چرم قربانی: اعانت مسلمین کا زریں موقع اور ہماری ذمہ داریاں

نبی کونین صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی آمد کے ساتھ دین کی تکمیل ہوئی۔دین کی اکملیت سے کوئی شعبہ ٔحیات اور دینی و دنیوی اعتبار سے کوئی سا پہلو تشنہ نہ رہا۔اس رُخ سے اس طبقے کو اپنی فکر کا قبلہ درست کر لینا چاہیے جو دین کو محض چند دینی و روحانی معاملات تک محدود گردانتا ہے۔ مذہب اصطلاح میں وہی ہے جو انسانی حیات کی مکمل رہ نمائی و نمائندگی کرتا ہو۔ اس لحاظ سے صرف اسلام ہی درحقیقت ’’مذہب‘‘ ہے، قدیم مذاہب جن کی اصل تعلیمات کو ان کے ماننے والوں نے مسخ کر دیا، وہ اپنی واقعی حیثیت کھو بیٹھے، اور اوہام ومفسدات کا پلندہ بن گئے، اس لیے وہ انسانیت کے لیے نجات کا باعث نہیں رہے، موجبِ نجات صرف اسلام ہے۔اب یہودیت و عیسائیت کے قبول سے بندہ مسلمان نہیں ہوگا، دینِ فطرت پر استقرار صرف اسلام کے قبول سے ہوگا۔

اسلام نے اپنے ماننے والوں کو ہر جہت سے نوازا ہے۔ یہاں معاشی نظام بھی ایسا مضبوط و مستحکم ہے کہ اگر اس پر عمل کر لیا جائے تو معاشرے کا کوئی فرد بھوکا اور زبوں حال نہ رہے، پس ماندگی کے خاتمہ کے لیے اسلام نے زکوٰۃ، فطرہ، صدقہ کا نظام عطا کیا۔ زکوٰۃ پر صرف مفلسوں، محتاجوں اور ضرورت مندوں کا حق ہے۔ ایسا نہیں کہ زکوٰۃ دینے والا لینے والے پر احسان کر رہا ہے، ہاں! صاحبِ مال پر لینے والا یہ ضرور احسان کر رہا ہے کہ اس کی زکوٰۃ قبول کر کے مال کی ستھرائی کا باعث بن رہا ہے۔ زکوٰۃ کا نظام اگر صحیح طور پر استوار ہو جائے تو ہمیں سچر کمیٹی کی طرح پھر کوئی اور سرکاری رپورٹ پس ماندہ اور پچھڑا ہوا نہیں قرار دے گی۔ ہمیں اپنے حقوق کے لیے حکومت سے مطالبہ کرنا تو آتا ہے لیکن خود پر عائد ذمہ داریاں اور زکوٰۃ کی اصولی ادائیگی کا کچھ خیال تک نہیں۔ بلاشبہہ اقلیتوں کے لیے دستوری مراعات کے حصول کا حق ہمیں ہے لیکن خود احتسابی سے صرف نظر آخر کب تک؟پھر یہ کہ تعلیمی سطح پر ہماری زکوٰۃ مدارس کو پہنچتی ہے تو علم و فن پروان چڑھتے ہیں، ہمیں قوم کی تعلیمی و اخلاقی تربیت بھی کرنی ہے، اور اس نظام کو مزید استحکام عطا کرنا ہے، علم ہی وجہ افتخار ہے اور اسلام نے تو علم دین کے حصول کو فرض قرار دے کر گویا فطری تقاضوں کی تکمیل کر دی ہے۔

اسلامی تہواروں کا تصور غربا و محتاجوں کی اعانت و امداد سے شروع ہوتا ہے۔عید پر فطرہ کی تقسیم، خوشیوں کے مواقع پر فقرا و مستحقین کی فریاد رسی و حاجت روائی، عیدالاضحی پر چرم قربانی اور گوشت سے ضرورت مند مسلمانوں کی امداد یہ ایسے معاملات ہیں جن سے اسلامی معاشرے کا استحکام بھی ہوتا ہے، اور مدارسِ اسلامیہ جہاں سے دین کی اشاعت و فروغ کا مرحلۂ شوق طے ہوتا ہے کی معاونت بھی ہوجاتی ہے۔عہدِ رواں میں مسلمانوں کے رشتۂ ایمانی کو کم زور کرنے کی غرض سے مستشرقین اور مخالفین اسلام نے جو ماحول سازی کر رکھی ہے اس کا اہم پہلو بارگاہِ رسالت مآب صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم میں جرأت و بے باکی اور گستاخی و توہین ہے، اس سلسلے میں مدارسِ اسلامیہ نے ہر باطل قوت کا دنداں شکن جواب بر وقت فراہم کیا ہے۔ ہمارا علمی سرمایہ بھی اسلامی درس گاہوں کے فارغین کا عطا کردہ ہے۔ غزالی و سیوطی، رازی و رضا، شاہ ولی اﷲ و مجدد الف سبھی اسلامی دانش گاہوں سے تیار ہو کر نکلے اور یہود و نصاریٰ کی ریشہ دوانیوں کے مقابل سدِ سکندری ثابت ہوئے۔

عیدالاضحی کے موقع پر قربانیوں کی بساط آراستہ کی جاتی ہے۔ اعزا و قربا کو نعمتِ قربانی سے فیض یابی کا موقع فراہم کیا جاتا ہے، اس موقع پر قربانی کی کھالوں کو بھی مدارس اسلامیہ میں دینے کا رواج ہے، چرم قربانی سے متعلق اس تحریر میں چند باتیں پیش کرنی ہے۔عموماً چرم کو لوگ مدارسِ اسلامیہ میں دیتے ہیں، مدارس کی دو قسمیں ہیں ایک دارالعلوم و جامعات جہاں عموماً طلبہ کے لیے ہوسٹل و بورڈنگ کی سہولت ہوتی ہے، دوسرے مکاتب جہاں طلبہ کو ناظرہ و تجوید کی تعلیم دی جاتی ہے۔

مالیگاؤں کی حد تک تو ایسا ہے کہ یہاں مکاتب چلانے میں معمولی خرچ آتا ہے، مخلص افراد اس کا بیڑا اٹھاتے ہیں اور علاقائی تعاون سے ہی یہ پروان چڑھتے ہیں، اور جامعات و دارالعلوم میں اقامتی طلبہ ہوتے ہیں اس لیے ان کے اخراجات زیادہ ہوتے ہیں، اسی وجہ سے موجودہ گرانی کے دور میں ان کی اعانت کی غرض سے زکوٰۃ و عطیات، صدقات و چرم قربانی تفویض کیا جانا ہی چاہیے۔ اس سلسلے میں اب یہ بھی دیکھا جا رہا ہے کہ چھوٹے مدارس و مکاتب کے ذمہ داران بھی دھوم دھام سے چرم و زکوٰۃ جمع کرنے لگے ہیں جس سے بڑے مدارس کی امداد کم زور ہورہی ہے، چوں کہ مکاتب کے اخراجات علاقائی اور مختصر تعاون سے پورے ہو جاتے ہیں اس لیے اقامتی اداروں کو چرم کے معاملے میں ترجیح دی جانی چاہیے۔اسی کے ساتھ یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ کسی سیٹھ صاحب، یا کوئی صاحبِ حیثیت آدمی اگر مدرسے یا مکتب سے جڑا ہے تو لوگ اس سے تعلق خاطر کی بنیاد پر چرم کا ڈھیر لگا دیتے ہیں، یہ بھی نہیں سوچتے کہ ہمارے معاشرے میں جو بڑے مدارس ہیں ان کے سالانہ بجٹ مکاتب کے مقابلے میں سو،دو سو گنا زیادہ ہیں۔ مکاتیب تو چند ہزار روپیوں سے چل جاتے ہیں۔ لیکن جامعات کے لیے تو لاکھوں لاکھ کی ضرورت ہوتی ہے۔ عام طور پر اقامتی اداروں میں زیادہ بچے ایسے ہوتے ہیں جو کم زور اور غریب خاندانوں سے تعلق رکھتے ہیں، اگر ان کی کفالت کی خاطر اقامتی مدارس کو کھالیں دی جائیں تو علم دین کی خدمت کے ساتھ ہی غریبوں کی امداد بھی ہو جائے گی۔دوہرے ثواب سے ہم شرف یاب ہوں گے۔

فلاحی کام کرنے والے بعض ادارے اور اسکولیں بھی چرم جمع کرتی ہیں، اس بابت عرض ہے کہ مسلمانوں کے لیے جہاں فلاحی کام واقعی اور دیانت دارانہ انجام دیئے جاتے ہیں انھیں تو چرم دینے میں قباحت نہیں لیکن جہاں معاملہ صاف نہ ہو انھیں نہ دینا ہی بہتر ہے، اور وہ اسکولیں جن کی گرانٹ جاری نہیں ہوئی ان کا معاملہ الگ ہے مگر جن کی گرانٹ منظور ہے انھیں کم از کم چرم دینے سے احتراز کرنا چاہیے اس سے مدارس اسلامیہ کا حق متاثر ہوتا، پہلے ہی ہمارے مدارس مفلوک الحال ہیں، وہ صرف مسلمانوں کے سہارے ہی چلتے ہیں،انھیں جن مواقع پر قوم سے معاونتِ خصوصی ملتی ہے اگر وہ بھی سمیٹ دیئے جائیں تو علم دین کے فروغ کے لیے مدارس کو وسائل کہاں سے ملیں گے؟مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ علم دین کی اشاعت اور اس کے ذرایع کو فوقیت دیں اور باقی دیگر معاملات کو اس کے بعد نمٹائیں۔ یہ صحیح ہے کہ بہت سے شعبے ہیں جن میں کام کی ضرورت ہے، فلاحی و سماجی، سیاسی و تعلیمی لیکن ان میں علم دین کی اشاعت کا شعبہ سب پر ممتاز ہے اس لیے بھی کہ علم دین کے حصول کی فرضیت آقا کریم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے ارشاد مبارک سے ثابت ہے۔علم دین کے فروغ کے لیے وسائل مہیا کرنا ہماری ترجیحات سے ہونا چاہیے۔یہ قومی ذمہ داری ہے جس سے گلوخلاصی نہیں کی جاسکتی۔

ان معروضات کا مقصد محض دعوتِ اصلاح ہے کسی کی دل شکنی نہیں، اﷲ تعالیٰ ہمیں اشاعتِ علم دین کے لیے جذبۂ صالح اور حسنِ نیت عطا فرمائے۔ اور ہماری قربانیوں کو شرف قبول عطا فرمائے، عیدِ قرباں کے صدقے نفس کی، مال کی، ناموسِ رسالت کے لیے جان کی، اشاعتِ دین کے لیے وقت کی قربانی دینے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ سیدالمرسلین علیہ الصلاۃ والتسلیم۔
Ghulam Mustafa Rizvi
About the Author: Ghulam Mustafa Rizvi Read More Articles by Ghulam Mustafa Rizvi: 277 Articles with 256183 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.