بلدیاتی انتخابات جو پوری دنیا
میں جمہوریت کی بنیاد سمجھے جاتے ہیں اور پوری دنیا میں اسے جمہوریت کی
نرسریاں کہا جاتا ہے کیونکہ اسی سسٹم کے تحت لوگ گراس روٹ لیول سے اوپر آکر
ملک کی خدمت کرتے ہیں مگر ہمارے ہاں رواج تھوڑا مختلف ہے یا پھر کر دیا گیا
ہے ہر حکومت اس سسٹم کو اپنے مخصوص مقا صد کے لئے استعمال کرنے کی کوشش
کرتی ہے اور جب اس کا مطلب پورا ہو جاتا ہے تو انھی انتخابات کو ڈرامہ قرار
دے دیا جاتا ہے یا پھربلدیاتی انتخابات کو منعقد کروانے میں لیت و لعل سے
کام لیا جاتا ہے ان انتخابات کو اپوزیشن جماعتوں کی جناب سے منعقد نہ
کروانے کا مطالبہ تو سمجھ میں آتا ہے مگر حکومتی پارٹی کی جانب سے ان
بلدیاتی انتخابات کی مخالفت کی کوئی منطق سمجھ نہیں آتی ۔حکومت ان انتخابات
سے ایسے ہی ڈر رہی ہے جیسے اس سے اس کی شکست یقینی ہے ان انتخابات کو
التواء میں ڈالنے کی وجہ سے ملک کی اعلیٰ عدلیہ کو اس پر ایکشن لینا پڑا
کیونکہ پاکستان کے عوام بھی یہ جاننا چاہتے ہیں کہ ایسی کون سی وجوہات ہیں
جن کیوجہ سے بلدیاتی انتخابات منعقد نہیں کروائے جا رہے۔ چیف جسٹس نے صوبوں
کی جانب سے بلدیاتی انتخابات سے متعلق رپورٹ پیش نہ کرنے پر برہمی کا اظہار
کیاہے ان کا کہنا تھا کہ صوبائی حکومتیں فوری انتخابات کرائیں یا انتخابات
نہ کرانے سے متعلق تحریری جواب داخل کرائیں ان کا مذید کہنا تھا کہ بلدیاتی
انتخابات کے لئے کسی کو مرضی کی تاریخ نہیں دیں گے اس بارے میں جب ایڈیشنل
ایڈووکیٹ جنرل پنجاب سے پوچھا کہ بتایا جائے کہ پنجاب حکومت کیوں بلدیاتی
انتخابات نہیں کروا رہی تو وہ کوئی مستخکم سا جواب نہ دے سکے جب اعلیٰ
عدلیہ کی جانب سے کہا گیا کہ پنجاب اور سندھ کی حکومتیں تحریری طور پر لکھ
کر دیں کہ وہ کس تاریخ کو بلدیاتی انتخابات کرائیں گی تو کہیں سے کوئی بھی
جواب نہیں ایا جس سے ظاہر ہے کہ کوئی بھی حکومتی جماعت ان انتخابات کو
منعقد کروانے میں دلچسپی نہیں رکھتی ۔یہاں یہ نقطہ بھی بہت اہمیت کا حامل
ہے بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے جمہوری حکومت سے مارشل لاء والے بہت بہتر
تھے جنہوں نے بلدیاتی انتخابات وقت پر کروائے جو کہ جمہوریت پسند قوتوں کے
لئے لمحہ فکریہ ہے پنجاب اور سندھ حکومت نے سپریم کورٹ کے بار بار کہنے کے
باوجود الیکشن کے انعقاد سے متعلق تحریری طور پر کوئی تاریخ لکھ کر نہیں دی
جس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ حکومتیں ان بلدیاتی انتخابات کو منعقد کروانے میں
غیر سنجیدہ ہیں پنجاب کے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل نے 14 دسمبر کو الیکشن
کرانے پر آمادگی ظاہر کی مگر وہ تحریری طور پر یہ تاریخ لکھ کر نہیں دے سکے
جس سے ظاہر ہے کہ وہ ابھی تک تذبذب کا شکار ہیں اور اس بارے میں حکومت بھی
کوئی فیصلہ کرنے سے کترا رہی ہے ادھر بلوچستان حکومت نے کابینہ کی عدم
موجودگی میں کوئی تاریخ دینے سے معذرت کی ہے جبکہ صوبہ خیبر کی حکومت نے
قانون سازی کرنے کے حوالے سے اپنا مؤقف پیش کیا اور 45 روز کا وقت مانگا ہے
ملک میں بلدیاتی ادارے ختم ہوئے چار برس ہونے کو ہیں مگر سابقہ حکومتوں نے
نچلی سطح پر جمہوریت کے اس ادارے کی مدت ختم ہونے کے بعد بھی مختلف عذر پیش
کر کے الیکشن نہیں کرائے اور ہر بار ٹال مٹول سے ان کو ملتوی کیا جاتا رہا
سپریم کورٹ نے بلدیاتی ادارے بحال کرنے اور ان کے الیکشن کرانے کے بارے میں
وفاقی اور صوبائی حکومتوں سے دریافت کیا اور ستمبر میں الیکشن کرانے کا حکم
دیا تاہم صوبائی حکومتوں نے بلدیاتی نظام کے حوالے سے قانون سازی کرنے کے
لئے مہلت طلب کی بلدیاتی ادارے منتخب نمائندوں کی نگرانی میں نہ ہونے اور
منتخب ناظم یا کونسلر نہ ہونے سے شہریوں کو بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑ
تا ہے بلدیاتی نمائندوں کے انتخاب کے لئے الیکشن کرانا صوبوں کی آئینی ذمہ
داری ہے اسے بلاتاخیر پورا کرنا ہو گا گزشتہ 4 برسوں میں بلدیاتی ادارے نہ
ہونے سے عوام کو گلی محلے کی سطح کے مسائل حل کروانے میں بہت سی مشکلات کا
سامنا ہے اور وہ ان چھوٹے مسائل کے حل کے لئے کسی ایم این اے یا ایم پی اے
کی راہ تکتے رہتے ہیں اگر یہ سسٹم نچلی سطح پر ہو گااور نچلی سطح پر عوام
کے منتخب نمائندے آنے کے بعد عوام کے مسائل نچلی سطح پر حل ہوں گے بلدیاتی
اداروں میں منتخب نمائندے آنے کے بعد صوبائی حکومتیں چھوٹے معاملات کی
نگرانی اور ان میں بہتری لانے کی ذمہ داری سے آزاد ہو جائیں گی اور یہ ذمہ
داری بلدیاتی نمائندے سرانجام دیں گے توصوبائی حکومتیں بڑے منصوبوں اور
صوبے کے لئے پالیسی سازی اور انفراسٹرکچر میں بہتری لانے کی ذمہ داری انجام
دینے پر توجہ دے سکیں گی اس کے ساتھ ساتھ الیکشن کمیشن کو ہر صوبے میں
انتخابات کے انعقاد اور پولنگ کے عمل کو شفاف بنانے کے لئے 11 مئی کے عام
انتخابات کے تجربات کی روشنی میں اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہو گی تاکہ
انتخابی عمل پر کوئی انگلی نہ اٹھا سکے اس سلسلہ میں تمام متعلقہ اداروں کو
الیکشن کمیشن سے مکمل تعاون کرنا ہو گا تاکہ ملک میں فری ایند فئیر بلدیاتی
انتخابات کا انعقاد ممکن بنایا جا سکے اس حوالے سے عوام اور خصوصا نوجوانوں
کو اس بات کو سامنے رکھنا ہو گا کہ ملک میں حقیقی تبدیلی کے لئے چہروں کی
نہیں بلکہ نظام کو بدلنے کی کوشش کرنی ہو گی کیونکہ پچھلے ساٹھ ،پینسٹھ
سالوں سے اس ملک کے ساتھ یہی المیہ رہا ہے کہ یہاں تبدیلی صرف چہروں کی ہی
آئی ہے کھبی نظام میں تبدیلی نہ آ سکی جس کی وجہ سے عوام کے مسائل جوں کہ
توں ہیں بلکہ ان میں خطرناک حد تک اضافہ ہو رہا ہے اس لئے ضرورت اس امر کی
ہے الیکشن کمیشن کے ساتھ ساتھ جمہوریت پسند قوتیں بھی ان انتخابات کو فری
ایند فئیر بنوانے میں اپنا کردار ادا کریں اور حکومت کو چاہیے کہ وہ فوری
طور پر ان انتخابات کو منعقد کروانے کے لئے تمام تر ضروری اقدامات کرے
کیونکہ اس سے عوام کو فائدہ ہونے کے ساتھ ساتھ جمہوریت کے فروغ میں مدد ملے
گی ۔ |