بسم اﷲ الرحمن الرحیم
سعودی عرب کا جرات مندانہ فیصلہ
سعودی عرب نے اقوام متحدہ کے موثر ترین ادارے سلامتی کونسل کی نشست کو
ٹھکرادیاہے۔اس جرات مندانہ فیصلے کااعلان 18اکتوبر2013بروز جمعہ کوسعودی
وزارت خارجہ کی طرف سے سعودی سرکاری خبررساں ادارے ’’سعودی پریس
ایجنسی(SPA)‘‘نے کیاہے۔اس سے ایک ہی روز قبل سلامتی کونسل کے پانچ غیر
مستقل ارکان کے لیے جنرل اسمبلی میں انتخابات ہوئے جن میں سعودی عرب کو
پہلی مرتبہ اس ادارے کارکن چناگیا۔سلامتی کونسل کے کل پندرہ ارکان ہوتے
ہیں،ان میں سے پانچ مستقل طور پر اس دنیاکی گردن پر مسلط ہیں اور ان کا
تسلط سیکولرجمہوریت میں فسطائیت کی بدترین مثال ہے۔باقی دس ارکان
جودودوسالوں کے لیے منتخب ہوتے ہیں ان کادورانیہ پورا ہونے پرانہیں برخواست
کر دیاجاتا ہے اور ان کی جگہ نئے ارکان ممالک کاچناؤکیاجاتاہے۔سلامتی کونسل
کے مستقل رکان،امریکہ،برطانیہ،فرانس،روس اور چین ہیں جبکہ اس بار جن ممالک
کی مدت ختم ہوئی ہے ان میں آذربائجان،گوئٹے مالا،موراکو،ٹوگواور وطن
عزیزپاکستان شامل ہیں ان کی جگہ جن نئے پانچ ملکوں کو چنا گیاہے ان میں
چاڈ، چلی، لتھوینیا، نائجیریا اورسعودی عرب شامل ہیں۔ان ملکوں نے جنوری
2014سے اپنی نشست پربراجمان ہونا ہے جبکہ گزشتہ مذکورہ ممالک اپنی نشستیں
خالی کر دیں گے۔اس تبدیلی کی حیثیت محض سرخی پوڈر کی تبدیلی کی سی ہے
درحقیقت اس ادارے کے کل فیصلے انہیں ممالک کی آشیربادکے متمنی ہوتے ہیں جو
یہاں مستقل طور پر مسلط ہیں۔
سعودی عرب پہلی مرتبہ اس ادارے کا رکن منتخب ہواہے،اگرچہ یہ ایک طرح
کااعزازاورمملکت کی خارجہ پالیسی کاروشن پہلوسمجھاجاتاہے کہ عالمی بین
الاقوامی ادارے کی اعلی ترین اختیاراتی کونسل کی رکنیت حاصل ہو چکی لیکن
سعودی حکمرانوں نے اقوام متحدہ کی تاریخ میں پہلی بار یہ ہمت آفریں قدم
اٹھایا ہے کہ اقوام متحدہ کے اجتماعی رویے کے خلاف اس نشست کو قبول کرنے سے
انکارکردیاہے۔سعودی وزارت خارجہ کے بیان میں کہاگیاہے کہ اقوام متحدہ جیسا
بین الاقوامی ادارہ اپنے دہرے معیارکے باعث دنیامیں امن قائم کرنے میں
ناکام رہا ہے۔بیان میں سعودی اقتدار کی طرف سے ’’شام‘‘کے معاملے میں سلامتی
کونسل کے مکروہ رویے کو سخت نتقید کانشانہ بنایا گیا ہے جو ماضی قریب میں
اس ادارے نے پیش کیاہے۔سعودی وزارت خارجہ کی طرف سے بیان میں یہ بھی
کہاگیاہے کہ جب تک اقوام متحدہ کے اس ادارے میں عالمی امن کے قیام کی خاطر
مناسب اصلاحات نہیں کی جاتیں اس وقت تک سعودی عرب اپنی اس نشست سے دست
بردار رہے گا۔بیان میں اقوام متحدہ کی ناکامیوں کاذکرکرتے ہوئے مسئلہ
فلسطین کے حل میں ناکامی اور مشرق وسطی کوہتھیاروں سے پاک کرنے میں اور خاص
طور پر ایٹمی ہتھیاروں سے پاک کرنے میں ناکامی کو بھی دہرایاگیاہے۔سعودی
عرب نے یہ الزام بھی عائد کیاکہ اقوام متحدہ نے شامی حکومت کو کھلی چھوٹ دے
رکھی ہے کہ وہ اپنی عوام کو کیمیائی ہتھیاروں سے قتل کرتی رہے اور اس پر
کوئی پابندی بھی نہیں لگائی گئی۔کم و بیش اسی طرح کے خیالات کا اظہار سعودی
وزیرخارجہ سعود الفیصل نے جنرل اسمبلی سے خطاب کے دوران بھی کیاتھا،اور اس
سے قبل امریکی صدر نے جب ایرانی نومنتخب صدر سے فون پر گفتگو کی تواے بی سی
نیوز کے مطابق سعودی عرب اس پر بھی سخت نالاں نظر آیا۔سعودی حکومت ایک عرصہ
سے اس نشست کے حصول کی خاطر عالمی سطح پرتگ و دو کررہی تھی،انتخابات میں
کامیابی کے بعد مملکت میں خوشی کی لہر بھی دوڑ گئی اور ایک دوسرے کو تہنیت
کے پیغامامات بھی ارسال کیے گئے لیکن اچانک اس غیر متوقع فیصلے نے پوری
دنیاکو چونکادیاہے۔یہ فیصلہ سعودی عرب کی گزشتہ تاریخی رویے کے بالکل برعکس
ہے۔خاص طور پر شاہ فیصل بن عبدالعزیزکی شہادت کے بعد توسعودی عرب کی خارجہ
پالیسی بالکل ہی مغرب کے تابع ہو کررہ گئی تھی،رہی سہی کسر 9/11کے واقعے کے
بعدوالے حالات نے پوری کردی اورسعودی عرب کلیتاََامریکہ کی چھتری تلے سما
گیاتھا۔
اقوام متحدہ سے پہلے بھی اسی نوعیت کے دو ادارے ناکام ہو کر تاریخ کے صفحات
میں دفن ہو چکے ہیں۔1889ء میں’’بین الپارلیمانی یونین‘‘
(Inter-Parliamentary Union,)بنی،اس میں چوبیس ممالک رکن بنے جو ہر سال ایک
کانفرنس میں مل بیٹھتے اور باہمی معاملات گفت و شنید سے حل کرلیتے۔یونین کی
کاروائی ایک صدر کے تحت چلتی تھی۔سیکولرسوچ کاحامل یہ ادارہ دنیاتو دور کی
بات ہے خود اپنی جنم بھونی،یورپ،میں ہی امن قائم نہ رکھ سکااور1914میں پہلی
جنگ عظیم کے آغاز کے ساتھ ہی اس ادارے کو ابدی نیند سلادیاگیا۔ جنگ عظیم
اول کے فوراََبعد یورپ کے کونوں کھدروں سے امن کی آوازیں بلند ہونا شروع
ہوئیں اور نبی آخرالزماں ﷺنے صدیوں پہلے جو درس دیاتھا وہ ان سیکولرازم کے
پیروکاروں کوبیسویں صدی کے آغاز میں یادآنا شروع ہوا جب کہ اسی سیکولرازم
کے ہاتھوں دنیا تباہی کی تصویر بن چکی تھی۔بہرحال ’’ورسائی‘‘کے معاہدہ امن
کی بنیاد پریکم جنوری1920کو’[لیگ آف نیشنز‘‘کو وجود بخشا گیا۔ابتداََ اس
تنظیم میں 28اتحادی اور14غیرجانبدار ممالک شامل ہوئے،بعد میں یہ تعداد 60تک
بھی پہنچی۔1935میں جاپان اور جرمنی نے اس تنظیم سے علیحدگی اختیار کر لی
جبکہ1937میں اٹلی بھی الگ ہوگیا۔یہ ادارہ کم و بیش وہی مقاصد رکھتاتھاجو آج
قوام متحدہ کے مقاصدہیں یعنی امن عالم کا قیام ۔جینوااس کا صدر مقام
تھااورپوری دنیامیں امن کے خواہاں اس ادارے میں دوزبانیں بطور دفتری زبانوں
کے استعمال ہوتی تھیں ،انگریزی اور فرانسیسی۔اس ادارے کے موسسین کو یہ خیال
بھی نہ آیا کہ پوری دنیاکی ٹھیکیداری اٹھانی ہے تو یورپ کے علاوہ باقی
دنیاؤں سے بھی کوئی ایک آدھ زبان لے لیتے،لیکن تاریخ شاہد ہے کہ کچھ بھی ہو
سفید چمڑی والے اپنے تعصب کو خیرآباد نہیں کہ سکتے۔’’لیگ آف نیشنز‘‘اپنے
آغازمیں تو کسی حد تک موثررہی لیکن جب بڑی طاقتوں کے مفادات پر ضرب لگنے
والی ہوتی توسب ضابطے،قائدے،اصول،قوانین حتی کہ اخلاقیات تک دھرے کے دھرے
رہ جاتے اورخاص طورپر چھوٹی قوام کے معاملے میں لیگ محض تماشائی ہی بنی
رہتی۔11دسمبر1939کو لیگ نے اپنی آخری کاروائی میں روس کی رکنیت معطل کردی
اور اسے لیگ سے نکال دیاگیالیکن اس وقت تک یورپ کے چھوٹے چھوٹے جھگڑے بھی
بہت بڑے ہو چکے تھے اور دوسری جنگ عظیم کا بگل بج گیااوریوں یہ ادارہ بھی
اپنا منہ چھپاتے ہوئے شرمندہ انسانیت پوری جنگ عظیم دوئم کے دوران پردہ پوش
رہا۔سیکولرازم کے اس دوسرے ادارے کا کفن دفن 18اپریل1946کوہواجس کے آخری
اجلاس کے بعد ’’لیگ آف نیشنز‘‘اس دارفانی سے کوچ کر گئی۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد جب دنیاکے ڈھیر سے بارود کی بواور سیکولرازم کا
دھواں اٹھ رہا تھاتو’’اقوام متحدہ ‘‘کے عنوان سے تیسری دفعہ امن عالم کے
خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لیے ٹھیکیداران انسانیت اکٹھے
ہوئے۔24اکتوبر1945کواس ادارے کی تاسیس ہوئی۔سیکولرازم کے نمائندہ اس ادارے
کے قیام کا مقصد بھی دنیامیں امن اور انسانی حقوق کی پاسداری تھا،چنانچہ ان
مقاصدکے حصول کے لیے اس ادارے کے آغاز سے ہی مشرق بعید میں’’ مسئلہ
کشمیر‘‘اور مشرق وسطی میں’’اسرائیل‘‘کی بنیاد رکھ دی گئی تاکہ دنیا بھر میں
’’امن ‘‘قائم ہو سکے۔یورپ کے مسلمان اکثریتی علاقوں پر چونکہ روس کاقبضہ
تھا اس لیے وہاں فوری طور پراس طرح کے اقدام کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی تاہم
1991میں جب بوسنیا آزاد ہوااور وہاں کی اکثریت نے اپنے اسلامی تشخص کو
دنیاسے منوانا چاہا تو وہاں بھی اقوام متحدہ نے ’’امن‘‘قائم کردیااور
بوسنیاکی آبادی میں قتل عام سے لاکھوں انسانوں کوسینکڑوں اجتماعی قبروں میں
اقوام متحدہ نے ’’انسانی حقوق‘‘بھی فراہم کر دیے۔کشمیر میں لاکھوں مسلمان
تہہ تیغ ہو گئے لیکن آج تک وہاں بھی ’’امن‘‘قائم ہے جبکہ مشرقی تیمور میں
دو عیسائیوں کے قتل کے باعث اسے انڈونیشیاسے کاٹ کر الگ ملک بنا دیااور
راتوں رات اسے اقوام متحدہ کی رکنیت بھی دے دی اور یہی ’’حسن سلوک‘‘سوڈان
کی اسلامی ریاست کے ساتھ بھی کیاگیا۔افغانستان،شیشان،برما،اریٹیریا،مصر اور
شام میں بھی اقوام متحدہ بڑی خوش اسلوبی سے ’’امن‘‘قائم کررہی ہے اور ہر
سال کے بعد سالانہ رپورٹ جب پیش ہوتی ہے اقوام متحدہ کے ارباب حل و عقداس
رپورٹ پراطمنان کا اظہار کرتے ہیں۔ان حالات میں سعودی عرب کی قیادت لائق
تحسین اورباقی ممالک کے لیے قابل تقلیدہے کہ انسانیت کے استحصال کرنے والے
ادارے کے منہ پر ایک زوردارتھپڑ رسید کیاہے۔پس اب وہ دن قریب آن لگا ہے کہ
دنیاکے دریاؤں میں پانی کی جگہ خون بہانے والا یہ ادارہ بھی اپنے پیش رو
دونوں اداروں کی مانندماضی کے کھنڈرات میں بدل جائے گالیکن اس کے بعداب کی
بارکل انسانیت کی باگ دوڑ امت مسلمہ کے ہاتھ میں ہو گی اور دنیاکی قیادت سے
سیکولرازم کو دیس نکالاکر دیاجائے گااور انبیاء علیھم السلام کے وارثین اس
دنیا کی امامت پر فائز ہوں گے،اور خطبہ حجۃ الوداع منشور انسانیت
ہوگا،انشاء اﷲتعالی۔ |