31دسمبر 2011 کا سورج جاتے جاتے ادیب ، مترجم و کالم نگار
شاہ محی الحق فاروقی کو اپنے ہمراہ لے کر غروب ہوا۔ فاروقی صاحب حکومت
پاکستان کے ریئٹائرڈ جوائنٹ سیکریٹری تھے اور کراچی کی ایک دور افتادہ بستی
میں گزشتہ کئی برس سے مقیم تھے۔ راقم کی فاروقی صاحب سے پہلی ملاقات گزشتہ
برس ہوئی تھی۔انہوں نے 1998 میں’ بلبلیں نواب کی‘ کے عنوان سے ایک کتاب کا
ترجمہ کیا تھا، یہ ہندوستان کی سول سروس سے وابستہ رہے موسی رضا کی
یاداشتوں کا مجموعہ ہے، ملاقات کا سبب متذکرہ کتاب تھا۔ 82 برس کی عمر میں
بھی فاروقی صاحب کی بذلہ سنجی قائم تھی۔ میں ایک صاحب کے ساتھ گیا تھا، میز
پر مشروبات و فواکہات دھرے تھے۔ فاروقی صاحب نے دھیرے سے ہم سے کہا: لیجیے،
تکلف نہ کریں
ان صاحب نے رسمی جملے کا سہارا لیا: " ارے صاحب! تکلف کیسا! اپنا ہی گھر
ہے"
اور فاروقی صاحب بیساختہ بولے: " خیر صاحب ! گھر تو میرا ہے"
ہمارے قہقہوں میں فاروقی صاحب نے ہمارا ساتھ دیا تھا!
شاہ محی الحق فاروقی کی تصانیف میں بلبلیں نواب کی ، بیدار دل لوگ (خاکوں
کا مجموعہ)، کھٹے میٹھے انار (کالمز کا مجوعہ) اور ان دیکھی گہرائیاں
(ہارون ابن علی کی انگریزی خودنوشت کا ترجمہ ) ، ’ایک جج ہنس بھی سکتا ہے
شاید(جسٹس ایم آر کیانی کی کتاب ترجمہ)،رہنمائے تربیت، تفہیم کراچی، سانحہ
مشرقہ پاکستان، تصوری کا دوسر رخ، شمالی امریکہ کے مسلمان شامل ہیں۔ فاروقی
صاحب نے اپنی خودنوشت سپرد تحریر کے بعد گزشتہ کئی برس سے اپنے پاس محفوظ
رکھی ہوئی تھی، وہ اس کی اشاعت کے متمنی تھے ۔ ان کے انتقال کے تیسرے روز
راقم معروف ادیب ،شاعرو ناشر سید معراج جامی کو ان کے صاحبزادے کے پاس
مذکورہ خودنوشت کی اشاعت کے سلسلے میں بات چیت کے لیے لے گیا اور ایک مختصر
سی نشست کے بعد فاروقی صاحب کے صاحبزادے نے کتاب کی اشاعت کی منظوری دے دی۔
مذکورہ خودنوشت گزشتہ برس بزم تخلیق ادب سے شائع ہوچکی ہے۔ کاش کہ یہ
خودنوشت فاروقی صاحب کی زندگی میں شائع ہوجاتی۔ فاروقی صاحب نے اپنی
خودنوشت کا نام بھی کچھ الگ ہی رکھا تھا۔ کلرک سے کلرک تک۔ایک Sir گزشت۔
اِس دلچسپ نام کی وجہ ِ تسمیہ اْن کے الفاظ میں یہ تھی کہ جب اْنھوں نے
ملازمت کا آغاز کیا تھا تو وہ ہر شخص کو SIR کہا کرتے تھے اور جب ملازمت سے
سبکدوش ہوئے تو ہر شخص اْن کو SIR کہہ رہا تھا۔
شاہ محی الحق فاروقی کے بڑے بھائی ڈاکٹر سید مشیر الحق، کشمیر یونیورسٹی کے
وائس چانسلر تھے، ایک روز وہ گورنر جگ موہن سے مل کر واپس آرہے تھے کہ رستے
میں اغوا کرلیے گئے اور پھر 10 اپریل 1990کے دن ان کی لاش ملی۔یہ وقت کراچی
میں مقیم شاہ محی الحق فاروقی پر بہت کڑا گزرا تھا، انہیں باوجود کوشش کے
ہندوستان کا ویزا نہ مل سکا اور وہ اپنے بھائی کی تدفین میں شریک نہ ہوسکے۔
شاہ محی الحق فاروقی 15 جون 1932کو ہندوستان کے صوبہ یوپی کے قصبہ بحری
آباد ضلع غازی پور میں پیدا ہوئے۔ شبلی کالج اعظم گڑھ سے 1947میں میٹرک
کیا۔ اسی سال اکتوبر میں پاکستان آگئے۔ سندھ مسلم کالج کراچی سے بی اے اور
اسلامیہ لا کالج سے ایل ایل بی کیا اور پھر سرکاری ملازمت اختیار کی۔ شاہ
محی الحق فاروقی نے اپنی ملازمت کا آغاز بطور ایک جونیئر کلرک کیا اورآخر
میں فنانس ڈائریکٹر کے منصب سے سکبدوش ہوئے۔ شاہ محی الحق فاروقی نے وفاقی
پبلک سروس کمیشن سے لوئر ڈویڑن کلرک (LDC) کا امتحان پاس کیا۔1951 میں
وفاقی وزارتِ قانون میں تعیناتی ہوگئی۔1959میں اسسٹنٹ سے ترقی پاکر وفاقی
سیکریٹریٹ کے اوّلین سیکشن آفیسرز میں منتخب ہوئے۔ پھر اپنی خداداد
صلاحیتوں کی مدد سے ترقی کرتے ہوئے کیبنٹ ڈویڑن کے جوائنٹ سیکریٹری کے عہدے
تک پہنچے اور بالآخر 15 جون 1992 کو کاٹن ایکسپورٹ کارپوریشن کے ڈائریکٹر
فنانس کے عہدے سے ریٹائر ہوئے۔
فاروقی صاحب کے ایک قریبی عزیزاحمد حاطب کی بیان کردہ تفصیلات کے مطابق
’’شاہ محی الحق فاروقی نے اپنے ادبی سفرکا آغاز مدیر ماہنامہ ’’ساقی‘‘ شاہد
احمد دہلوی، مدیر ماہنامہ ’’نقش‘‘ شمس زبیری، مدیر پندرہ روزہ ’’نمک دان‘‘
مجید لاہوری اور سابق صدر شعبہ اْردو، جامعہ کراچی ڈاکٹر اسلم فرخی وغیرہ
کی معیت میں کیا تھا۔ یہی لوگ اْن کے ادبی ہم سفر اور اْن کے ادبی ارتقا کے
شاہدین میں سے تھے۔ دارالمصنفین اعظم گڑھ کے سابق ناظم مولانا صباح الدین
عبدالرحمن اْن کے معترفوں میں سے تھے، محب عارفی اْن کے گہرے دوستوں میں سے
تھے اور ڈاکٹر محمود احمد غازی اور ڈاکٹر محمد الغزالی اْن کے نیازمندوں
میں سے۔ 1962 میں جب وہ اسلامی نظریاتی کونسل کے پہلے سیکریٹری مقرر ہوکر
لاہور گئے تو وہاں اْن کی ملاقات مولانا کوثر نیازی سے ہوگئی۔ مولانا کی
فرمائش پر اْن کے ہفت روزہ ’’شہاب‘‘ میں ابن منیر کے قلمی نام سے تازہ
خبروں پر طنزیہ تبصرے لکھتے رہے۔ 1964 میں اْن کی تقرری اسلام آباد میں
ادارہ تحقیقاتِ اسلامی میں ہوگئی۔ فاروقی صاحب نے ادارے کے تحقیقی جریدے
’’فکرونظر‘‘ میں بہت سے طبع زاد مضامین لکھے اور انگریزی سے کئی ترجمے بھی
کیے۔ اْن کے طبع زاد مضامین میں ’’وقف علی الاولاد‘‘ اور ’’اہانتِ انبیاء‘‘
کے موضوعات پر شائع ہونے والے مضامین کو بڑی پذیرائی ملی۔فاروقی صاحب ایک
بلند پایہ مزاح نگار اورانتہائی مقبول کالم نگار تھے۔ روزنامہ ’’اْمت‘‘
کراچی میں ایک طویل مدت سے ’’کھٹے میٹھے انار‘‘ کے مستقل عنوان سے پْرلطف
اور پْرمزاح کالم نگاری کررہے تھے۔ ’۔ اْنھوں نے مزاح میں بھی متعدد تراجم
کیے جن میں امریکی مزاح نگار مارک ٹوئن کے مزاح پارے بھی شامل ہیں۔
کم ’’مزاح نگار‘‘ ایسے ہوتے ہیں جو ’’مجلسی مزاح گو‘‘ بھی ہوں۔ فاروقی صاحب
اپنی تحریروں کی طرح اپنی مجلسی گفتگو سے بھی محفل کو کشتِ زعفران بناکر
رکھ دیتے تھے۔ اصل میں وہ تھے ہی مجلسی آدمی۔ اْن کے
کالموں میں بھی مجلسی گفتگو ہی کے چٹخارے ملتے تھے۔ وہی قصے، وہی کہانیاں،
وہی لطیفے اور وہی حاضر جوابیاں۔
فاروقی صاحب بڑے حاضر جواب آدمی تھے۔ پاکستان قومی اتحاد نے جب 1978ء میں
ضیاء الحق کی کابینہ میں شمولیت کا فیصلہ کیا تو محموداعظم فاروقی صاحب
وزیرِاطلاعات ونشریات مقرر کیے گئے۔ شاہ محی الحق فاروقی کی دینداری اور
دیانت داری کے سبب، محموداعظم فاروقی صاحب نے اِس خواہش کا اظہار کیا کہ وہ
اْن کے سیکریٹری کے طور پر کام کریں۔ محی الحق فاروقی صاحب نے انکار کیا تو
محموداعظم فاروقی صاحب نے کہا:’’آپ جیسے دیانت دار لوگ بھی انکار کریں گے
تو افرادِکار کہاں سے آئیں گی؟ آخرآپ کیوں انکار کررہے ہیں؟‘‘ محی الحق
فاروقی صاحب پہلے تو کچھ دیر عذر سوچتے رہے پھر بولی: ’’آپ کے لیے بڑی مشکل
ہوجائے گی‘‘۔ محمود اعظم فاروقی صاحب نے قدرے تلخ لہجے میں پوچھا:’’کیا
مشکل ہوجائے گی؟‘‘ محی الحق فاروقی صاحب نے جواب دیا: ’’جب آپ فون اْٹھاکر
کہیں گے کہ میں فاروقی بول رہا ہوں تو ہر شخص ہر مرتبہ یہ پوچھے گا کہ کون
سے فاروقی؟ مسٹر فاروقی یا منسٹر فاروقی؟‘‘
شاہ محی الحق فاروقی کے برادر نسبتی احمد حاطب صدیقی مزید بیان کرتے ہیں کہ
فاروقی صاحب کیبنٹ ڈویڑن کے جوائنٹ سیکریٹری تھے کہ 1990ء میں یکایک اْن کا
تبادلہ ٹریڈنگ کارپوریشن آف پاکستان کے ڈائریکٹر فنانس کے عہدے پر کردیا
گیا۔ یہ بے نظیر بھٹو کا پہلا دورِ اقتدار تھا۔ وزیراعظم کی ایک قریب ترین
شخصیت نے اْن سے بالواسطہ طور پر ایک ایسا کام کروانا چاہا جو غیرقانونی
اور ناجائز تھا۔ فاروقی صاحب نے صاف انکار کردیا۔ سزا کے طور پر وہ
افسربکارِ خاص (OSD) بناکر ایک گوشے میں بٹھا دیے گئے۔ اْسی زمانے کا ذکر
ہے کہ یہ عاجز کالم نگار اْن سے ملاقات کے لیے ایک روزکراچی سے اسلام آباد
پہنچا۔ معلوم ہوا کہ اْن کی تعیناتی سیکریٹریٹ نمبر دو میں ہے۔ وہاں پہنچ
کر اْن کا کمرہ پوچھنا شروع کیا۔ فاروقی صاحب دفتر میں بھی شیروانی اورچوڑی
مْہری کا علی گڑھ کٹ پاجامہ پہن کر جایا کرتے تھے۔ وہ اپنے دفتر میں ''S.
M. H. Farooqi'' کے نام سے پہچانے جاتے تھے، جب کہ اْن کا یہ ملاقاتی ہر
شخص سے ’شاہ محی الحق فاروقی‘ کو پوچھتا پھر رہا تھا۔ بالآخر ایک صاحب نے
تفتیشِ مزید کی خاطر شکل، صورت اور حلیہ پوچھا تو لفظوں میں اْن کا سراپا
کھینچ دیا۔ وہ لہک کر بولا: ’’اچھاآآآ……وہ پاجامے والے سیکریٹری؟‘‘ تب یاد
آیا کہ اْن کی نمایاں شناخت تو اْن کا لباس ہی ہے۔ خوش ہوکر کہا:’’جی
ہاں……وہی وہی‘‘۔ یوں ہم اْن کے کمرے میں پہنچائے گئے۔ سب سے پہلے ہم نے اْن
کو یہی قصہ سْنایا اور اْن سے کہا کہ:’’صاحب! یہاں تو آپ پاجامے والے
سیکریٹری کے طور پر پہچانے جاتے ہیں‘‘۔ کہنے لگی:’’ہاں میاں…… اب یہاں بس
ایک میں ہی تو پاجامے والا رہ گیا ہوں……‘‘
شہر کراچی سے ایک محبت کرنے والا شخص اٹھ گیا، فاروقی صاحب کا ہر چاہنے
والا ان کی جدائی کے کرب کو اپنے دل میں محسوس کررہا ہے:
مرگ مجنوں پہ عقل گم ہے میر
کیا دوانے نے موت پائی ہے |