آندھراپردیش کے ’’سیما و
آندھرا‘‘ علاقہ میں جاری پرتشدد احتجاج کا انجام کیا ہوگا؟ یہ کہنا فی
الحال مشکل ہے لیکن اس احتجاج سے تین باتیں کھل کر سامنے آئی ہیں۔ ان سطور
کی اشاعت تک اگر صورت حال میں کوئی تبدیلی ہو بھی جائے تو یہ باتیں قابل
توجہ رہیں گی۔
.1کانگریس کا اپنے ریاستی قائدین پر ہی نہیں بلکہ اپنے وزیر اعلیٰ پر بھی
کوئی کنٹرول نہیں ہے۔
.2اپنے ملک میں سرمایہ داروں اور استحصال پسند طبقوں کا ملک کی سیاست پر دن
بہ دن اثر و رسوخ بڑھتا جارہا ہے۔ نریندر مودی کا بی جے پی کی جانب سے وزیر
اعظم کے عہدے کے لئے امیدوار بنایا جانا بھی ملک کے بڑے بڑے سرمایہ داروں
کی مرضی بلکہ خواہش کا نتیجہ ہے۔ اسی طرح سیما آندھرا علاقوں کے سرمایہ دار
بھی آندھراپردیش سے تلنگانہ کی علاحدگی کے خلاف دل کھول کر اپنے سارے وسائل
استعمال کررہے ہیں کیونکہ یہ سرمایہ دار تلنگانہ کے قدرتی وسائل اور شہر
حیدرآباد کی سہولتوں اور اہمیت سے (علاحدہ ریاست تلنگانہ کے قیام کے بعد)
محروم ہونا نہیں چاہتے ہیں۔ کچھ عجب نہیں کہ سیما آندھرا کے سرمایہ دار پنے
مقاصد میں کامیاب ہوجائیں۔
.3 ہمارے ذرائع ابلاغ کی جانبداری ہی نہیں بلکہ ان کی زیادہ تر اشاعتوں اور
نشریات کا قابل فروخت یا زرخرید ہونا اب شبہات سے بالاتر ہے اس کا تازہ
ثبوت سیماو آندھرا علاقوں میں جاری احتجاج کو پیش کرنے اور علاحدہ تلنگانہ
کے موقف کو نظر انداز کرنا ہے۔ تقریباً دو تین سال قبل علاقہ تلنگانہ میں
علاحدہ تلنگانہ کے قیام کے مطالبہ کے سلسلے میں جو زبردست احتجاج ہوا تھا
اس کو نہ اس طرح پیش کیا گیا تھا اور نہ ہی اسے اتنی اہمیت دی گئی تھی۔
میڈیا کا رویہ مسلم دشمنی اور دہشت گردی کے معاملات میں جیسا بھی رہا ہے اس
کے تناظر میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ سنگھ پریوار اور سرمایہ داروں کے زیر اثر
ہمارے ذرائع ابلاغ (میڈیا) اعلیٰ اخلاقی، اصولوں روایات اور ذمہ داریوں خاص
طور پر غیر جانبداری، دیانت داری، حق گوئی اور انصاف پسندی کو خیرآباد کہہ
چکے ہیں اور خود کو قابل فروخت بنالیا ہے۔
مندرجہ بالا امور ایسے نہیں ہیں جن کو آسانی سے نظر انداز کیا جائے لیکن
مشکل یہ ہے کہ ان کے تدارک کی مساعی ناممکن نہ سہی آسان بہر حال نہیں ہے
کیونکہ ملک میں بڑے بڑے بڑے سرمایہ داروں کی گرفت آج سے نہیں آزادی سے پہلے
سے ہی خاصی مضبوط رہی ہے بلکہ یہ اب تو دن بہ دن مضبوط سے مضبوط تر ہوتی
جارہی ہے۔ پنڈت نہرو اور اندرا گاندھی تک ملک میں سوشلزم پر عمل ہو نہ ہو
سرمایہ داروں کی حکومت پر گرفت نہ تھی۔ یہ تو راجیو گاندھی تھے جنہوں نے
ہندستان کے بازار غیر ملکیوں کے لئے کھول کر ’’کھلی مارکٹ ‘‘کے نام پر
سرمایہ داروں کی سرپرستی کی تو دوسری طرف بابری مسجد کے تالے کھول کر وہاں
پوجا پاٹ کی اجازت دے کر فرقہ پرستوں کی ہمت افزائی کی تھی۔ رہی سہی کسر
نرسمہا راؤ کے دور میں منموہن سنگھ نے وزیر مالیات کی حیثیت سے ملک سے
سوشلزم کا خاتمہ اور سرمایہ داروں کو کھلی چھوٹ دے کر پوری کردی اورراجیو
گاندھی نے اگر بابری مسجد کو مندر بنادیا تھا تو نرسمہا راؤ نے بابری مسجد
کو شہید کرنے کی شرمناک سازش میں مجرمانہ کردار ادا کرکے فرقہ پرستوں کو
کھلی چھوٹ دی۔ سب ہی جانتے ہیں کہ سرمایہ داری اور فرقہ پرستی کا چولی دامن
کا ساتھ ہے بلکہ ملک میں فرقہ پرستی کا فروغ سرمایہ داروں کی وجہ سے ہر دور
میں ہوتا رہا ہے۔ ہندو مہاسبھا اور آر ایس ایس جیسی تنظیمیں سرمایہ داری کی
سرپرستی میں ہی ابھری تھیں۔ سرمایہ داروں کا آندھراپردیش کے موجودہ منظر
نامہ میں بڑا نمایاں رول ہے اسی لئے ہم نے سرمایہ داروں کا ماضی میں عمل
دخل بتانا ضروری سمجھا۔
علاحدہ ریاست تلنگانہ تحریک کی یہ بدقسمتی رہی ہے کہ ریاستوں کی لسانی
بنیادوں پر تنظیم جدید کے وقت 1956ء سے پہلے سے تلنگانہ قائدین اپنے ذاتی
مفادات کی خاطر تلنگانہ کے مفادات کا سواد کرنے رہے۔ تلنگانہ قائدین کے
مفادات ان سرمایہ داروں سے وابستہ تھے جو آندھرا اور تلنگانہ کے باہمی
انضمام کے لئے سیاسی قائدین کو تلگو بولنے والوں کی متحدہ ریاست یا وشال
آندھرا کے نعرے دئیے۔ سنہرے خواب دکھائے۔ 1956ء کے شریفانہ معاہدے کا لالی
پاپ دیا اور آندھراپردیش کے قیام کے بعد سے ہی زندگی کے ہر شعبہ میں
استحصال، لوٹ مار، دھاندلیوں اورنا انصافی کا جی کھول کر بازار گرم کیا ۔
علاحدگی کا مطالبہ کرنے والے تلنگانہ والوں کی آواز کو دبادیا یا لیڈروں کو
ہی خرید لیا گیا۔ بک جانے والوں میں سب سے نمایاں نام ڈاکٹر چناریڈی کا ہے۔
آندھرائی حکمرانوں نے جہاں تک ممکن ہوا جبرو زیادتی سے کام لیا اور اس سے
کام نہ چلا تو تلنگانہ قیادت کو آندھرائی سرمایہ داروں نے خرید لیا اور
تحریک کو بے جان کردیا۔
آندھرا کے سرمایہ داروں نے اور حکمرانوں نے تلنگانہ قیادت کو خرید کر یا
دباکر عہدوں کا لالچ دے کر ناکام بنایا لیکن آندھرائی حکمرانوں کو خریدنے
کی ضرورت نہ تھی کیونکہ حکمران سرمایہ داروں میں سے ہیں یا ان کے پروردہ
ہیں۔ اسی وجہ سے آندھرائی قائدین مرکز کی نافرمانی، ڈسپلن شکنی اور احتجاج
منظم کررہے ہیں۔ یہ قائدین اپنی ہی پارٹی کانگریس ہائی کمان اس کے بعد اپنی
ہی مرکزی حکومت کے خلاف ریاستی وزیر اعلیٰ کرن کمار ریڈی کی زیرقیادت وزیر
پرستی انجام دے رہے ہیں۔ وزیر اعلیٰ کرن کمار ریڈی علی الاعلان تلنگانہ کی
علاحدگی کی زبردست مخالفت کررہے ہیں۔ کرن کمارریڈی مرکزی حکومت اور کانگریس
ہائی کمان کی مخالفت ہی نہیں کررہے ہیں بلکہ مخالفت کے نام پر احتجاج کرنے
والوں کی ہمت افزائی کررہے ہیں۔ تشدد پر آمادہ احتجاجیوں (علاوہ وزیانگرم
اور وہ بھی شدید تشدد کے بعد ) کے ساتھ غیر معمولی نرمی برتی جارہی ہے۔
جبکہ تلنگانہ کے احتجاجیوں پر گولیاں چلائی گئیں۔ لاٹھیاں برسائی گئیں اور
ان کے جلوسوں، جلسوں، ریالیوں کو ناکام بنانے کے لئے سختی کی گئی۔ ملازمین
سرکاری ہڑتال کو ناکام بنانے کے لئے دباؤ، دھمکیوں، سرکاری کارروائیوں سے
کام لیا گیا لیکن سیما آندھرا کے ہڑتالی ملازمین کی ہمت افزائی ہی نہیں
پذیرائی کی جارہی ہے۔ ہم بھی کبھی ملازم سرکار رہے ہیں، ہم جانتے ہے کہ عام
طور پر ملازمین سرکار کی گذر بسر کیسے ہوتی ہے؟ تنخواہ میں ایک دو دن کی
تاخیر سے کیا ہوتا ہے؟ اور آندھرا سیما کے ملازمین تنخواہ نہ ملنے کے
باوجود مزے سے ہیں بلکہ دہلی کا سفر کررہے ہیں وہاں قیام کرتے ہیں احتجاج
کررہے ہیں۔ تمام ملازمین کی نہ سہی لیکن احتجاج سے سرگرم عمل ملازمین کی
لازماً ہر طرح مدد کی جارہی ہے اور اب برقی بورڈ کے ملازمین کی ہڑتال سے
صورت حال ابتر ہورہی ہے۔ لیکن حکومت کو سرکاری ملازمین، برقی بورڈ ، روڈ
ٹرانسپورٹ کارپوریشن اور دیگر ہڑتالی ملازمین کی ہڑتال ختم کروانے کی کوشش
نہیں کررہی ہے۔ جبکہ ہڑتالی تلنگانہ ملازمین پر بڑا ظلم کیا گیا ہے۔
سوال یہ ہے کہ کیا وزیر اعلیٰ کرن کمار ریڈی کو اپنے عہدے پر برقرار رہنے
کا حق حاصل ہے؟ ریاست کے حالات اس بات کے متقاضی ہیں کہ ریاستی حکومت کو
فوراً برطرف کرکے صدر راج نافذ کیا جائے۔
جیسا کہ ہم اوپر بتاچکے ہیں کہ آندھرا پردیش سے تلنگانہ کی علاحدگی کے خلاف
احتجاج کا سارا کھیل آندھرا کے سرمایہ داروں کا ہے جو تلنگانہ کے قدرتی
وسائل سرکاری ملازمتوں پر غاصبانہ قبضہ کئی شریفانہ معاہدوں کو نظر انداز
کرکے اپنی لوٹ مار کا سلسلہ باقی رکھنا چاہتے ہیں حیدرآباد جیسے شہر سے
محروم ہونے کا ان کے لئے کوئی مسئلہ نہیں ہے بلکہ مسئلہ تو یہ ہے کہ
حیدرآباد اور اطراف و اکناف کے علاقوں کے سیاہ و سفید کے مالک حکمران ان کے
نہ ہوں گے جو ان سرمایہ داروں کو طرح طرح کی مراعات اور رعاتیں، فراہم
کرسکیں گے۔ سرکاری اور مسلم اوقات کی اراضیات ان کو مفت یا کوڑیوں کے مول
ان کو مل نہیں پائیں گی ۔ تلنگانہ سے ان کو زیادہ ضرورت شہر حیدرآباد کی
ہے۔ حیدرآباد سیما و آندھرا میں اگر شامل کردیا جائے (ظاہر ہے کہ یہ ناممکن
ہے) نہ تلنگانہ کی مخالفت رہے گی اور نہ ہی متحدہ آندھرا کی دہائی کوئی دے
گا۔ سب کچھ حیدرآباد کی خاطر ہورہا ہے۔
میڈیا (ذرائع ابلاغ )چاہے اخبارات یا ٹی وی چینلز ہوں ان میں سے زیادہ تر
آندھراہئی سرمایہ داروں کے زیر اثر ہیں ان کی خبریں ہوں بحث ومباحثے یا
تبصرے بھی زیادہ تر اشتہاری یا Paidمعلوم ہوتے ہیں یہ ایسا خیال نہیں ہے جس
کی نہ کوئی دلیل ہو نہ جواز، تلنگانہ کے لئے احتجاج بھی خاصہ طویل اور شدید
رہا ہے لیکن اس کا Coverage(پیشکش) ایسی نہ تھی۔ احتجاجیوں کے تشدد پر
انتظامیہ اور پولیس کی خاموشی نہ دکھائی جاتی ہے اور نہ ہی کوئی تبصرہ اس
پر ہوتا ہے اہل تلنگانہ کی سرگرمیوں، ریالیوں، قائدین کے بیانات وغیرہ کو
برائے نام اہمیت دی جارہی ہے۔ تلنگانہ کے ملازمین کا بہت بڑا جلسہ حیدرآباد
میں ہوا لیکن اس کو برائے نام اہمیت دی گئی۔ قیام تلنگانہ کو آندھراپردیش
کے عوام کے ساتھ زیادتی نا انصافی اور پوری ریاست کے عوام کی مرضی کے خلاف
تبانے کی کوشش کے ساتھ یہ تاثر دیا جارہا ہے کہ ریاست کو متحد رکھنا ہی
ریاست کے تمام علاقوں کے مفاد میں ہے تلگوزبان کے زیادہ تر اخبارات اور ٹی
وی چینلز آندھرائی باشندوں کے ہیں۔ انگریزی اخبارات اور انگریزی و ہندی کے
قومی چینلز جانبداری برت رہے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ اردو زبان کا اکلوتا ٹی
وء چینل جب سے اس کے بانی راموجی راؤ نے کسی بہت بڑے سرمایہ دار کو فروخت
کیا ہے تو تب سے اردو چینل بھی نہ صرف خاصہ بدل گیا ہے بلکہ سیما آندھرا
احتجاج کی حمایت اور پروپگنڈے میں جٹ گیا ہے اور تلنگانہ کا نقطہ نظر یکسر
فراموش کیا جارہا ہے۔
ریاست کو متحد رکھنے کی حمایت کرنے والی دو بڑی سیاسی جماعتیں تلگودیشم اور
جگن ریڈی کی کانگریس کا بی جے پی کی حمایت بلکہ بی جے پی کی حلیف بننے کے
آثار و قرائین بہت مضبوط ہیں۔ شہر حیدرآباد کے اردو اخبارات جماعتی
وفاداریوں اور غیر جانبداری کے ضبط میں مبتلا ہیں۔ مسلمانوں کی اہم اور
طاقتور سیاسی جماعت ایم آئی ایم کا رویہ الگ تھلک رہنے کا ہے جو ناقابل فہم
ہے۔ اگر علاحدہ ریاست تلنگانہ قائم ہوہی رہی ہے تو انٹونی کمیٹی اور کابینہ
کی مجوزہ کمیٹی کے آگے مسلمانوں کے موقف کے بارے میں تیقنات کو یقینی بنانے
اور اپنے تمام مطالبات پیش کرنے اور ان کو منظور کروانے کے لئے نمائندگی کا
یہی وقت ہے اس سلسلہ میں ایم آئی ایم کیا کررہی ہے؟ یہ ہم نہیں کہہ سکتے
ہیں تاہم موجودہ حالات میں ایم آئی ایم کو کرن کمارریڈی سے مستعفی ہونے یا
ان کی برطرفی کا مطالبہ ضرور کرنا چاہئے تھا کیونکہ ایم آئی ایم کی حکومت
کی تائید سے دستبرداری کے بعد وزیر اعلیٰ کرن کمارریڈی نے اخلاقی اصولوں،
شریفانہ روایات کو بالائے طاق رکھ کر اویسی برادران کو انتقام کا نشانہ
بنایا تھا ۔ خاص طور پر اکبرالدین اویسی کی علالت کو نظر انداز کرکے ان کو
چالیس دن تک نہ صرف گرفتار رکھا گیا تھا بلکہ حالت بیماری میں طویل سفر
کروائے گئے اور خاصی اذیتوں سے دوچار کرکے انتقام کا نشانہ بنایا گیا تھا۔
ایم آئی ایم بھلے ہی انتقام نہ لے لیکن ریاست کے مفاد میں کرن کمارریڈی کی
برطرفی کا مطالبہ ضروری ہے۔
قیام تلنگانہ کی مخالفت کرنے والے سیما آندھرا والے اپنی ہی تاریخ بھولے
ہوئے ہیں سابق مدراس موجودہ ٹاملناڈو سے علاحدگی کے لئے سیما آندھرائی ٹی
پر کاشم کی قیادت میں ملک کی آزادی سے قبل سے ہی جدوجہد کرتے رہے تھے۔
ریاست آندھراکے قیام کا فیصلہ ہونے کے بعد چینائی (سابق مدراس) کو حاصل
کرنا تو دور رہا عارضی طور پر آندھرا اور مدراس کا مشترکہ صدر مقام بنانے
میں ناکام رہے تھے۔ آندھراکی ریاست پوٹی سری راملو کی مرن برت کے دوران
مرنے کے بعد قائم ہوئی تھی تو دوسری طرف تلنگانہ کے لئے ایک سو سے زیادہ
نوجوانوں نے پولیس فائرنگ اور احتجاج کرتے ہوئے خودکشی کرکے ہلاک ہوئے تھے۔
آندھرائیوں کو ایک فرد کی موت کے بعد ریاست ملی تھی تو ایک ایسے علاقہ
ولاوں کی علاحدگی (جس کے لئے تلنگانہ والوں نے بے پناہ قربانیاں دی ہیں)
اور جس کا ساتھ صرف 57سال رہا ہے پر ان کا اعتراض کس قدر بے معنی ہے؟ |