(۲)ادبِ رسول صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم (اسوۂ صحابہ کا درخشاں باب)

 گزشتہ سے پیوستہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم ہجرت کرکے مدینہ تشریف لائے تو حضرت ابو ایوب انصاری رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے مکان میں قیام فرمایا، اور آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم نیچے کے حصے میں اوران کے اہل و عیال اوپر کے حصے میں رہنے لگے۔ ایک رات حضرت ابوایوب رضی اﷲ تعالیٰ عنہ بیدار ہوئے تو کہا کہ ہم اوررسول اﷲ عزوجل و صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم کے اوپر چلیں پھریں۔ اس خیال سے تمام اہل و عیال کو ایک کونے میں کردیا۔ صبح کو آپصلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہ وبارک وسلم کی خدمت میں گزارش کی کہ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہ وبارک وسلم اوپر قیام فرمائیں۔ ارشاد ہوا کہ نیچے کا حصہ ہمارے لئے زیادہ موزوں ہے۔

ایک روایت میں ہے حضرت ابو ایوب رضی اﷲ عنہ برابر اس بات پر مصر رہے کہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہ وسلم اوپر کی منزل میں رہیں اورخود نچلی منزل میں رہیں۔

بولے کہ جس چھت کے نیچے آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہ وبارک وسلم ہوں ہم اس پر نہیں چڑھ سکتے،لہذا آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہ وبارک وسلمنے بالا خانہ پر قیام فرمایا۔
(مدارج النبوت،قسم دوم، باب چہارم،بیان قضیۂ ہجرت آنحضرت ،ج۲، ص۶۵)

بعض صحابہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہم آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم سے سن میں بڑے تھے، لیکن ان کو فرط ادب سے یہ گوارانہ تھا کہ ان کو آپ سے بڑا کہا جائے۔

ایک بار حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ نے ایک صحابی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے پوچھا آپ بڑے ہیں یارسول اﷲ عزوجل و صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم؟ بولے بڑے تو رسول اﷲ عزوجل و صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم ہیں، البتہ میں آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلمسے پہلے پیدا ہوا۔
(سنن الترمذی،کتاب المناقب، باب ماجاء فی میلاد النبی، الحدیث:۳۶۳۹، ج۵، ص۳۵۶)

اگر نادانستگی میں بھی آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلمکی شان میں کوئی نامناسب بات نکل جاتی تو اسکی معافی چاہتے ۔

ایک صحابیہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کا بچہ مرگیا، اور وہ اس پر رورہی تھیں۔ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم کا گزر ہوا، تو فرمایا: خدا سے ڈرو اور صبر کرو، بولیں تمہیں میری مصیبت کی کیا پرواہ ہے، آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلمچلے گئے تو لوگوں نے کہا کہ رسول اﷲ عزوجل و صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم تھے، دوڑی ہوئی آئیں اور عرض کی کہ میں نے حضورصلی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم کو نہیں پہچانا تھا۔
(سنن ابی داود،کتاب الجنائز،باب الصبر عندالصدمۃ، الحدیث:۳۱۲۴،ج۳، ص۲۵۸)

اگر کسی دوسرے شخص کے متعلق آپصلی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم کی نسبت بے ادبی کا خیال ہوتا تو صحابہ کرام رضی اﷲ تعالیٰ عنہم سخت برہم ہوتے۔ ایک بار حضرت ابو بکر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ دولت سرائے اقدس میں آئے۔ دیکھا کہ حضرت عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا بآواز بلند بول رہی ہیں فوراً طمانچہ اٹھایا اور کہا اب کبھی آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کے سامنے آواز بلند نہ ہونے پائے ۔
(سنن ابی داود،کتاب الأدب، باب ماجاء فی المزاح،الحدیث:۴۹۹۹،ج۴، ص۳۹۰)

آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہ وسلم پر ایک شخص کا کچھ قرض تھا، اس نے گستاخانہ طریقے سے تقاضا کیا، تو تمام صحابہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہم اس پربرانگیختہ ہوگئے تو نبی کریم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے فرمایا:رکو !کہ قرض خواہ کو مقروض پر مطالبہ کرنے کا اس وقت تک حق ہے جب تک وہ قرض ادا نہ کرے ۔
(سنن ابن ماجہ، کتاب الصدقات، باب لصاحب الحق سلطان ، الحدیث۲۴۲۵، ج۳،ص۱۵۰)

ایک بار آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہ وسلم سفر میں تھے ایک بدو آیا اور وحشیانہ لہجہ میں آواز بلند کی اور پکارا یامحمد ، یامحمد ۔صحابہ کرام رضی اﷲ تعالیٰ عنہم نے کہا یہ کیا؟ (اس طرح کہنا) منع ہے۔
(سنن الترمذی،کتاب الدعوات، باب فی فضل التوبۃ والاستغفار.....الخ، الحدیث:۳۵۴۷،ج۵،ص۳۱۶)

ایک بار آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے فرمایا :کہ انصار کے خاندانوں میں سب سے افضل بنو نجار ہیں، پھر بنو عبدالاشہل، پھر بنو حارث بن الخزرج ، پھر بنو ساعدہ، ان کے علاوہ انصار کے تمام خاندان اچھے ہیں، حضرت سعد بن عبادہ قبیلہ بنو ساعدہ سے تھے ، ان کو جب معلوم ہوا کہ آپصلی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم نے ان کے قبیلے کو چوتھے نمبر پر رکھا ہے تو ان کو کسی قدر نا گوار ہوا، بولے میرے گدھے پر زین کسومیں خود رسول اﷲ عزوجل و صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم سے اس کے متعلق گفتگو کروں گا، لیکن ان کے بھتیجے حضرت سہل رضی اﷲ عنہ نے کہا کیا آپ رسول اﷲ عزوجل و صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم کی تردید کے لئے جاتے ہیں ؟ حالانکہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم وجوہ فضیلت کے سب سے زیادہ عالم ہیں، یہ کیا کم ہے کہ آپ کا چوتھا نمبر ہے۔
(صحیح مسلم، کتاب الفضائل،باب فی خیر دورالانصار.....الخ،الحدیث: ۲۵۱۱،ص۱۳۶۱)

صلح حدیبیہ کے بعد کافروں کا مسلمانوں میں اختلاط ہوگیا، حضرت سلمہ آئے اور ایک درخت کے نیچے لیٹ گئے،چار مشرک بھی اس جگہ آئے اور حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم کو برا بھلا کہنا شروع کردیا، ان کو گوارا نہ ہوسکا، اٹھ گئے دوسری جگہ چلے گئے، اور چاروں مشرک بھی تلوار کو لٹکاکر سورہے ، اسی حالت میں شور ہوا کہ ابن زنیم قتل کردیا گیا حضرت سلمہ نے موقع پاکر تلوار میان سے کھینچ لی، اور چاروں پر حالت خواب میں حملہ کرکے ان کے تمام ہتھیاروں پر قبضہ کرلیا، اور کہا کہ اس ذات کی قسم جس نے محمد صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم کو عزت دی تم میں سے جو شخص سر اٹھائے گا اس کا دماغ پاش پاش کردیا جائے گا۔
(صحیح مسلم، کتاب الجھاد،باب غزوۃ ذی قردوغیرہا.....الخ، الحدیث: ۱۸۰۷، ص۱۰۰۰)

ایک شخص کا نام محمد تھا حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے دیکھا کہ ایک آدمی ان کو گالی دے رہا ہے، بلاکر کہا کہ دیکھو تمہاری وجہ سے محمد کو گالی دی جارہی ہے، اب تادم مرگ تم اس نام سے پکارے نہیں جاسکتے، چنانچہ اسی وقت اس کا نام عبدالرحمن رکھ دیا گیا۔ پھر بنو طلحہ کے پاس پیغام بھیجا جو لوگ اس نام کے ہوں ان کے نام بدل دیئے جائیں۔ اتفاق سے وہ لوگ سات آدمی تھے اوران کے سردار کا نام محمد تھا۔ لیکن انہوں نے کہا: خود رسول اﷲ عزوجل و صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم ہی نے میرا نام محمد رکھا ہے، بولے اب میرا اس پر کوئی زور نہیں چل سکتا۔
(المسند لامام احمد بن حنبل، حدیث محمد بن طلحۃ بن عبیداﷲ رضی ا ﷲ تعالیٰ عنہ، الحدیث:۱۷۹۱۶،ج۴،ص۲۶۷)

چھوٹے چھوٹے بچے بھی اگر آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم کے ساتھ کسی قسم کی شوخی کرتے تو صحابہ کرام رضی اﷲ تعالیٰ عنہم انکو ڈانٹ دیتے حضرت ام خالد رضی اﷲ عنہا اپنے باپ کے ساتھ حاضر خدمت ہوئیں، اور بچپن کی وجہ سے خاتم النبوۃ سے کھیلنے لگیں، ان کے والد نے ڈانٹا، لیکن آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا کھیلنے دو ۔
(صحیح البخاری،کتاب الجھاد،باب من تکلم بالفارسیۃ والرطانۃ، الحدیث:۳۰۷۱،ج۲،ص۳۳۱)

جو چیزیں شان نبوت کے خلاف ہوتیں، صحابہ کرام رضی اﷲ تعالیٰ عنہم آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم کے سامنے ان کے ذکر تک کو سوء ادب سمجھتے ، آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم نے جب قضا عمرہ ادا فرمایا تو حضرت عبداﷲ بن رواحہ رضی اﷲ عنہ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم کے آگے آگے اشعار پڑھتے چلتے تھے ، حضرت عمر رضی اﷲ عنہ نے سنا تو فرمایا : رسول اﷲ عزوجل وصلی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم کے سامنے اورحدود حرم کے اندر شعر پڑھتے ہو؟ لیکن آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم نے خود اسکو مستحسن فرمایا۔
(سنن النسائی، کتاب المناسک الحج،باب انشادالشعرفی الحرم والمشی بین یدی الامام، ج۵،ص۲۰۲)

(ترمذی میں ہے کہ اشعار حضرت مالک رضی اﷲ عنہ نے پڑھے تھے اوریہی صحیح بھی ہے)

ایک بار کچھ لوگوں نے جمعہ کے دن آپصلی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم کے منبر کے سامنے شور و غل کرنا شروع کیا حضرت عمر رضی اﷲ عنہ نے ڈانٹا کہ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم کے منبر کے سامنے آواز اونچی نہ کرو۔
(صحیح مسلم، کتاب الامارۃ ،باب فضل الشھادۃ فی سبیل اﷲ تعالٰی، الحدیث:۱۸۷۹،ص۱۰۴۴)

یہ تعظیم ،یہ ادب، یہ عزت ،آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی زندگی کے ساتھ ہی مخصوص نہ تھی، آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے وصال کے بعد بھی صحابہ کرام رضی اﷲ تعالیٰ عنہم آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا اسی طرح ادب کرتے تھے، آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے وصال کے بعد قبر کے متعلق اختلاف ہوا کہ لحد کھودی جائے یا صندوق ، اس پر لوگوں نے شور و غل کرنا شروع کردیا، حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے فرمایا :آپصلی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم کے سامنے وفات و حیات دونوں حالتوں میں شور و شغب نہ کرو۔
(سنن ابن ماجہ،کتاب الجنائز،باب ماجاء فی الشق، الحدیث:۱۵۵۸، ج۲،ص۲۴۵)

صحابہ کرام رضی اﷲ تعالیٰ عنہم کے اس ادب و احترام کا منظر صلح حدیبیہ میں عروہ کو نظر آیا تو وہ سخت متاثر ہوا ،اس نے صلح سے متعلق آپصلی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم سے گفتگو کی، تو عرب کے طریقے کے مطابق ریش مبارک کی طرف ہاتھ بڑھانا چاہا، لیکن جب جب ہاتھ بڑھاتا تھا حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اﷲ عنہ تلوار کے ذریعہ سے روک دیتے تھے، اس واقعہ سے عروہ کی اس طرف توجہ ہوگئی اور اس نے صحابہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہم کے طرز عمل کو بغور دیکھنا شروع کیا۔ تو اس پر یہ اثر پڑا کہ پلٹا تو کفار سے بیان کیا کہ میں نے قیصر وکسریٰ اور نجاشی کے دربار دیکھے ہیں۔ لیکن محمد صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے اصحاب جس قدر محمدصلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی تعظیم کرتے ہیں اس قدر کسی بادشاہ کے رفقاء نہیں کرتے۔ اگر وہ تھوکتے ہیں تو ان لوگوں کے ہاتھوں میں ان کا تھوک گرتا ہے اور وہ اپنے جسم و چہرہ پر اس کو ملتے ہیں، اگر وہ کوئی حکم دیتے ہیں تو جان نثار کرتے ہیں اوروہ لوگ بچے کھچے پانی کیلئے باہم لڑ پڑتے ہیں اگر ان کے سامنے بولتے ہیں تو انکی آوازیں پست ہوجاتی ہیں، اور وہ ان کی طرف آنکھ بھرکر نہیں دیکھتے۔
(صحیح البخاری،کتاب الشروط، باب الشروط فی الجھاد والمصالحۃ مع اہل الحرب وکتابۃ الشروط،الحدیث:۲۷۳۱،ج۲،ص۲۲۳)

جاں نثاری
صلح حدیبیہ میں جب عروہ نے رسول اﷲ عزوجل و صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم سے کہا کہ میں آپصلی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم کے سامنے ایسے چہرے اور مخلوط آدمی دیکھتا ہوں جو آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلمکو چھوڑ کر بھاگ جائیں گے، تو حضرت ابوبکر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے دل پر اس طنزآمیز فقرہ نے نشتر کا کام دیااور انہوں نے برہم ہوکے کہا ہم اور آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلمکو چھوڑ کر بھاگ جائیں گے ؟
(صحیح البخاری،کتاب الشروط، باب الشروط فی الجھاد والمصالحۃ مع اھل الحرب.....الخ، الحدیث:۲۷۳۱،ج۲،ص۲۲۳)

یہ ایک قول تھا جس کی تائید ہر موقع پر صحابہ کرام رضی اﷲ تعالیٰ عنہم نے اپنے عمل سے کی،

ابتداء اسلام میں ایک بار آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نماز پڑھنے میں مشغول تھے، عقبہ بن ابی معیط آیا اور آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم کا گلا گھونٹنا چاہا، حضرت ابوبکر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے اسکو دھکیل دیا اور کہا کہ ایک آدمی کو صرف اس لیے قتل کرتے ہوکہ وہ کہتا ہے کہ میرا معبود اﷲ ہے ،حالانکہ وہ تمہارے خدا کی جانب سے دلائل لے کر آیا ہے۔
(صحیح البخاری،کتاب فضائل اصحاب النبی، باب قول النبی لوکنت متخذاخلیلا، الحدیث:۳۶۷۸،ج۲،ص۵۲۴)

ہجرت کے بعد خطرات اور بھی زیادہ ہوگئے تھے، کفار مکہ کے علاوہ اب منافقین اور یہود نئے دشمن ہوگئے تھے ، جن کا رات دن ڈر لگا رہتا تھا،مگر صحابہ کرام رضی اﷲ تعالیٰ عنہم آپصلی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم کی حفاظت کے لئے اپنے آپ کو ان تمام خطرات میں ڈال دیتے تھے، چنانچہ ابتداء ہجرت میں آپصلی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم ایک شب بیدار ہوئے تو فرمایا کاش آج کی رات کوئی صالح بندہ میری حفاظت کرتا۔ تھوڑی دیر کے بعد ہتھیار کی جھنجھناہٹ کی آواز آئی۔ آپصلی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم نے آواز سنکر فرمایا کون ہے؟ جواب ملا میں سعد بن ابی وقاص فرمایا کیوں آئے بولے میرے دل میں آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم کی نسبت خوف پیدا ہوا اس لئے حفاظت کے لئے حاضر ہوا ۔
(سنن الترمذی،کتاب المناقب، باب مناقب ابی اسحاق سعد بن ابی وقاص، الحدیث:۳۷۷۷،ج۵،ص۴۱۹)

ان خطرات کی وجہ سے اگر آپصلی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم تھوڑی دیر کے لئے بھی آنکھ سے اوجھل ہوجاتے تو جاں نثاروں کے دل دھڑکنے لگتے تھے۔
جاری ہے۔ ۔ ۔ ۔
وہ آج تک نوازتا ہی چلا جارہا ہے اپنے لطف و کرم سے مجھے
بس اک بار کہا تھا میں نے یا اﷲ مجھ پر رحم فرما مصطفی کے واسطے
 
Abu Hanzalah M.Arshad Madani
About the Author: Abu Hanzalah M.Arshad Madani Read More Articles by Abu Hanzalah M.Arshad Madani: 178 Articles with 371072 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.