عید کے روز عوام کے ساتھ ساتھ
انکے جذبات کی بھی قربانی ہوگئی پاکستان کی موجودہ سیاسی صورتحال کو دیکھ
کر لیاقت علی خان کے کچھ الفاظ کی بازگشت آج ایسے سماعتوں سے ٹکرا رہی ہے
جیسے کسی غار میں کھڑا انسان چلائے تو اسکی آواز بار بار واپس آکر اسے
سنائی دیتی ہے چونکہ پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کی آج بدھ16
اکتوبر کو 62ویں برسی ہے نواب زادہ لیاقت علی خان کا تعلق مشرقی پنجاب کے
زمیندار گھرانے سے تھا مگر انہوں نے روایتی نواب زادوں کے برعکس سادہ اور
جہد مسلسل سے بھرپور زندگی گزاری لیاقت علی خان کو آج ہی کے روز 16 اکتوبر
کو قتل کر دیا گیاتھا مشرقی سوچ و فکر کے سانچے میں ڈھلے لیاقت علی خان نے
آکسفورڈ سے قانون کی تعلیم حاصل کی۔ انگلستان سے واپسی کے بعد انہوں نے
مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کی اور کانگریسی رہنماؤں سے معذرت کرتے ہوئے ان
پر یہ بھی واضح کر دیا کہ مسلمانوں کے مفادات کا تحفظ ان کی اولین ترجیح
ہے۔لیاقت علی خان نے قائد اعظم کے دیرینہ ساتھی ہونے کی حیثیت سے تحریک
پاکستان میں حصہ لیا۔ ان کی سیاسی اور پارلیمانی زندگی میں کئی اتارچڑھاآئے۔
1926 سے 1940 تک لیاقت علی خان یوپی کی مجلس قانون ساز اور بعد ازاں مرکزی
مجلس قانون ساز اسمبلی کے رکن رہے۔ مسلم لیگ میں وہ سیکریٹری جنرل سے لیکر
پارلیمانی ڈپٹی لیڈر تک کئی عہدوں پر فائز رہے لیاقت علی خان کو قیام
پاکستان کے بعد ملک کا پہلا وزیراعظم نامزد کیا گیا۔ ابتدائی سازشوں کے
نتیجے میں لیاقت علی خان کو 16 اکتوبر1951 کو راول پنڈی میں ایک جلسے کے
دوران خطاب کرتے ہوئے قتل کر دیا گیا۔17نومبر 1948 مسلم لیگ کے ایک جلسے کے
دوران انھوں نے کہا تھا کہ "اگر پاکستان کو سرمایہ داروں کے استحصال کیلئے
کھلا چھوڑ دیا گیا تو اس ملک کا مستقبل تاریک ہو جائے گا پاکستان نہ تو
سرمایہ داروں کا ملک ہوگا اور نہ اشتراکیوں کا یہاں صرف اسلامی اصولوں پر
عمل ہوگا۔
آج ملک پر سرمایہ دار قابض ہیں اور انہی کے خاندان عوام کے حقوق پر شب خون
مارتے چلے آ رہے ہیں انتخابات کے ذریعے حکومتیں تو بدلتی ہیں مگر
ظالمانہ،استحصالی اور خونخوار نظام جو 66سال سے قوم کو غلامی میں جکڑے ہوئے
ہے نہیں بدلتا کسی حکومت نے بھی عوام کے مفاد میں پالیسیاں نہیں بنائیں اس
لئے کہ نظام انتخاب ،وڈیروں ،جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کے حق میں ہے
جوعوام کے بد ترین دشمن ہے فکر معاش نے قوم کا حافطہ کمزور کردیاہے،3سے
5سال لوٹنے والوں کو گالیاں دیتی ہے مگر الیکشن کے نزدیک اخبارات،ٹی و ی
چینلز کی کمپین اور مذہبی و سیاسی جماعتوں کے نعروں سے دھوکا کھا کر پھر
انہی طبقات سے امیدلو لگا بیٹھتی ہے جو دھائیوں سے انکا خون چوس رہے ہیں
یہی وجہ ہے کہ آجپیٹرولیم مصنوعات اور بجلی کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے کے
بعد ہونے والی بے پناہ مہنگائی کے بعد لوگ قربان پر جانور قربان کرنے کی
بجائے اپنی قربانی پر مجبور ہو گئے انسان خود تو اپنے اوپر آنے والی ہر
مشکل اور مصیبت کو جھیل اور برداشت کرسکتا ہے مگر جب اسکا خاندان بھی ہو
اور معصوم بچوں کی معصوم خواہشیں بھی ہوں تو پھر اسکے اندر جو حالات اسے
اندر ہی اندر جھنجوڑ رہے ہوتے ہیں اسکا اندازہ لگانا کسی سرمایہ دار کے بس
کی بات نہیں ہوتی آئے روز کی بڑھتی ہوئی غربت نے پاکستان کی 75فیصد آبادی
کو گھاس کھانے پر مجبور کردیا ہے آج مجھے الیکشن سے قبل محسن پاکستان ڈاکٹر
عبدالقدیر خان کے کہے ہوئے وہ الفاظ بڑی شدت سے یاد آرہے ہیں کہ اب بھی وقت
ہے اچھی قیادت کو منتخب کرلو اور اپنے پانی کو ذخیرہ کرنے کا سامان بنا لو
ورنہ آنے والے دور میں آپ لوگوں کو کھانے کو گھاس بھی نہیں ملے گی ابھی تو
نئی نویلی حکومت کو 4ماہ ہی ہوئے ہیں اور عوام کی چیخیں آسمان تک پہنچ رہی
ہیں لوگ بے روزگاری اور غربت کے ہاتھوں آئے روز قربان ہورہے ہیں اور اب عید
کے موقعہ پر پاکستان کی 75فیصد عوام اپنے جذبات کی اجتماعی قربانی بھی پیش
کریں گے کیونکہ ان میں نہ خریدنے کی سکت ہے اور نہ ہی خرچ کرنے کے لیے کچھ
میسر ہے اگر کسی نے ترس کھا کر دو چار بوٹیاں گوشت بھیج بھی دیا تو اسے
پکانے کے لیے ٹماٹر اور پیاز دستیاب نہیں ہوگا حکومت نے تو عوام کی دھجیاں
ایسے آڑائی ہیں جیسے قصائی عوام کی آڑا رہے ہیں سب سے بڑھ کر ایک اور مرض
جو ہماری نسو میں سما چکا ہے وہ یہ کہ جب ہم کوئی چیز بیچنے لگتے ہیں تو
کوشش کرتے ہیں کہ آئے ہوئے خریدار کے کپڑے بھی اتار لیں اور اسے بلکل ننگا
کرکے واپس بھیجیں ایک روپے کی چیز کو ایک ہزار میں فروخت کرنے کی کوشش کرتے
ہیں ناجائز منافع خوری پر بھی حکومت نے آنکھیں بند کررکھی ہیں ناجائز منافع
خوری اور سرمایہ دارانہ نظام نے عام آدمی کیلئے قربانی کرنا ناممکن بنا دیا
ہے لگتا ہے کہ عام آدمی علماء سے فتویٰ لے کر مرغی کی قربانی کریں - |