقیدت ، اس والہانہ پن کا راز قرآن حکیم نے ان لفاظ میں بیان کیا ہے
۔وﷲ علی الناس حج البیت من استطاع الیہ سبیلا۔’’اور اس پاک گھر(بیت اﷲ )کا
حج کرنا ،لوگوں پر اﷲ (کی محبت ، عقیدت اور فدا کاری ) میں فرض کیا گیا ہے
۔ان پر جو اس کی استطاعت رکھتے ہیں۔‘‘
یعنی یہ جو کچھ بھی ہوتا ہے محض اﷲ ہی کے لئے ہے ۔یہی ﷲیت ،یہی بے غرضی
،یہی بے لوثی ،یہی ایثار و قربانی، یہی والہانہ پن ، یہی خود فراموشی اور
سرشاری ،حج کی اصل روح اور اسلام کا حقیقی مقصد و مدعا ہے ۔اسی بات کو قرآ
ن حکیم میں یوں بیان کیا گیا ہے ۔’’دین اسلام میں پورے پورے داخل ہو جاؤ۔‘‘
اسلام دین فطرت ہے ۔یہ انسانیت کے لئے خداوند کریم کا آخری پیغام اور سب سے
بڑا انعام ہے جس کی وضاحت حجۃ الوداع پر نازل ہونے والی اس آیت مبارکہ سے
ہوتی ہے ۔
الیوم اکملت لکم دینکم و اتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الاسلام دینا۔’’آج ہم
نے تمہارے (بنی نوع انسان کے لئے ) لئے تمہارا دین مکمل کر دیا اور تم پر
اپنے انعامات کی انتہا کر دی اور تمہارے لئے طریقِ حیات کے طور پر اسلام ہی
کو پسند فرمایا۔‘‘
حج اس دین کا مل کا مظہرِ اتم ہے ۔اسلام کی بنیاد عقیدۂ توحید و رسالت ہے
جس کا عملی اظہار حج میں یوں ہوتا ہے کہ سب حجاج جہاں بیت اﷲ ،منیٰ مزدلفہ
اور عرفات میں توحید الہٰی کا پرچم بلند کرتے ہیں وہیں بارگاہِ محبوب داور
، سید و ختم رسل حضرت محمد مصطفےٰ ﷺ میں حاضر ہو کر اس بات کا ثبوت دیتے
ہیں کہ وہ آپ ﷺ کی نبوت و رسالت ﷺ پر ان مٹ یقین رکھتے ہیں ۔ایک طرح سے
دیکھا جائے تو بارگاہِ نبوت کی یہ حاضری اہل اسلام کے عقیدۂ ختم نبوت کا
برملا اظہار بھی ہے کہ اﷲ کے گھر کی حاضری کے علاوہ صرف مدینہ پاک کی حاضری
ہی امت پر واجب کی گئی ہے اور حدیث پاک میں یہاں تک ارشاد ہوا کہ ’’ جس نے
حج و عمر ہ کیا اور میری زیارت کو نہ آیا ’’فقد جفانی ۔۔۔یعنی اُس نے مجھ
سے جفا کی ۔‘‘ اگر چہ متعدد انبیائے کرام کے مدفن دنیا میں موجود ہیں مگر
اُن کی زیارت کی تاکید نہیں جبکہ حضور اکرم ﷺ کی بارگاہ اقدس کی حاضری کو
نہ صرف واجب قرار دیا گیابلکہ اُس سے برکاتِ کثیرہ کے حصول کی خوشخبری بھی
سنائی گئی ۔ منجملہ دیگر گراں قدر انعامات کے سرکار رسالت مآب ﷺ کا یہ وعدہ
۔من زار قبری متعمدا و جبت لہ شفاعتی۔’’جس کسی نے ارادہ کر کے میری قبر کی
زیارت کی اُس کے لئے میری شفاعت واجب ہو گئی ۔‘‘تو اس شخص سے بڑھ کر خوش
نصیب کون ہو گا جس کی شفاعت لازماً آقائے دو جہاں شافع روزِ محشر ﷺ فرمائیں
۔
حج میں عقیدۂ توحید و رسالت کا اقرار باللسان اور تصدیق بالقلب ہی نہیں
بلکہ جسم و جاں کی تمام تر قوتوں ،استعداد اور صلاحیتوں کے ساتھ آدابِ
بندگی کی ادائیگی بھی ہے ،رکوع و سجود اور قیام و قعود بھی ،وضو اور غسل
بھی ،انفق فی سبیل اﷲ بھی ،ہجرت کے سفر کی پیروی بھی اور جہاد با لنفس
،جہاد بالمال اور جہاد باللسان بھی ہے ۔خصوصاً بار بار تلبیہ کی ادائیگی
۔لبیک لبیک اللھم لبیک لا شریک لک لبیک ان الحمد النعمۃ لک و الملک لا شریک
لک ۔
حاضر ہوں ،حاضر ہوں، اے میرے اﷲ میں حاضر ہوں۔ اے وہ ذات جس کا کوئی شریک
نہیں میں حاضر ہوں۔بے شک تمام تعریفیں تیرے لئے ہیں ،تمام نعمتیں تیری ہیں
(تو ہی اُن کا عطا کرنے والا ہے )تمام بادشاہی تیری ہی ہے اور تیرا کوئی
شریک نہیں ،میں حاضر ہوں۔‘‘
جب حجاج اور زائرین کوہ و صحرا ،دشت و جبل ،دریا ،سمندروں اور ہواؤں میں
’’لبیک لبیک‘‘ کہتے ہوئے کعبۃ اﷲ کی جانب بڑ ھ رہے ہوتے ہیں تو لگتا ہے کہ
کائنات کی ہر چیز اﷲ کے حضور حاضری کے لئے بے تاب ہے ۔حاضری اور حضوری کا
جو ذوق و شوق اور کیفیات سفرِ حج کے دوران طاری ہوتی ہیں دنیا بھر میں کہیں
کسی بھی موقعے پر کسی بھی عبادت کے دوران دیکھنے اور سننے میں نہیں آتیں۔
یہ اسلام اور شارعِ اسلام حضرت رسول الثقلین ،نبی الحرمین ﷺ کا فیض اور
اعجاز ہے کہ دنیا بھر کے ہر خطے اور ہر ملک ،ہر رنگ و نسل کے اور ہر زبان
بولنے والے لوگ ،ایک ہی لباس ، ایک سی وضع قطع میں، ایک مرکز پر جمع ہوتے
ہیں ،ایک ہی مقصد لئے اور ایک ہی پکار اپنے ہونٹوں پر سجائے ہوئے ۔لبیک
اللھم لبیک۔ یہ یک رنگی ،یہ یکسانیت ، یہ اتحاد ،یہی یگانگت اسلام کا اصل
مقصد اور تعلیمات قرآن و سنت کا اصل مفہوم ہے کہ :
منفعت ایک ہے اس قوم کی ،نقصان بھی ایک
ایک ہی سب کا نبی (ﷺ)، دین بھی ایمان بھی ایک
حرم پاک بھی ،اﷲ بھی ،قرآن بھی ایک
دورِ حاضر ٹیکنالوجی کی تیز رفتار تر قیوں اور مادیت پرستی کا دور ہے جس
میں نفرت ، تعصب ،انتشار، خونریزی ،جبر و تشدد اور ظلم و ستم کا دور دورہ
ہے ،رنگ ،نسل ،زبان اور اقتصادی و گروہی مفادات نے بنی نوع انسان کو تقسیم
کر رکھا ہے بلکہ سچ تو یہ ہے کہ :
انساں نوعِ انساں کا شکاری ہے
اس عہدِ ابتلاء و آزمائش میں افراد اور قوموں کی نجات ایک ہی مرکز پر جمع
ہونے اور اسلامی تعلیمات کو مشعلِ راہ بنانے سے ہی ممکن ہے جس کے لئے حج کا
عظیم اجتماع ایک سنہری موقعہ پیش کرتا ہے ۔کاش بنی نوعِ انسان اﷲ کے اس
آخری پیغام اور اُس کے انعامات کی حکمتیں سمجھ پائے ۔
معزز قارئین !نجانے صدائے ابراہیمی میں کیا زور اور کتنا اخلاص تھا کہ ہر
سال اتنے لوگ یہاں حاضر ہوتے ہیں کہ کسی سلطان وقت کے بلاوے پر بھی لوگوں
کی اتنی بڑی تعداد جمع ہوئی ہو گی اور نہ ہو سکتی ہے ۔
اونٹوں کے دور سے لے کر جہازوں کے زمانے تک زائرین و حجاج کی تعداد ہے کہ
برابر بڑھتی چلی جا رہی ہے ،دنیا میں کسی بھی جگہ پر انسانوں کا یہ سب سے
بڑا اجتماع ہوتا ہے اور یہ محض اجتماع ہی نہیں ہوتا بلکہ بے شمار روحانی
اور معاشرتی خوبیوں اور پہلووں کا حامل ہوتا ہے ۔حج کے موقعہ پر دنیا بھر
کے علماء ، محققین ،سائنسدان ،سیاستدان ، تاجر ، قانون دان اور شعبہ ہائے
زندگی کے لوگ جمع ہوتے ہیں تو وہ حج کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ اپنے ملکی اور
عالمی پیچیدہ مسائل پر افہام و تفہیم کر کے ملتِ اسلامیہ کے لئے بہترین
لائحہ عمل بھی تجویز کر سکتے ہیں۔اس لئے کہ حج ایک عالمی اسلامی کانفرنس
بھی ہے ۔
1:۔ اتنا بڑا اجتماع کسی قومی فخر کے اظہار اور کسی نسلی عصبیت کے حوالے سے
نہیں ہوتا اور نہ ہی وقتی سیاسی ہنگاموں کا آئینہ دار ہوتا ہے ۔بلکہ اس
عالمگیر اجتماع میں جوشریک ہوتا ہے وہ یہاں زرق برق لباس پہن کر نہیں بلکہ
ایک طرح کا کفن اوڑھ کر حاضر ہوتا ہے ۔اس اجتماع میں اپنی شخصی وجاہت کا
نہیں ہر لمحہ خطاؤں پر ندامت کا اظہار کیا جاتا ہے ،تخت نشین خاک نشین بن
کر رہتے ہیں ۔ حج کے اجتماع میں جو کچھ نظر آتا ہے اگر یہی کچھ امت کا
اجتماعی رویہ بن جائے تو فکری و روحانی اور سیاسی و معاشرتی انقلاب دو قدم
کے فاصلے پر رہ جاتا ہے۔ امت اگر ہر قدم پر اسی جذبہ عبودیت سے سرشار ہوجس
کا مظاہرہ مطاف کعبہ ،کوہ صفا ،میدان عرفات اور منیٰ و مزدلفہ میں کیا جاتا
ہے تو دنیا کی کوئی طاقت امت کو اپنے دام غلامی میں نہیں پھانس سکتی ،اسی
زرق برق لباس کی بے محابا اور منہ زور خواہش نے عالم اسلام کو تن آسانی کا
مریض بنا دیا ہے جس کے نیتجے میں ہم اپنا من بڑی آسانی سے گروی رکھنے کو
تیار ہو جاتے ہیں ۔کفن پر قناعت کر لی جائے تو ذلت سے آدمی کو نجات مل سکتی
ہے ۔آج امت کا ایک بڑا روگ شخصی وجاہت کا اظہار ہے جس نے وجود امت کو ریزہ
ریزہ اور اسلامی جمعیت کو پارہ پارہ کیا ہوا ہے ،کسی زمانے میں اسلامی
برادریوں کا رنگ الگ لیکن آہنگ ایک تھا ۔جغرافیائی خطے تو تھے مگر دینی
رشتے پر استوار ،لفظ مختلف تھے مگر معنی مشترک تھا ،بول چال اور لہجے میں
ضرور اختلاف تھا لیکن چال ڈھال اور رویے میں زبردست اشتراک تھا ،حج کے
اجتماع میں مختلف رنگوں زبانوں اور علاقوں کی نمائندگی ہوتی ہے لیکن سبھی
ایک ہی رشتہ بندگی میں جڑے ہوئے ہوتے ہیں ۔
2:۔ حج کے موقع پر آج تک کسی بھی زمانے میں یہ حادثہ نہیں ہوا کہ کوئی عربی
طواف کے دوران کسی عجمی سے کندھا جوڑ کر چلنے میں عار محسوس کرے ،کوئی گورا
کسی کالے کو اپنے ساتھ نہ لگنے دے ،کوئی امیر کسی غریب کے ساتھ ایک صف میں
نماز پڑھنے کو آمادہ نہ ہو ،کوئی عالم عام مسلمانوں کے عرفات میں قیام نہ
کرے اور کوئی شب زندہ دار اور زاہد کسی عاصی و خاطی کی موجودگی میں مناسک
حج ادا کرنے سے گریز کرے۔ لیکن یہ کیا ہے؟ کہ وہاں سے واپس ہوتے ہی کسی کی
عربیت جاگ پڑتی ہے ،کوئی اپنے گورے رنگ پر فخر کرتاہے ۔کسی کی امارت میں
فرعونیت آجاتی ہے ، کوئی اپنی علمی برتری کو باقاعدہ صنعت آزادی بنا کر
بیٹھ جاتا ہے کہ لوگ آئیں اور پوجا کریں اور کوئی اپنی شب بیداری کو با
ضابطہ مردم آزادی میں بدل دیتا ہے۔ اگر حج کے موقع پر کعبہ کسی کی ملکیت
نہیں ہوتا توہم نے رب کعبہ کو اپنے فرقوں میں کیوں منحصر کیا ہوا ہے ۔۔؟اگر
صفا و مروہ کی دوڑ میں سب برابر کے شریک ہوتے ہیں تو زندگی کی دوڑ میں ہم
سب کو شریک کرنے سے کیوں گھبراتے ہیں ؟اگر نمرہ و مزدلفہ میں قیام و سجود
ایک ساتھ ہو سکتا ہے تو عام مسجدوں میں ایک دوسرے کا وجود کیوں ناقابل
برداشت ہوجاتا ہے ؟
خالق کائنات نے جان انسانی کو تکریم عطا فرمائی ہے ۔اسی نے اس کو احسن
تقویم پر پیدا فرمایا ۔اﷲ تعالیٰ کو گوارہ نہیں کہ انسان کا خون بہایا جائے
۔رسول رحمت ﷺ نے بہت عظیم بات فرمائی کہ میرے لئے سار ی زمین کو مسجد بنایا
گیا ۔لہٰذا ساری زمین پر امن وسلامتی سے انسانی معاشرہ وجود میں آنا چاہیے
۔حرم کعبہ میں مرد و زن اکٹھے طواف کرتے ہیں ، مل کر سعی کرتے ہیں اور سب
کی توجہ اپنے خالق و مالک کی طرف ہوتی ہے ۔جب سب کی توجہ اﷲ تعالیٰ کی طرف
ہو تو عزتیں محفوظ ہوتی ہیں۔جانیں امان میں ہوتی ہیں اور اموال کے نقصان کا
ذرا بھی ڈر نہیں ہوتا ۔ یہاں سے مومن کامل یہ قانون اخذ کرتا ہے کہ دنیا کے
لئے امان توجہ الی اﷲ میں ہے ۔ وہ دیکھتا ہے کہ پوری دنیا میں ظلم اور بے
اعتدالی توجہ ہی کے بھٹک جانے کا نتیجہ ہے اور جونہی توجہ یک سو ہو جائے تو
امن و سکون اور اطمینان کی فضا ء قائم ہو جاتی ہے ۔مومن کی نگاہ بصیرت لباس
احرام سے بھی دانائیاں کسب کرتی ہے ۔وہ لباس کی یکسانیت پر غور کرتا ہے کہ
ایک جیسے لباس میں امیر و غریب ، حاکم و محکوم اور آقاؤ غلام کی تمیز مٹا
دی ۔سب ہی ایک اﷲ کے بندے بن گئے ہیں۔وہی اﷲ جس کی بندگی میں افتخار ہے ۔اس
کے سوا دنیا کے ہر بادشاہ کی غلامی انسان کے لئے کسرِ شان ہے ۔ کیونکہ اﷲ
تعالیٰ بادشاہوں کا بادشاہ ہے ۔اس کی ازلی و ابدی بادشاہت کے سامنے ہر
بادشاہت سر نگوں ہے ۔لباس کی سادگی نے شاہوں میں انکساری اور فقیروں میں
اعتماد کی روح پھونک دی ہے ۔اس لباس نے قوم و ملت کا امتیاز ہی ختم نہیں کر
دیا بلکہ رسم و رواج کے فرق کو بھی مٹا دیا ہے اور سارے انسانوں کو ایک
جیسا بنا دیا ہے ۔یہاں انسان نے اپنے ہاتھوں سے کفن پہن لیا ہے وہ سوچتا ہے
کہ ایک رو ز اسی بدن پر ایسا ہے ان سلا لباس دوسروں نے اپنے ہاتھوں سے
پہنانا ہے ۔اس دن دوسرے میرا بدن اٹھائے توحیدالٰہی کی شہادت دے رہے ہونگے
۔آج میں خود اس مالک و خالق کے حضور حاضر ہوں اور اسے پکار کر کہہ رہا ہوں
۔اللھم لبیک ۔یہ تو غم ہجراں سے گزرنے والے عاشق کی فریاد ہے یہاں لفظ تو
علامت کی حیثیت رکھتے ہیں وہ علامت جو جذبۂ اطاعت کی ترجمان ہے ۔
معزز قارئین !سوچنے کی بات ہے کہ مناسک حج کے دوران جو سبق ہمارے دلوں پر
لکھا جاتا ہے ہم اس پر کس حد تک عمل کرتے ہیں؟ اپنے رب کے گھر میں اس سے جو
عہد کر کے لوٹتے ہیں اس کو فراموش کرتے ہوئے ہمیں ڈر کیوں نہیں لگتا؟ حاجی
وہاں آب زم زم کی بوتلوں اور کھجوروں کے ساتھ ساتھ روحانی نور ،وقت کی
پابندی، مساوات اسلامی، احترام انسانیت، محبت، انس اور بندگی کو واپس آکر
تقسیم کیوں نہیں کرتے؟لوگ ایک سا لباس پہن کر سخت گرمی میں طواف کعبہ کرتے
ہیں بلکہ اسی طرح جیسے حضرت ہاجرہ دوڑی تھیں کیونکہ ان کا بچہ حضرت اسماعیل
پیاسا تھا لیکن حاجیوں کے پاس تو پانی کی فراوانی ہوتی ہے اور ان کا بچہ
بھی پیاسا نہیں ہوتا تو پھر وہ اس دوڑنے کی منطق کو کیوں نہیں سمجھتے ؟
امیر بھی دوڑ رہا ہے ،غریب بھی ،بوڑھا بھی دوڑ رہا ہے اور جوان بھی ، غلام
بھی دوڑ رہا ہے اور آقا بھی ، ولی ،غوث ،قطب،ابدال بھی دوڑ رہے ہیں بلکہ ان
راہوں پر خود امام الانبیاء حضرت محمد مصطفےٰ ﷺ بھی دوڑے یہاں پر سب کے
ہونٹوں پر ایک ہی کلمہ ہوتا ہے اور سب رحمت الہٰی کے طلبگار ہوتے
ہیں۔چلواسی دفع حج کے موقعہ پر ہم فلسفہ حج کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں ،
شاید ہمارے اعمال میں وہ تبدیلی آسکے جس کا ذکر ہم کتابوں میں کئی بار پڑ ھ
چکے ہیں۔ سب سے بڑی تبدیلی سوچ و فکر کی تبدیلی ہوتی ہے اگر فکر میں انسان
سب کو برابر سمجھنا شروع کر دے تو مساوات اسلامی کا سبق ہماری زندگیوں میں
شامل ہو جائے گااور ہم حقیقی معنوں میں ترقی کی راہ پر گامزن ہو جائیں گے
۔مساوات کا سبق ہمیں قانون کے احترام کی طرف لے جاتا ہے وہ قانون جس کی نظر
میں سب برابر ہیں ۔جو سب کے حقوق کا محافظ ہے ۔ جو امیر و غریب کو ایک جیسا
جرم کرنے پر ایک جیسی ہے سزا سناتا ہے ،جو غریب کے بجلی کا ایک ماہ کا بل
جمع نہ کروانے پر اس کو تاریک نہیں کرتا اور نہ ہی امیر و وزیرکے بل کی
سالوں لمبی اقساط کی منظوری دیتا ہے ۔اﷲ تعالیٰ کرے ہم فلسفۂ حج سمجھ کر
اپنی عملی زندگی کو نظام مصطفےٰ ﷺ میں ڈھالنے پر آمادہ ہو جائیں تو پھر
ہمیں کسی نئے انقلاب کی ضرورت نہیں بلکہ 14صدیاں پہلے آنے والے آفاقی
انقلاب کی یادیں پھر سے تازہ ہو جائیں گی ۔ |