انٹرویو۔ راشد اشرف
سوالنامہ منجاب محترمہ فرزانہ اعجاز، مسقط
یہ انٹرویو لکھنؤ کے اخباروں ’’آگ‘‘ اور ’’اودھ نامہ‘‘ میں بالترتیب 24 اور
25 ستمبر اور 5 اکتوبر 2013 کو شائع ہوا تھا۔
راشد اشرف۔کراچی سے
۱۔آپ کی پیدائش کہاں کی ہے، اور آپکے اطراف ادبی اور سماجی ماحول کیسا تھا
؟
پیدائش کراچی کی ہے۔ 70 کی دہائی میں ادبی ماحول کے بارے میں اس لیے وثوق
سے کچھ نہیں کہہ سکتا ہوں کہ اس وقت پنگوڑے میں تھا اور پنگوڑے کے اطراف کا
ماحول ہمیشہ انتہائی غیر ادبی ہوتا ہے۔
۲۔۔۔۔آپ نے ابتدائی اور اعلی۱ تعلیم کہاں حاصل کی؟اور تعلیمی زندگی میں کن
اساتذہ سے علمی استفادہ کیا؟
اوائل عمری ہی میں والدین کا بسلسلہ روزگار تبادلہ حیدرآباد سندھ میں ہوگیا
تھا جہاں والد ایک بینک سے وابستہ تھے جبکہ والدہ تدریس کے شعبے سے منسلک
تھیں اور چند برس قبل پروفیسر آف فزکس کے عہدے سے سبکدوش ہوئی ہیں ۔ابتدائی
تعلیم انٹر تک حیدرآباد ہی سے حاصل کی۔ اس کے بعد "اعلی تعلیم" کے حصول کے
لیے حیدرآباد سے کراچی کا رخ کیا جہاں سے این ای ڈی یونیورسٹی سے کیمیکل
انجینئرنگ کی ڈگری حاصل کی۔ اردو میں لکھنے کا آغاز سولہ برس کی عمر میں
کیا۔ یہ بھی گویا ایک المیہ ہی ہے اس لیے کہ بچے عموما ڈھائی تین برس کی
عمر میں ہی لکھنا شروع کردیتے ہیں۔
تعلیمی زندگی میں اپنے اساتذہ کا احترام راقم کے دل میں شروع ہی سے تھا (اساتذہ
منجانب راقم اپنے دلوں میں کتنی قدر و احترام رکھتے تھے، اس بارے میں کچھ
کہنا مشکل ہے) خاص کر پبلک اسکول حیدرآباد میں اردو کے استاد سے راقم کو
دلی عقیدت تھی۔ ان کا نام نعیم الرحمن جوہر تھا ، نعیم صاحب پہلے ہندو مذہب
سے تعلق رکھتے تھے۔ انٹر کی کلاس کے آخری دن نعیم صاحب نے اپنے تمام طالب
علموں کے سامنے اپنی داستان حیات بیان کی۔ تمام طالب علم ان سے محبت کرتے
تھے اور ان کی باتیں سننے میں محو تھے۔ قبول اسلام سے قبل نعیم الرحمن جوہر،
نربھرے رام جوہر تھے، ان کے والد نے انہیں گیتا کے ساتھ ساتھ بائبل اور
قران کریم کی تعلیم بھی دی جس کی بنیاد پر آگے چل کر وہ اختیاری طور پر
نربھرے رام سے نعیم الرحمن ہوئے۔
۳۔۔۔۔راشد صاحب۔ بتایئے کہ اس وقت اردو زبان اور اردو ادب کی ترقی کی کیا
صورت حال ہے؟اور کون سی صنف زیادہ ترقی کر رہی ہے؟
اس وقت اردو زبان اور اردو ادب کی ترقی کی صورت حال بیک وقت مایوس کن اور
خوش کن ہے۔ تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ انٹرنیٹ کی آمد اور لوگوں کی کثیر
تعداد کے اس سے استفادے کے بعد اردو لکھنے کا رجحان کم سے کم ہوتا جارہا ہے۔
’’کٹ اینڈ پیسٹ‘‘ کا دور دورہ ہے۔ اکثر کہتا ہوں کہ اگر پاکستان میں اگر’’
گوگل سرچ انجن ‘‘ کی سہولت بند کردی جائے تو یقین کیجیے کہ اردو کے آدھے
اخبار راتوں رات دم توڑ جائیں گے، آدھی صحافت کا صفایا ہوجائے۔ غالباً ہند
میں بھی معاملہ مختلف نہ ہوگا۔ دوسری جانب امید افزاء پہلو یہ ہے کہ اس
صورت حال میں بھی نئے لکھنے والے تواتر کے ساتھ سامنے آرہے ہیں۔
میں سمجھتا ہوں کہ اردو زبان میں حالیہ چند برسوں میں خودنوشت لکھنے کے
رجحان میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے اور اس صنف ادب کو کئی لکھنے والوں نے
درخوراعتنا جانا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ان میں سے کئی لکھنے والوں نے اس
انداز سے خودنوشت لکھی ہے کہ اپنے قاری کو ’’درگور‘‘ کردیا ہے(یہاں جی چاہ
رہا کہ درخور اور درگور کے استعمال کی جانب اسی انداز سے قارئین کی توجہ
مبذول کراؤں جیسے محترم بشیر مشاعروں میں بدر ہوا میں ہاتھ لہرا لہرا کر
سامعین کی توجہ اپنے اشعار کی جانب کرانے میں یدطولی رکھتے ہیں )۔۔۔۔۔۔
خاکہ نگاری، سفرنامہ اور تنقید میں بھی کثیر تعداد میں کتابوں کی اشاعت کا
سلسلہ جاری ہے۔
رہا سوال شاعری کا تو اس سلسلے میں خامہ بگوش کا وہ بیان راقم کی نظر میں
ہمیشہ تازہ رہے گا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ "عہد میر میں دلی میں پانچ
ہزار شاعر تھے، آج لاہور کے تھانہ انار کلی کی حدود میں اس سے زیادہ شاعر
مل جائیں گے۔‘‘
اردو زبان و ادب میں شاعری ایک ’سنگین ‘ مسئلے کا رخ اختیار کرتی جارہی ہے۔
حالیہ چند دہائیوں میں ایسے شعراء کی تعداد میں خطرناک حد تک اضافہ دیکھنے
میں آیا ہے جو محض اپنا کلام شائع کرانے میں دلچسپی رکھتے ہیں اور اس عمل
کے دوران شاعری کے معیار کو یکسر نظر انداز کردیا جاتا ہے۔ڈاکٹر گیان چند
جین نے شعری مجموعوں کی کثیر تعداد میں اشاعت کے بارے میں کہا تھا:
’’ میں کسی طرح معاصر ادب کا نقاد نہیں لیکن میرے پاس شعری مجموعے جس کثیر
تعداد میں آتے ہیں، میں ان سے سراسیمہ ہوگیا ہوں۔ اکتوبر نومبر 1986 میں چھ
ہفتوں کے لیے میں حیدرآباد (دکن) سے باہر گیا۔ اس عرصے میں سات شعری مجموعے
وصول ہوئے جن میں پانچ کے خالق ایسے تھے جن کا نام میں نے پہلی بار ان
مجموعوں کے طفیل سنا۔ اگر کسی ہفتے کوئی شعری مجموعہ نہ آئے تو میں اسے
مبارک جانتا ہوں۔ ایک شامت اعمال ہفتے میں تین مجموعے وصول ہوئے۔ اگر مجھ
بے بصیرت کا یہ حال ہے تو جو حضرات اردو کے نامور مبصر اور دیدہ ور نقاد
ہیں ، ان کے ہاں تو شعری مجموعوں کی ایسی باڑھ آتی ہوگی کہ گھر میں ان کے
بیٹھنے اٹھنے کو ایک جگہ بھی نہ بچتی ہوگی۔‘‘
۴۔۔۔۔کیا کسی زبان کی ترقی محض اس بات پر منحصر ہے کہ اسکو سرکاری تحفظ
حاصل ہو؟اگر ایسا نہیں ہے تو زبان اور ادب کے تحفظ اور ترقی کے کیا کیا
اسباب ہو سکتے ہیں؟
کسی زبان کی ترقی ہرگز ہرگز محض اس بات پر منحصر نہیں ہے کہ اس کو سرکاری
تحفظ حاصل ہو۔ اردو زبان میں زندہ رہنے اور آگے بڑھنے کی بھرپور قوت ہے۔ یہ
تمام تر نامساعد و نامواقف حالات کے باوجود بھی اپنا راستہ بنا رہی ہے۔ ان
حالات میں سرکار عوام کو تحفظ دے لے ، وہی بہت بڑی بات ہوگی، ایسی صورت میں
عوام خود خوشی خوشی زبان کو تحفظ دے لیں گے۔
۵۔۔۔۔آپکی دلچسپی اردو کی کتابیں جمع کرنے میں ہے اور ان میں سے اکثر کتب
کو ۔کمپیوٹر پر منتقل کرنے کا محنت طلب کام کرنے کا خیال کیوں کرآیا؟
انٹرنیٹ پر راقم تادم تحریر پونے تین سو نادر و نایاب کتابیں پیش کرچکا ہے
اور ان تمام کتابوں کے دائرہ مطالعہ یا ’’ریڈرشپ کا‘‘ ریکارڈ حیران کن ہے۔
اب تک پوری دنیا میں ایک لاکھ سے زائد افراد ان کتابوں کو پڑھ چکے ہیں جبکہ
ڈاؤن لوڈ کرنے والوں کی تعداد علاحدہ ہے۔ اس کام کو سرانجام دینے کے پس
پردہ صرف ایک ہی سوچ تھی اور وہ یہ کہ کسی بھی عمدہ و دلچسپ کتاب کو کسی
فرد واحد کی ذاتی جاگیر نہیں ہونا چاہیے بلکہ اسے ہرخاص و عام کی دسترس میں
ہونا چاہیے۔
ایک امریکی اور ایک برطانوی آپس میں گفتگو کررہے تھے۔ برطانوی نے اپنی
دوبین سے ساحل کی جانب دیکھتے ہوئے کہا "وہ دیکھو! سو فٹ د ور کس قدر حسین
لڑکی کھڑی ہے"
امریکی نے جواب دیا ’’ وہ تو ٹھیک ہے مگر سو فٹ دور کھڑی حسینہ کس کام کی ؟
‘‘
سو کوئی اہم اور تاریخی کتاب اگر کسی صاحب کے کتب خانے میں برسوں سے پڑی ہے
اور (معاف کیجیے گا ) وہ اگر اس پر پھن کاڑھے بیٹھے ہیں تو اس کا دوسروں کو
کیا فائدہ۔
اس کام کو کیے جانے کے پس پردہ اردو زبان کی ترویج کے ساتھ ساتھ یہ سوچ بھی
کارفرما تھی کہ اردو کی وہ کتابیں پیش کی جائیں جو ماضی کی گرد میں کہیں
چھپ کر نظروں اور ذہنوں سے اوجھل ہوگئی تھیں اور جو فی زمانہ کسی تحقیق کے
کام میں ممد و معاون ثابت ہوسکتی ہیں مزید یہ کہ دنیا کے ایسے حصوں میں
قیام پذیر لوگ ان سے استفادہ کرسکیں جہاں اردو کی کتابیں پہنچا تو کجا، وہ
اردو بولنے کو بھی ترس جاتے ہیں۔
بیرون ممالک میں مقیم ایسے ہزارہا لوگ ہیں جنہوں نے مذکورہ کتابوں میں شامل
فیروز سنز سے سن ستر کی دہائی میں شائع ہوئے بچوں کے ڈیڑھ سو سے زائد
ناولوں کو اپنے بچوں کو اردو سکھانے کی غرض سے ڈاؤن لوڈ کیا ہے۔ راقم کے
ذاتی ای میل میں اس سلسلے میں سینکڑوں ای میلز آچکی ہیں، لوگوں نے انہیں
خود پڑھا ہے ، اپنے بچوں کو پڑھوایا ہے اور یہ سلسلہ جاری ہے۔ انٹرنیٹ پر
درج ذیل لنک کی مدد سے مذکورہ تمام کتب تک بہ آسانی رسائی حاصل کی جاسکتی
ہے:
https://www.scribd.com/zest70pk/documents
اس بات کا ذکر اہم ہے کہ ان میں زیادہ تر وہ کتابیں ہیں جن کو شائع ہوئے
چالیس سے پچاس برس کا عرصہ گزر چکا ہے۔ راقم کا ای میل پتہ یہ ہے، اگر کسی
صاحب کو اس سلسلے میں کسی دقت کا سامنا ہو تو براہ راست رابطہ کرسکتے ہیں:
[email protected]
۶۔۔۔۔اس مشکل کام کرنے میں کیا کوئی دوسرا بھی آپکا مددگار ہے یا آپ اکیلے
ہی چلے ہیں جانب۔اردو ادب۔؟
واضح رہے کہ ان کتب کو اسکین کرکے انٹرنیٹ پر پیش کرنے کے سلسلے میں میں
راقم اکیلا ہی کام کرتا رہا ہے اور ایک اندازے کے مطابق تادم تحریر ایک
لاکھ سے زائد اوراق اس سلسلے میں اسکین کرکے پیش کیے جاچکے ہیں۔ یہ دوانے
کا سودا ہے، اور اس کام سے کسی مالی فائدے کی امید سے راقم کوسوں دور ہے۔
کتابیں ہر ’’عام و خاص‘‘ کے لیے ہیں اور دن بدن ان کی تعداد میں اضافہ ہوتا
چلا جارہا ہے۔ جب تلک ساغر چلے گا، چلائیں گے۔ جیسا کہ عرض کرچکا ہوں ،
کتابوں یا مطلوبہ مواد کی لوگوں کو فراہمی کے پس منظر میں مدد کا جذبہ
کارفرما ہے اور اس سلسلے میں راقم، مشفق خواجہ مرحوم، سید معراج جامی اور
عقیل عباس جعفری جیسے لوگوں کے نقش قدم پر چلنے کی حقیر سی کوشش کرتا ہے۔
یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے ہمیشہ بنا کسی غرض ، لوگوں کی مدد کی اور کررہے
ہیں۔
۷۔۔۔۔دنیا کے ہر کونے سے آپ کو کتابیں موصول ہوتی ہیں ،آپ کا کیا تاثر ہے
کہ دنیا کے الگ الگ حصوں میں رہنے والے،اردو والے،اور انکی نگارشات ایک
جیسی ہیں یا ان میں نمایاں فرق نظر آتا ہے۔ اور یہ کہ خصوصاً برصغیر ہند
وپاک میں اردو زبان کاکیا مستقبل نظر آتا ہے۔اور دونوں ملکوں میں لکھے جانے
والے ادب اور طباعت میں کیا کیا نمایاں فرق نظر آتا ہے؟
یہ بات درست ہے کہ راقم الحروف کو دنیا کے ہر کونے سے کتابیں موصول ہوتی
ہیں۔ خاص کر ہندوستان سے جہاں سے ہر طرح کی چیز، ہر طرح کا سامان پاکستان
آتا ہے سوائے کتابوں اور جرائد کے۔
دنیا کے مختلف حصوں سے تعلق رکھنے والوں کی نگارشات ہرگز ہرگز ایک جیسی
نہیں ہوتیں۔ ان میں تنوع ہوتا ہے، ہر علاقے اور خطے کا رنگ نمایاں ہوتا ہے،
ہر تحریر کا الگ الگ مزہ ہوتا ہے۔ خاص کر خودنوشتوں کے معاملے میں تو بیک
وقت کئی ‘ذائقے‘ محسوس کیے جاسکتے ہیں۔ ہاں البتہ پاک و ہند سے شائع ہونے
والی خودنوشتوں میں ایک قدر مشترک ضرور ہے۔ برصغیر کے نامساعد حالات میں
لوگوں کا آگے بڑھنا، زیست کرنا، اس میں درپیش مصائب کا بیان اور ہمت اور
عزم سے ان سے نبرد آزما ہونے کا احوال۔ یہ قاری کو ہمت اور حوصلہ دیتا ہے۔
حالیہ دنوں میں راقم نے دہلی سے شائع ہوئی ایک ایسی ہی خودنوشت "پگڈنڈیاں"
کا مطالعہ کیا اور مصنفہ "بچنت کور" کے دکھ کو اپنے دل میں محسوس کیا۔ اسی
طرح خاکہ نگاری کی صنف میں بے شمار لوگوں نے اہم سنگ میل قائم کیے ہیں ،
درجنوں معیاری مجموعے منصہ شہود پر آچکے ہیں۔ منٹو، شورش کاشمیری، چراغ حسن
حسرت، نصر اﷲ خاں، ماہر القادری، اسلم فرخی، غرضیکہ کس کس کا نام لوں اور
کس کا نہیں۔ لیکن حال ہی میں ہندوستانی فلمی صنعت سے وابستہ میرے محترم
کرما فرما جاوید صدیقی کے شخصی خاکوں کا مجموعہ ’’روشندان‘ کے عنوان سے
شائع ہوا ہے جس کے مطالعے کے بعد راقم کا یہ ماننا ہے کہ خاکہ نگاری کی
تیزی سے ماند پڑتی صنف ادب میں گویا اس کتاب نے ایک نئی روح پھونک دی ہے
اور اس کی رگوں نیا خون دوڑا دیا ہے۔ ہر حساس دل رکھنے والے کو اسے ضرور
پڑھنا چاہیے۔
’’پگڈنڈیاں ‘‘ ہو یا ’’روشندان‘‘، دونوں میں حالات حالات کے شکنجے میں جکڑے
ہوئے مجبور انسانوں کی داستانیں موجود ہیں۔ یہ اس خطے کی قسمت ہے جسے
برصغیر پاک و ہند کہا جاتا ہے ۔ یہاں کی اکثریت کو نان و جویں کے لیے
سنگلاخ پتھروں کا کلیجہ چیرنا پڑتا ہے۔ اپنا آپ داؤ پر لگانا پڑتا ہے تب
کہیں جا کر گوہر مقصود ہاتھ آتا ہے اور وہ بھی سب کے نصیب کا حصہ نہیں
بنتا۔
راقم کی نظر میں برصغیر ہند وپاک میں اردو زبان کا مستقبل تمام تر ناموافق
حالات کے باووجود پائدار ہے۔ خاص کر ہندوستان میں جب تک "اردو" زبان میں
فلم بنتی رہے گی، اردو آگے بڑھتی رہے گی۔ یقین کیجیے کہ جب تک چھوٹے چھوٹے
اداکار بچے ہندوستان میں بنی "چلر پارٹی‘" جیسی فلموں میں بے عیب، ش قاف کا
خیال رکھتے ہوئے اردو(ان مقامات کو چھوڑ کر جہاں بمبئیا اردو بولی گئی ہے)
بولتے رہیں گے، اردو آگے بڑھتی رہے گی۔جب تک رچی مہتا جسے لوگ ’’عمل‘‘ جیسی
فلموں کو پیش کرتے رہیں گے اور نصیر الدین شاہ جیسے عظیم اداکار مذکورہ فلم
میں بے عیب اور بامحاورہ اردو بولتے رہیں گے، اردو کو آگے بڑھنے سے کوئی
نہیں روک سکتا۔گلزار صاحب جب تک بامحاورہ مکالمے لکھتے رہیں گے، وہاں اردو
پیش قدمی کرتی رہے گی۔ یہاں میں ہندوستانی آرٹ فلموں کا ذکر قصداً نہیں
کرنا چاہتا کہ وہ میری انتہائی دلچسپی کی چیز ہیں جن پر تفصیلی گفتگو کا یہ
متحمل یہ انٹرویو نہیں ہوسکتا۔ لیکن بہرحال اتنا ضرور کہنا چاہوں گا کہ ان
فلموں میں سے بہتیری ایسی ہیں جن میں اردو زبان کی صحت کا خیال رکھا گیا ہے
اور دیکھنے والوں کو اردو سیکھنے کی ترغیب ملی ہے۔ پاکستان کہنے کو اردو کا
گڑھ سمجھا جاتا ہے لیکن یہاں یہ حال ہے کہ انگریزی دان طبقہ اردو کو حقارت
کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ پاکستان میں انگریزی بولیے ، رکے ہوئے کام ہوجائیں
گے، سامنے والا مرعوب ہوجائے گا۔ یہاں ایسے مناظر دیکھتے ہوئے ایک عمر گزر
گئی ہے۔
ہند میں انگریزی بولنا باعث فخر نہیں سمجھا جاتا جبکہ یہاں اس کے برعکس ہے۔
ادھر یہاں کے ٹی وی چینلز نے وہ ادھم مچایا ہے کہ الامان الحفیظ۔ سب سے
زیادہ بگاڑ یہی لوگ پیدا کررہے ہیں۔ خبریں پڑھنے مرد و خواتین سارا دن غلط
اردو بولتے ہیں۔ ان میں سے کئی ایسے ہیں جنہوں نے کبھی اردو کی کوئی کتاب
کھول کر بھی نہ دیکھی ہوگی۔ محترم آصف جیلانی کی بات دوہرا رہا ہوں کہ لفظ
’’حوالہ‘‘ پاکستان میڈیا کے اعصاب پر سوا رہوگیا ہے۔ ایک ایک جملے میں چار
چار مرتبہ اس لفظ کو دوہرایا جاتا ہے۔ سب سے بڑا چینل ہونے کے دعوے دارٹی
وی چینل پر ایک میک اپ میں لتھڑی ہوئی خبریں پڑھنے والی خاتون کا قصہ تو
محمود شام صاحب نے راقم سے بیان کیا تھا۔پاکستان میں2009 میں آنے والے
سیلاب کے دنوں میں کیے گئے ایک براہ راست پروگرام کے دوران وہ ناظرین سے
مدد کی درخواست کرتے ہوئے فرمارہی تھیں کہ ’’آگے بڑھیے! ہم آپ کی دست
درازیوں کے منتظر ہیں‘‘ ۔ اب کوئی اس سے پوچھتا کہ بی بی ! تمہاری درخواست
کے جواب میں یہاں تو پروانوں کی قطار لگ جائے گی۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ جوعورت مذکورہ بالا فقرے کے مفہوم اور اس کے ’نتائج‘
سے نابلد تھی، اسے وائس آف امریکہ نے اپنے پروگرام میں بطور میزبان لے لیا
تھا۔
دونوں ملکوں میں شائع ہونے والی کتابوں کی طباعت میں واضح فرق ہے۔ یہ فرق
صاف نظر آتا ہے۔ راقم کو ایک ہندوستانی ناشر نے حال ہی میں بتایا تھا کہ
ہند میں سرکار اردو زبان میں شائع ہونے والی کتابوں کو مالی معاونت فراہم
کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہاں سے آنے والے رسائل کی قیمت ناقابل یقین حد تک
کم ہوتی ہے، اتنی قیمت میں پاکستان میں رسالے کا سرورق ہی بنتا ہوگا۔ یہی
حال کتابوں کا ہے۔ ہند سے شائع ہونے والی کتابوں کا کاغذ نہایت عمدہ اور
معیاری ہوتا ہے جبکہ یہاں بڑے بڑے نامی گرامی ناشرین کا یہ حال ہے کہ وہ
"میٹ" کاغذ (ایک سالخوردہ نظر آنے والا مٹیالا و ملگجا سا شرمناک کاغذ جسے
دیکھ دل بیٹھ جاتا ہے) کا استعمال کرنے لگے ہیں۔ حال ہی میں نامور ادیب و
براڈکاسٹر رضا علی عابدی کی کتاب ’’ کتابیں اپنے آباء
کی ‘‘ شائع ہوئی ہے اس قدر عمدہ اور دلچسپ و تاریخی کتاب کی طباعت کا ذرہ
بھر بھی خیال نہیں رکھا گیا ہے۔ اس نوعیت کی کئی مثالیں ہیں۔ کتابیں اپنے
آباء کی،’’آباء ‘‘ ہی کے زمانے میں شائع ہوئی کوئی کتاب جان پڑتی ہے۔
۸۔۔۔۔آ پ کو خود ادب کی کون سی صنف زیادہ پسند ہے اور آپ کس صنف میں اظہار
خیال کرنا پسند کرتے ہیں ؟
خودنوشت، خاکہ اور سفرنامہ۔ راقم الحروف کے خیال سے یہ تینوں اصناف ادب محض
اس کی نہیں بلکہ اکثریت کی پسندیدہ ہوتی ہیں۔ پاکستانی ادیبوں کے تحریر
کردہ ہندوستان کے سفرناموں سے شیفتگی کا یہ عالم ہے کہ 2011 میں فرزند ابن
صفی جناب احمد صفی دلی گئے تو راقم نے انہیں لذت کام و دہن کی آزمائش کے
لیے کریم ہوٹل کا نام تجویز کیا اور نتیجہ حسب حال نکلا۔ کریم ہوٹل کے
کھانے کھا کر ان کا وزن اور واپسی پر اس کے بیان سے ہماری اشتہا، دونوں میں
قابل ذکر اضافہ ہوا تھا۔ اسی طرح اور کئی مثالیں بھی ہیں۔
خودنوشت آپ بیتی راقم کی دلچسپی کا ایک خاص موضوع ہے اور اس صنف ادب میں
کچھ کام بھی کیا ہے۔ پاک و ہند سے شائع ہونے والی خودنوشت آپ بیتیوں کی
فہرست پر راقم گزشتہ چار برس سے کام کررہا ہے، یہ تقریبا مکمل ہوچکی ہے اور
امکان ہے کہ کسی موقر(یا غیر موقر) ادبی جریدے میں شائع ہوگی۔ اسی طرح ابن
صفی پر دو کتابیں لکھنے کے بعد اب اردو خودنوشتوں پر ایک جامع کتاب لکھنے
کا ارادہ ہے لیکن کیا کیجیے کہ راقم کسی ’’قدر ناشناس‘ ‘کی تگڑی سی
’’زرپرستی ‘‘ کا طلبگار ہے اور ذاتی طور پر سوچتا ہے کہ اگر اس کے بجائے
ملکہ شراوت پر کتاب لکھنے کا ارادہ کیا ہوتا تو ناشرین کی قطار لگ چکی
ہوتی۔ یہ الگ بات ہے کہ قطار میں موجود ناشرین کی اکثریت میں ‘نا‘ اور
‘شر‘، دونوں عناصرکا غلبہ ہوتا۔ لیکن صاحب، کیا کیجیے کہ اگلے وقتوں میں
زور شرافت پر ہوتا تھا، اب ’’شراوت‘‘ پر ہے۔
خیر یار زندہ صحبت باقی بلکہ ناشر زندہ شراوت باقی ۔۔۔۔۔!
رہا سوال اظہار خیال کرنے والی بات کا تو کتابوں بالخصوص خودنوشتوں پر
تبصرے ہی عرصہ چار برسوں سے دلچسپی کا موضوع رہے ہیں جو پاک و ہند کے مختلف
ادبی جرائد میں شائع ہورہے ہیں۔ راقم اس کوشش کو اپنے باعث فخر نہیں
سمجھتا، یوں سمجھ لیجیے کہ دل کی بھڑاس نکالنے کا ایک ذریعہ ہے۔
۹۔۔۔۔کمپیوٹر کی ایجاد نے۔اردو والوں کو۔بہت قریب، کردیا ہے ، یہ اچھی
علامت ہے یا تصادم کی ؟
اس بات میں دوسری کوئی رائے نہیں ہوسکتی کہ کمپیوٹر کی ایجاد نے اردو والوں
کو قریب کردیا ہے۔ دنیا بھر میں ایسے سماجی رابطوں کی ویب سائٹس اور متفرق
فورمز کی تعداد روز بروز بڑھتی جارہی ہے جہاں نئی کتابوں کی اشاعت کی
اطلاعات، شاعری، نثری مضامین سبھی کچھ ایک پلک جھپکتے میں ای میل باکس میں
پہنچ جاتا ہے، لوگ اسے باقاعدگی سے دیکھتے ہیں اور تبادلہ خیال کرتے ہیں۔
اس سے کتابوں کی فروخت میں نمایاں طور پر اضافہ ہوا ہے۔ ایسے شواہد موجود
ہیں کہ راقم الحروف کی، بارے نئی کتابوں کی اشاعت، پیش کی جانے والی خبروں
کے ردعمل میں لوگ اردو بازار کراچی کی سب سے بڑی دو دکانوں میں متعلقہ کتاب
کے حصول کے لیے راقم کی "مدلل" رائے و تعارف کے احترام میں راقم کا نام
لیتے پہنچے۔ البتہ اس بات کا کوئی ریکارڈ نہ مل سکا کہ زر کثیر صرف کرکے
کتاب خریدنے اور اسے پڑھنے کے بعد وہی لوگ راقم الحروف کے بارے میں کیا
رائے رکھتے تھے۔ سچ پوچھیے تو طبیعت میں پائی جانے والی درویشی اور متاثرین
کے متوقع ردعمل کے سبب کبھی ہمیں اس کی تفصیلات جاننے کا شوق بھی نہ ہوا۔
بہرحال یہ صحت مندانہ رجحان ہے، حوصلہ افزاء بات ہے۔ سب سے اچھی بات یہ ہے
کہ اردو ٹائپنگ یعنی یونی کوڈ (یا ان پیج)کے استعمال میں تیزی سے اضافہ ہوا
ہے اور راقم کے ذاتی علم میں ایسے کئی بزرگ ہیں جو اسی برس سے زیادہ کی عمر
میں مہارت سے اس کا استعمال کررہے ہیں۔ مقصود الہی شیخ، پروفیسر اطہر
صدیقی، آصف جیلانی۔۔۔۔ کتنے ہی ان جیسے مزید نامور لوگ ہیں جو مذکورہ طرز
تحریر میں مہارت رکھتے ہیں۔
اس شعبے میں کئی خاموش مجاہد صلے کی تمنا کی پروا کیے بغیر چپ چاپ اپنا کام
کیے جارہے ہیں۔ پاکستان میں کئی نام ہیں جیسے فرخ منظور، محمد وارث اور اسی
طرح ہند میں اعجاز عبید ہیں جنہوں نے یونی کوڈ میں متفرق موضوعات پر ہزارہا
برقی کتابوں کی دستیابی کو ممکن بنایا ہے۔ پاکستان میں ایک صاحب شرجیل نامی
نے شکاریات پر ایک عمدہ ویب سائٹ بنائی ہے۔ اعجاز عبید صاحب کو پاکستان سے
بھی کئی لوگوں کا تعاون حاصل ہے۔ یہ بہت بڑا کام ہے۔ میرے پاس الفاظ نہیں
ہیں کہ ان تمام لوگوں کی ستائش کرسکوں۔ اردو محفل، اردو ویب، اردو سخن
وغیرہ کئی ایسی سائٹس ہیں جہاں اراکین اردو میں لکھتے ہیں اور تبادلہ خیال
کرتے ہیں۔
حال ہی میں ریختہ کے نام سے ہند میں ایک اردو ویب سائٹ کا آغاز کیا گیا ہے
جہاں پرانی کتابیں دستیاب ہیں۔ یہ نہایت کارآمد ویب سائٹ ہے جو تیزی سے
مقبول ہورہی ہے۔
راقم الحروف نے بھی اس سلسلے میں کچھ ٹوٹا پھوٹا کام حسب توفیق و استطاعت
کیا ہے اور تادم تحریر متفرق موضوعات پر 282 کتابیں اپ لوڈ کی ہیں۔ ان میں
پچانوے فیصد کتابیں ایسی ہیں جن کی اشاعت کو چالیس سے پچاس اور بعض کو ساٹھ
برس سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے۔ ان میں خودنوشتیں بھی ہیں، سفرنامے بھی
اور خاکوں کے مجموعے بھی ہیں۔ ان کتابوں کے مصنفین کی اکثریت اس دنیا سے
جاچکی ہے بصورت دیگر وہ کاپی رائٹ کی اس خلاف ورزی کی صورت میں راقم پر
یقینا" نالش کردیتے۔
پاک و ہند سے جب کبھی بھی کوئی رابطہ کرکے یہ اطلاع دیتا ہے کہ راقم کی اپ
لوڈ کی ہوئی فلاں کتاب اس کے ایم فل یا پی ایچ ڈی کے مقالے کی تکیل کے
سلسلے میں کارآمد ثابت ہوئی ہے تو یقین کیجیے کہ یہ خاکسار کے لیے ازحد
باعث طمانیت و انبساط ہوتا ہے۔
۱۰۔۔۔۔ آخیر میں ان ادیبوں اور شاعروں کے نام بتا ئیے ؟ جو آپکو زیادہ پسند
ہیں اورایسے کچھ اشعار سنائیے جو آپ کے دل کے قریب آگئے ۔
یہ سوال دلچسپ ہے۔ اوائل عمری ہی سے بچوں کے ناول لکھنے اور ترجمہ کرنے
والے ادیب میرے دل کے قریب رہے تھے۔ یہ مجھے ایک ایسی دنیا میں لے جاتے تھے
جو ایک طلسماتی دنیا تھی۔ یہ آگے بڑھنے کا حوصلہ دیتے تھے، ذہنوں کی تعمیر
میں اپنا کردار ادا کرتے تھے۔ یہ وہ خاموش مجاہد تھے جن کے اوپر تاحال کوئی
تحقیق نہ ہوئی، کوئی مقالہ نہ لکھا گیا، اور تو اور ان میں سے اکثر کا ذکر
بعد از مرگ وفیات کی کتابوں میں بھی نہ آیا۔ وہ قلم کی مزدوری کرتے، کسی
صلے کی تمنا کے حصول کے بنا، خاموشی سے اس دنیا سے رخصت ہوگئے لیکن مجھ
ایسے لاکھوں پڑھنے والوں کے ذہن و قلب میں وہ آج بھی پوری آب و تاب سے زندہ
ہیں۔ ان میں مقبول جہانگیر ہیں، سلیم احمد صدیقی، زبیدہ سلطانہ، جبار
توقیر، محمد یونس حسرت ہیں۔ راز یوسفی، سعید لخت، سعید احمد سعید، ابو ضیاء
اقبال ہیں۔
ان میں سید ذاکر اعجاز، شوکت ہاشمی، قمر نقوی، فرخندہ لودھی، عزیز اثری،
ذوالفقار احمد تابش، سیف الدین حسام جیسے قلمکار شامل ہیں۔ یہ میرے ہیرو
ہیں اور میں ان کو سلام پیش کرتا ہوں۔
اور پھر اے حمید مرحوم کو تو کسی طور نظر انداز کیا ہی نہیں جاسکتا ہے۔ کچھ
وقت گزرا اور چھٹی جماعت میں پہنچا تو وقت سے قبل ہی ابن صفی مرحوم کو
جاپکڑا اور ان کی تحریر کے سحر میں ایسا مبتلا ہوا کہ آگے چل کر ان پر
باقاعدہ تحقیق کرڈالی, اور ان پر دو عدد کتابیں لکھیں اور مرتب کیں۔مختصر
الفاظ میں کہنا چاہوں گا کہ ابن صفی، اے حمید اور محمد خالد اختر سے میں نے
محبت کی ہے۔ ان میں اے حمید مرحوم سے لاہور میں ان کی قیام گاہ پر ملاقات
کرنے کا بھی موقع ملا تھا۔ آج بھی ان تینوں ادیبوں کی کوئی بھی کتاب ہاتھ
میں تھام کر دنیا و مافہیا، بلکہ کراچی کے حالات کے تناظر میں "مافیا" کہیں
تو بہتر ہوگا، سے بے خبر ہوجاتا ہوں۔
ان مصنفین کی برسہا برس پرانی تحریر کردہ کتابوں کو دیکھ کر آج بھی میری
وہی کیفیت ہوتی ہے جسے محمد خالد اختر نے ایک مرتبہ اپنی پسندیدہ کتابوں کو
ایک زمانے بعد اپنے عزیز از جان دوست ،مشہورمزاح نگار شفیق الرحمن کے گھر
میں ایک ڈبے میں رکھا دیکھ کر ان الفاظ میں بیان کیا تھا:
’’ چھ سبز چھوٹی سی کتابیں۔کیسے خوبصورت، مسرت بخش essays وہ لکھتا تھا اور
ملنے میں وہ کتنا شفیق، ہنس مکھ ، خوش گفتار رفیق ہوگا۔ اب میں نے اس کی
کتابیں سالوں کے بعد دیکھیں۔ایک پھانس سی میرے حلق تک آئی اور میں نے انہیں
بھیگی ہوئی آنکھوں سے، احترام سے اس گوشے سے اٹھایا۔اپنے ہاتھ سے بار بار
تھپکا۔ایلفا، پیارے ایلفا۔تم نے ہمیں ہماری جوانی میں کیا کچھ نہیں
دیا۔تمہارے جیسے essays ، زندگی کے حزن،اس کی شادمانی اور خوبصورتی سے
دمکتے ہوئے، اب کون لکھ سکے گا‘‘۔
رہا سوال اشعار کی پسندیدگی کا، تو چند پسند کے اشعار یہ ہیں لیکن خدارا اس
سے خاکسار کے ذہنی رجحان، رویوں وغیرہ کا اندازہ نہ لگایا جائے جیسے
ماہرینِ تحریر شناسی، تحریر دیکھ کر اور دست شناس ہاتھ کی لکیریں دیکھنے کے
بعد الل ٹپ اندازے لگاتے ہیں کہ فلاں شخص نے اب تک کی زندگی میں اتنے قتل
اور اتنے عشق کیے ہیں اور مزید اتنے کرنے کا ارادہ رکھتا ہے :
افسردگی سوختہ جاناں ہے قہر میر
دامن کو ٹک ہلا کہ دلوں کی بجھی ہے آگ
دل کو ہم سمجھا کے لائے کوئے جاناں سے حسن
دل ہمیں سمجھا بجھا کر، کوئے جاناں لے چلا
ہونا تو وہی ہے جو مقدر میں مرے ہے
لیکن وہ مرے خواب، مرے خواب، مرے خواب
کھلا اک عمر میں کار ہوس میں کچھ نہیں رکھا
پھر اس کے بعد میں نے دسترس میں کچھ نہیں رکھا
جمال یار میں رنگوں کا امتزاج تو دیکھ
سفید جھوٹ ہیں ظالم کے سرخ ہونٹوں پر |